اسلام آباد وطنِ عزیز کے لئے "ماڈل" شہر تسلیم ہوتا ہے۔ 1960کی دہائی سے آباد ہونا شروع ہوا تھا۔ میں اس شہر میں 1975کے برس وارد ہوا تھا۔ لاہور کی تنگ وتاریک گلیوں کے مقابلے میں یہ شہر بے پناہ اُجلادکھائی دیا۔ یہاں کی ہوا میں ہمیشہ صبح کی ہوا کی تازگی برقرار رہتی تھی۔ بارش کی روح سے گفتگو کرنے کی صلاحیت کا ادراک بھی اسی شہر میں ہوا۔ چند ماہ بعد یہ دریافت کرتے ہوئے مزید حیرت ہوئی کہ اسلام آباد میں بتی نہیں جاتی۔ لاہورکے جس محلے سے میرا تعلق تھا وہاں یہ روز کا معمول تھا۔ وجہ اس کی مگر لوڈشیڈنگ نہیں بجلی کی ترسیل کا قیامِ پاکستان سے قبل قائم ہوا نظام تھا۔
اسلام آباد میں چوری چکاری کی واردات بھی شاذہی سننے کو ملتی۔ 1980 کی دہائی کے آغاز میں جرائم کی رپورٹنگ بھی میری بیٹ میں شامل ہوئی تو روزانہ کی بنیاد پر کوئی خبر فائل کرنا جوئے شیر لانے کی مانند محسوس ہوتا۔ بسااوقات ہسپتال کی ایمرجنسی وارڈ میں جاکرکسی حادثے کے زخمیوں کی تعداد اور حالت کو بیان کرتے ہوئے کام چلانا پڑتا۔ چند زخمیوں کی بدولت قریبی دیہاتوں سے "پرانی دشمنی" کی وجہ سے ہوئے جھگڑوں کی "خبر" بھی مل جاتی۔
زمانہ طالب علمی میں اکثر لاہور کے ریگل چوک پر نمودار ہوتے جلوسوں میں نعرے وغیرہ لگانے چلا جاتا تھا۔ پولیس کی لاٹھیوں اورآنسو گیس سے ان کی وجہ سے شناسائی ہوگئی۔ اسلام آباد اس تناظر میں "احتجاج فری" شہر دکھائی دیا۔ جنرل ضیاء نے بھٹو کو پھانسی لگانے کے بعد "اسلامی نظام" کو بھرپور انداز میں نافذ کرنا چاہا تو ایک مسلک کے حامی یہاں دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ اس شہر کے باسی اُس دھرنے سے بہت حیران ہوئے۔ کئی لوگ تو اسے یوں دیکھنے جاتے جیسے پرانے قصبات میں تماشائی کسی میلے کو دیکھنے جاتے ہیں۔ بعدازاں وہ دھرنا طویل مذاکرات کے بعد پرامن طورپر ختم ہوگیا۔ اسلا م آباد اس کے بعد کئی برسوں تک احتجاج کے حوالے سے بہت پُرسکون رہا۔
اس شہر میں "احتجاج" کی روایت محترمہ بے نظیر بھٹو نے نواز شریف کی پہلی حکومت کے خلاف 1992کے آخری ایام میں متعارف کروانا چاہی تھی۔ وہ پارلیمان کے سامنے ایک احتجاجی کیمپ لگاکر بیٹھ گئیں۔ امید تھی کہ گردونواح کے شہروں سے "جیالے" وہاں کثیر تعداد میں جمع ہوجائیں گے۔ کم از کم راولپنڈی سے ان کی مؤثر تعداد محترمہ کے کیمپ کے گرد موجود ہوگی۔ متاثر کن اجتماع مگر دیکھنے کو نہیں ملا۔
اس احتجاجی کیمپ کی واضح ناکامی کے بعد میری محترمہ سے چند صحافیوں کے ہمراہ دوپہر کے کھانے پر ملاقات ہوئی۔ گفتگو کے دوران میں نے یہ تھیوری بیچی کہ میری دانست میں اس شہر کو ڈیزائن ہی اس انداز میں کیا گیا ہے کہ احتجاجی جلوسوں کی گنجائش ہی فراہم نہ ہوپائے۔ اس شہر میں بڑے جلوسوں کا داخلہ ان دنوں فقط زیروپوائنٹ ہی سے ممکن تھا۔ اس کے بعد کھلی سڑکیں تھیں جن کے اِردگرد تنگ گلیاں نہیں تھی۔ آب پارہ تک جو محلے تھے وہاں سرکاری ملازمین آباد تھے۔ وہ نوکری بچانے کی خاطر اپنے شہر میں آئے احتجاج کا سواگت نہیں کرسکتے۔
مجھے گماں ہے کہ میری بیان کردہ تھیوری کو ذہن میں رکھتے ہوئے محترمہ نے چند ہفتے بعد اسلام آباد سے راولپنڈی جاکر احتجاج کا فیصلہ کیا۔ وہ لیاقت باغ کے قریب پہنچیں تو آنسو گیس بھی چلانا پڑی۔ انہیں نظر بند کردیا گیا۔ چند ماہ بعد مگر پنجاب سے "لانگ مارچ" لانے کا فیصلہ ہوا تو ان دنوں کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ نے صدر غلام اسحاق خان اور نواز شریف کو استعفیٰ دینے پر قائل کردیا۔ 1993 میں نئے انتخابات کروانے کی راہ نکل آئی۔ میری اس تھیوری کو ٹھوس ثبوت مل گیا کہ اسلام آباد احتجاج کے لئے ڈیزائن ہی نہیں ہوا۔
اس تھیوری کا مگر 2007 میں عدلیہ بحالی کی تحریک نے تیاپانچہ کردیا۔ اس برس اسلام آباد میں ایک "مسجد" کا قضیہ بھی رونما ہوا۔ میں قائل ہوگیا کہ اسلام آباد بھی اب حقیقی معنوں میں پاکستان کے دوسرے شہروں جیسا بن گیا ہے۔ عمران خان صاحب نے اپنے "کزن" علامہ طاہر القادری کے ساتھ مل کر 2014 میں اس شہر کو بلکہ "مرکز انقلاب" بنانے کی کوشش شروع کردی۔"عرب بہار" کے تناظر میں پارلیمان، سپریم کورٹ، وزیر اعظم ہائوس اور ایوانِ صدر کے عین سامنے موجود ڈی۔ چوک کو پاکستان کا "التحریر سکوائر" بناناچاہا۔ بات مگر بنی نہیں۔ نواز حکومت بچ نکلی۔ اسے ہٹانے کے لئے اپریل 2016 کی پانامہ دستاویزات کا انتظار کرنا پڑا۔"التحریر سکوائر" کے بجائے سپریم کورٹ کی عمارت سے "تبدیلی" کی امید پھوٹنا شروع ہوئی۔
اگست 2018 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد مگر عمران حکومت اسلام آبادمیں "احتجاج" کی کمزور ترین شکل بھی اُبھرنے نہیں دیتی۔ گزشتہ برس مولانا فضل الرحمن کو چند دنوں کیلئے مگر نظرانداز کردیا گیا تھا۔ دینی جماعتوں کے مقابلے میں "موم بتیوں والی" سول سائٹی کو احتجاج کرتے ہوئے غداری اور بغاوت کے الزامات کے تحت گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ گزشتہ ہفتے میں مگر 2007 کے برس والی "مسجد" ہی کے ضمن میں ایک واقعہ ہوا۔ اس واقع کی وجوہات اور تفصیلات بیان کرنے کا ہمارے ذمہ دار میڈیا نے تردد ہی نہیں کیا۔ سوشل میڈیا پر چند حضرات جن پر "لبرل" ہونے کا شبہ ہوتا ہے اس واقعہ کے بارے میں اگرچہ طنز بھرے ٹویٹ لکھتے رہے۔
سنا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے اس واقعہ کو سلجھانے کی راہ بھی نکال لی گئی ہے۔ چند "جائز مطالبات" پر ہمدردانہ غور کا وعدہ ہوا ہے۔ 20 کنال سرکاری زمین کے بدلے اسلام آباد میں امن وامان یقینی بنانے کی امید دلائی گئی ہے۔ اس قضیے کو فوری بنیادوں پرحل کرنا اس لئے بھی ضروری تھا کیونکہ ترکی کے صدر اردوان اس ہفتے پاکستان تشریف لارہے ہیں۔ انہوں نے 14 فروری کو پاکستان کی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب بھی کرنا ہے۔ ترکی نے ہمیشہ کی طرح 5اگست 2019 کے روز مودی سرکار کے کشمیر کے خلاف لئے اقدامات کی بھی بھرپور مذمت کی ہے۔ ان کی پُرجوش حمایت کا خلوص دل سے شکریہ ادا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ صدر اردوان جب اسلام آباد آئیں تو یہ شہر اجتماعی مسرت کا اظہار کرتا نظر آئے۔ جو واقعہ گزشتہ ہفتے نمودار ہوا تھا طول پکڑتا تو شہر کی فضاخراب دکھائی دیتی۔ ہمارے مہمان کو غلط پیغام جاتا۔
جس واقعہ کو سلجھانے کی کوشش ہورہی ہے اس کے بارے میں بے نام سرکاری افسروں کے ذرائع کی بدولت میسر ہوئے بیانات پڑھتے ہوئے میں نے دریافت یہ بھی کیا ہے کہ عمران حکومت اب اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ چند احتجاج "جائز مطالبات" کی بنیاد پر بھی ہوا کرتے ہیں۔
"جائز اور "ناجائز" مطالبات کے درمیان جو فرق ہے اگرچہ بقول منیر نیازی کی "سفر کی ہوا" نے مجھے نہیں سمجھایا۔ ربّ کا صد شکر کہ ان دنوں عملی رپورٹنگ سے وابستہ نہیں ہوں۔ کالم نگاری ان موضوعات پر لکھنے کی سہولت فراہم کرتی ہے جہاں "جائز" اور "ناجائز" کا فرق ڈھونڈنے میں اپنا سرکھپانا نہیں پڑتا۔ قلم اٹھاتے ہی جبلی طورپر احساس ہوجاتا ہے کہ کونسے موضوعات سے گریز کرنا ہے۔ اس سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اکثر اپنے قارئین کو "بکری" ہوا دکھائی دیتا ہوں۔ Likes اور Shares اطمینان بخش حد تک نصیب نہیں ہوتے۔ دال دلیہ مگر چل جاتا ہے۔ بہت عرصے کے بعد مگر سمجھ آگئی ہے کہ زندگی میں اہم ترین بات "دال دلیہ"چلانا ہی ہوتا ہے۔ کاش اس حقیقت کو جواں سالی میں دریافت کرلیا ہوتا۔