شوکت علی سے دوستی کا دعویٰ نہیں۔ شناسائی البتہ بہت پرانی تھی۔ زیادہ ملاقاتیں ریڈیو پاکستان لاہورکی کینٹین میں ہوئیں۔ مختلف شعبوں کے نامی گرامی فن کاروں سے بے تکلف ملاقاتوں کا ایک ٹھکانہ لاہور آرٹس کونسل کے درختوں کے نیچے رکھی ٹوٹی پھوٹی میز اور کرسیاں بھی ہوا کرتی تھیں۔ مجھے ہرگز علم نہیں کہ شوکت علی کا تعلق موسیقاروں کے کس گھرانے سے تھا۔ اس گھرانے کا مخصوص آہنگ کیا ہے۔ اس کی گرجدار آواز نے اگرچہ ہمیشہ حیران کیا۔
اُونچے سروں میں گاتے ہوئے سانس کو موسیقی کے طے شدہ نوٹس(Notes) کے کامل استعمال کے ساتھ "ٹوٹنے"، نہ دینا ناممکنات میں شمار ہوتا ہے۔ شوکت علی نے کمال برجستگی اور مہارت سے اسے ممکن بنائے رکھا۔ نسبتاََ جواں سالی ہی میں "مشہور" ہوگیا تھا۔ ساری زندگی تاہم عجزوانکساری کی مجسم علامت رہا۔ نجانے اسے کیوں یہ وہم لاحق رہا کہ میں غالباََ "ممی ڈیڈی"ٹائپ ہوں۔ فن کو "دانشوروں " کی طرح جانچتا ہوں۔ اسلام آباد منتقل ہوجانے کے بعد "بڑا" اور بااثر شخص بھی بن گیا ہوں۔ مجھے اس نے کبھی اپنا فین (FAN)تسلیم ہی نہ کیا۔
میں اسے یہ بھی بیان نہیں کرپایا کہ بھارت کے ایک سفر کے دوران اس نے مجھے مان کی دولت سے مالال کردیا تھا۔ پاک-بھارت کو ملانے والے واہگہ سے تھوڑے فاصلے پر واقعہ بھارت کے ایک میدان میں وہ رات کے گیارہ بجے گانے کے لئے کھڑا ہوا تھا۔ اس سے قبل ایک بھارتی گلوکار نے بھی چند پنجابی گیت گائے تھے۔ ٹی وی چینلوں نے اس فن کار کو بھارتی پنجاب کا مقبول ترین گلوکار بنارکھا تھا۔ میں اس تقریب کے منتظمین میں شامل تھا۔ خدشہ لاحق ہوا کہ ایک نوجوان گلوکار کے بعد "ہمارا" شوکت علی کوئی جلوہ نہیں دکھاپائے گا۔ اس کے گائے تیسرے گیت کے بعد مگر میدان میں جمع ہوئے لوگوں کو سٹیج سے دور رکھنا ناممکن ہوگیا۔ مقامی پولیس نے ڈنڈے لہراتے ہوئے نظم برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ تھوڑی ہی دیر بعد مگر ان کی اکثریت بھی اپنی پتلونوں سے بیلٹ نکالنے کے بعد بھنگڑا ڈالنے میں محو ہوچکی تھی۔ رات گئے تک وہ اپنے مقام پر کھڑا "جگا" گاتا رہا۔ بہت منت سماجت کے بعد مجمعہ کو قائل کرنا پڑا کہ شوکت علی کو اب آرام کی ضرورت ہے۔ دوسرے دن کی شام اسے دوبارہ گانے کا موقع فراہم کرنے کا جھوٹا وعدہ کرتے ہوئے محفل کا اختتام ممکن بنایا گیا۔
صبح اُٹھنے کے بعد شوکت مگر ناشتے کے لئے ہوٹل کے ہال میں آیا تو میرے ہمراہ بیٹھ گیا۔ کرید کرید کر نہایت عاجزی سے استفسار کرتا رہا کہ وہ "ٹھیک" رہا یا نہیں۔ اس کے عاجزانہ خلوص نے مجھے شرمسارکردیا۔ نام کیا لینے۔ ہماری موسیقی سے وابستہ چند نامور لوگ ہیں۔ بھارت میں پرفارم کریں تو مجھ جیسے لوگوں کو یہ باور کروانے سے باز نہیں رہتے کہ بھارت میں ان کے بے تحاشہ قدردان ہیں۔ پاکستان میں لیکن انہیں مناسب پذیرائی نصیب نہیں ہوتی۔ ان کے مقابلے میں شوکت علی تھا۔ اس نے کئی گھنٹوں تک میری موجودگی میں پچاس ہزار کے قریب نظر آنے والے مجمعے کو بھنگڑا اور دھمال ڈالنے میں مشغول رکھا تھا مگر نہایت فکر مندی سے جاننا چاہ رہا تھا کہ وہ "ٹھیک" رہا یا نہیں۔ ایسے Legendکے بارے میں مزید کچھ لکھنے کی ہمت نہیں۔ نہ ہی مجھے وہ علم میسر ہے جس کی بدولت سمجھا سکوں کہ اس کا اندازِ گائیکی اتنا منفرد کیوں تھا۔ مزید دُکھ یہ سوچتے ہوئے بھی ہورہا ہے کہ نظر بظاہر اس کی جگہ لینے کے لئے میرے ذہن میں کسی اور پاکستانی گلوکار کا نام آہی نہیں رہا۔ میرے مایوس دل کو فکر بلکہ یہ لاحق ہوچکی ہے کہ ہم نہایت تیزی سے ثقافتی حوالوں سے بنجر ہوئے چلے جارہے ہیں۔ ثقافتی چمن کے اجڑجانے کا تاہم ہمیں ادراک تک نہیں ہورہا۔
اداسی اور مایوسی کے اس عالم میں سوشل میڈیا کے ذریعے مجھے ایک وڈیو کلپ کئی جانے اور انجانے ناموں سے موصول ہوئے چلی جارہی ہے۔ جیوٹیلی وژن کے ایک پروگرام سے نکالی اس کلپ میں وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی جناب ڈاکٹر معیدیوسف صاحب مذکورہ پروگرام کے اینکر شہزاد اقبال کو علم سے مالا مال ذہن کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وزیراعظم کی جانب سے ہوئی فیصلہ سازی کا عمل "ٹوپیاں " بدلنے کے عمل سے مکمل ہوتا ہے۔ عمران خان صاحب تجارت کے حتمی وزیر ہوتے ہوئے یہ تجویز دینے کو مجبور ہوئے کہ پاکستان میں چینی کی قیمت قابل برداشت رکھنے کے لئے یہ جنس بھارت سے درآمد کرلی جائے۔ یہ تجویز مگر جب وفاقی کابینہ کے روبرو پیش ہوئی تو اس کے کپتان ہوئے عمران خان صاحب نے مذکورہ تجویز کا وزیر اعظم کی نگاہ سے جائزہ لیا۔ وزیر اعظم کا ہیٹ پہن کر جب انہوں نے اس تجویز پر غور کیا تو اسے نامناسب پایا۔ مختلف ٹوپیاں پہن کر ہوئے فیصلوں مابین فرق کو مگر دو ٹکے کے صحافی سمجھ نہیں پارہے۔ بال کی کھال نکالنے کے لئے Irrelevantسوال اٹھائے چلے جارہے ہیں۔
ڈاکٹر معید یوسف صاحب سے دو یا تین سماجی محفلوں میں فقط ہاتھ ملانے کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ وہ انگریزی کے ایک بڑے اخبار کے لئے کالم لکھا کرتے تھے۔ خارجہ امور کا ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے میں انہیں بہت غور سے پڑھتا تھا۔ انہیں پڑھتے ہوئے بارہا ڈکشنری بھی کھولنا ہوتی تھی۔ اسے کھولنے کے باوجود چند اصطلاحات میری ناقص فہم کی گرفت میں آنہ سکیں۔
فصاحت سے بوجھل انگریزی زبان میں خارجہ امور کی باریکیاں بیان کرنے والے صاحب علم افراد کو اپنے ہنر کی یکتائی کا مان ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر معید یوسف صاحب کو بھی رعونت برتنے کا بھرپور حق حاصل ہے۔ بدمزاج اساتذہ کے بجائے وہ مگر ایک شفیق استاد کی طرح ہمیں پرائمری جماعتوں کے طالب علم شمار کرتے ہوئے "مختلف ٹوپیاں " پہن کر لئے فیصلوں کی عقدہ کشائی کی کاوشوں میں مبتلا نظر آئے۔ کند ذہن اینکرغبی ہی رہا۔ ڈاکٹر صاحب جھلاکر موصوف کے اٹھائے سوالات کو Irrelevantقرار دینے کو مجبور ہوگئے۔
پاکستان کے "جاہل عوام" کی کوتاہ فہمی فقط ڈاکٹر معید یوسف صاحب ہی کو بیزار نہیں بناتی۔"نئے پاکستان" کے فیصلہ ساز اجتماعی طورپر اس کی بابت جھلائے رہتے ہیں۔"لفافوں " کے عادی صحافی انہیں مزیدچراغ پابنادیتے ہیں۔ اپنی صحافت کے بیس سے زیادہ برس خارجہ امور کی بابت رپورٹنگ کی نذر کرنے کی وجہ سے جان کی امان پاتے ہوئے ڈاکٹر معید یوسف صاحب کو دست بستہ یاد دلانے کو مجبور ہوں کہ بھارت سے چینی اور کپاس کی درآمد کا فیصلہ اسلام آباد میں مقیم بے تحاشہ سفارت کاروں کو "اچانک" ہواStand Offفیصلہ محسوس نہیں ہوا تھا۔ اس برس کی فروری کے آخری ہفتے میں اچانک خبر آئی کہ پاک-بھارت کے اعلیٰ فوجی افسروں کے مابین گفتگو کی بدولت فیصلہ ہوا ہے کہ کشمیر پر قائم لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کے اس معاہدے پر کامل عملدرآمد کیا جائے گا جو 2003میں مشرف اور واجپائی حکومتوں کے مابین طے ہوا تھا۔ اس کے بعد مارچ کے وسط میں اسلام آباد میں "سیکیورٹی" کے موضوع پر ایک بھرپور کانفرنس بھی ہوئی۔ وہاں "ماضی کو بھلانے" کی تلقین کرتی ایک اہم ترین تقریر بھی ہوئی تھی۔ سیزفائر معاہدے کے بعد سکیورٹی کے نام پر ہوئی کانفرنس کی بدولت اُبھرتے پیغامات نے خارجہ امور پر نگاہ رکھنے والے افراد کو یہ باور کرنے کو اُکسایا کہ پاک-بھارت تعلقات کو کسی نہ کسی نوعیت کی بیک ڈور یا خفیہ سفارت کاری کے ذریعے معمول پر لانے کی کوششوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ ہماری اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے بھارت سے چینی اور کپاس درآمد کرنے والی تجویز کو مذکورہ بالاتناظر ہی میں ایک اور ٹھوس قدم تصور کیا گیا۔ اس اعلان کے عین ایک دن بعد وفاقی کابینہ نے مذکورہ فیصلہ کو "مؤخر" کرتے ہوئے خارجہ امور کے روایتی ماہرین کو بلکہ حیران کیا۔ ڈاکٹر معید یوسف صاحب مگر "ٹوپیاں " بدل کر لئے فیصلوں کے ذکر سے "دانشوری" جھاڑتے رہے۔ ہمیں پرائمری جماعتوں کے طالب علموں کی طر Treatکیا۔ ربّ کریم سے فریاد ہے کہ انہیں موجودہ منصب ومقام پر فائز رکھے۔ ان کی بدولت ہم جاہلوں کو اپنی کوتاہ فہمی کا بتدریج ادراک نصیب ہوجائے۔