عمران خان صاحب کی جلسوں میں ہوئی تقاریر کی براہِ راست نشریات پر پابندی لگادی گئی ہے۔ اسی باعث ان کے بے شمار چاہنے والوں نے اتوار کی شب راولپنڈی کے جلسے سے ان کا خطاب مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کی بدولت سنا۔ ان کے خطاب کے دوران میرے گھر میسر وائی فائی کے ذریعے یوٹیوب تک رسائی ممکن نہ تھی۔ جبلی طورپر میں نے اسے سرکار کی روایتی چالاکی تصور کیا۔ تمام تر بندشوں کے باوجود حقیقت یہ بھی رہی کہ راولپنڈی کا جلسہ ختم ہوجانے کے بعد اتوار کی رات دس بجے سے کئی گھنٹوں تک عمران خان صاحب کا ذکر ہی ہمارے ٹی وی چینلوں کے ایئرٹائم پر حاوی رہا۔
راولپنڈی کے جلسے سے ایک روز قبل عمران خان صاحب نے اپنے چیف آف سٹاف جناب شہباز گل صاحب کی رہائی کا مطالبہ کرنے والی ریلی سے اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں بھی خطاب کیا تھا۔ جوش خطابت میں انہوں نے یہاں کے آئی جی کوسبق سکھانے کا عہدباندھا۔ سیاستدان اپوزیشن میں ہوں تو پولیس اور مقامی انتظامیہ کے افسروں کو ایسی تڑیاں لگانا ضروری سمجھتے ہیں۔ غصے سے مغلوب ہوئے عمران خان صاحب نے مگر توپوں کا رُخ اس خاتون سیشن جج کی جانب بھی موڑ دیا جنہوں نے شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کا حکم دیا تھا۔ عمران خان صاحب کے جارحانہ انداز سے وافر شناسائی کے باوجود میں اس کی بابت بہت حیران ہوا۔
غصے سے مغلوب ہوئے عمران خان صاحب نجانے کیوں یہ حقیقت فراموش کرگئے کہ ان کے چیف آف سٹاف نے ایک ٹی وی چینل سے جو گفتگوکی تھی ہماری سرکار نے اسے ریاستی اداروں میں ہیجان وخلفشار پھیلانے کا مرتکب تصور کیا تھا۔ وہ گفتگو نشر کرنے کی پاداش میں مذکورہ چینل کو کیبلوں سے ہٹادیا گیا۔ عمران خان صاحب نے اس کے بعد ہماری ایک مشہور اینکر فریحہ ادریس صاحبہ کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح الفاظ میں اعتراف کیا کہ شہباز گل صاحب کی گفتگو مناسب نہیں تھی۔ ان کے انٹرویو کے بعد تحریک انصاف کے ایک دبنگ سینیٹر فیصل جاویدنے بھی ایوان بالا میں کھڑے ہوکر گل صاحب کی گفتگو کو قابل تعزیر قرار دیا۔ یوں عمران خان صاحب اور ان کی جماعت شہباز گل کے خیالات سے قطعی لاتعلقی کا اظہار کرتے نظر آئے۔
سرکار اپنے تئیں مگر بضد ہے کہ شہباز گل نے جو گفتگو کی تھی اس کا "سکرپٹ" تحریک انصاف کی قیادت کے مابین طویل مشورے کے بعد تیار ہوا تھا۔ وہ مذکورہ گفتگو کو ریاستی اداروں کے ڈسپلن سے "باغیانہ چھیڑچھاڑ" کے مترادف گردانتی ہے اور مبینہ "سازش" کے دوسرے کردار ڈھونڈنا چاہ رہی ہے۔ شہباز گل کے خلاف مختصراََ سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔ الزامات کی سنگینی کے باوجود جج صاحبہ نے گل صاحب کو محض دو روز کے لئے پولیس کی حراست میں رکھنے کی اجازت دی تھی۔
فقط دو دن کا ریمانڈ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو یہ تاثر بھی دے رہا تھا کہ عدالت گل صاحب کے خلاف لگائے الزامات کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دے رہی۔ اسی باعث سرکار ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کو مجبور ہوئی۔ برتر عدالت نے ٹرائل کورٹ کو گل صاحب کے خلاف لگائے الزامات پر ازسرنو غور کا حکم دیا۔ اس حکم کی تعمیل نے پولیس کو یہ اختیار بخشا کہ وہ مزید چند روز گل صاحب کو اپنی تحویل میں لے کر تفتیشی عمل مکمل کرے۔ مذکورہ بالا تناظر میں عمران خان صاحب کی متعلقہ جج صاحبہ کا نام لے کر دھمکی آمیز تنقید لہٰذا غیر مناسب تھی۔
تیر مگر کمان سے نکل چکا تھا۔ اسلام آباد پولیس، مقامی انتظامیہ اور عدالتوں کو تحفظ کا احساس دلانے کی خاطر سرکار بالآخر مجبور ہوئی کہ عمران خان صاحب کی جانب سے ہفتے کی شب ہوئی تقریر کے خلاف مقدمہ درج کروائے۔ "انسداد دہشت گردی" مذکورہ مقدمہ کی بنیاد بنائی گئی ہے۔ ذاتی طورپر میں اسے مناسب تصور نہیں کرتا۔ "پرچہ" مگر باقاعدہ "، کٹ"گیا۔ سرکار نے اس ضمن میں لکھوائی ایف آئی آر میڈیا کو تشہیر کے لئے فراہم بھی کردی۔ وزیر داخلہ اس کے بعد عمران خان صاحب کو گرفتار کرنے کے ارادے کا اظہار کرنا شروع ہوگئے۔ بعدازاں اتوار کی رات دس بجے سے خبر چلنا شروع ہوئی کہ سابق وزیر اعظم کو گرفتار کرنے کی خاطر ان کے بنی گالہ میں واقع گھر کی جانب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پیش قدمی شروع ہوگئی ہے۔
پولیس کی پیش قدمی کو بنیاد بناتے ہوئے تحریک انصاف کے سرکردہ رہ نماؤں نے اپنے کارکنوں کو بنی گالہ پہنچ کر عمران خان صاحب کے گرد حفاظتی حصار کھڑا کرنے کی درخواست کرنا شروع کردی۔ کارکنوں کی موثر تعداد ان کی درخواست پر متحرک ہوگئی۔ رات کے تین بجے تک میں لہٰذا فائنل شوڈاؤن کا انتظار کرنے کو مجبور ہوگیا۔ بالآخر تھک کر سوگیا۔ دریں اثناءیہ افواہیں بھی پھیلنا شروع ہوگئیں کہ خان صاحب اپنے گھر سے کسی "محفوظ مقام" پر منتقل ہوگئے ہیں۔ فواد چودھری صاحب ان افواہوں کو اگرچہ حقارت سے جھٹلاتے رہے۔
تحریک انصاف روایتی اور سوشل میڈیا کے ماہرانہ استعمال کے ذریعے اپنا پیغام عوام کے وسیع تر حلقوں میں سرعت سے پھیلانے کی مہارت سے مالا مال ہے۔ بہتر یہی تھا کہ فواد چودھری صاحب کے بجائے عمران خان صاحب بنی گالہ میں اپنی موجودگی دکھاتا کوئی ویڈیو پیغام جاری کردیتے۔ "فرار" کے عنوان سے تمسخراڑاتی افواہوں کا یہ مناسب ترین توڑ ہوتا۔ اس کے علاوہ مجوزہ وڈیو پیغام "ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان" والے تاثر کو بھی مزید توانا بنادیتا۔ خان صاحب اور ان کے مشیروں نے نجانے کیوں اس سے گریز اختیار کیا۔
سرکار بھی احمقانہ کنفیوژن میں مبتلا نظر آئی۔ اگر عمران خان صاحب کو گرفتار کرنے کا فیصلہ واقعتا نہیں ہوا تھا تو بنی گالہ جاتے راستوں پر ڈرامائی "ہلچل" بے جواز تھی۔ جو "پھرتی" دکھا گئی وہ خان صاحب کے متوالوں کو یہ سوچنے کو اُکسائے گی کہ گورنمنٹ بالآخر ان کے جوش سے گھبراگئی۔ سرکار اور تحریک انصاف کے مابین ایسا کھیل مزید جاری رہا تو اُکتادینے والا تماشہ بن جائے گا۔ آفت کی اس گھڑی میں جہاں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب کے بیشتر علاقوں میں خوفناک سیلاب کی زد میں ہیں ایسے تماشے رچائے رکھنا کامل بے حسی ہی نہیں بلکہ سفاکانہ عمل ہے۔ خدارا اس سے اجتناب برتیں۔