آئی ایم ایف نے عمران حکومت کے ساتھ پاکستان کی معیشت کو سنبھالنے کے لئے چھ ارب ڈالر فراہم کرنے کا معاہدہ کیاہے۔ یہ رقم مختلف اقساط میں ستمبر 2022 تک مہیا کی جائے گی۔ ہر نئی قسط کے اجراء سے قبل اس امر کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ مذکورہ رقم کے حصول کے لئے جن شرائط پر عملدرآمد کا وعدہ ہوا ان پر کس رفتار سے عمل درآمد ہورہا ہے۔"سب اچھا" کی رپورٹ کے بعد ہی نئی قسط میسر ہوتی ہے۔
آج سے چند روز قبل ایسی ہی ایک رپورٹ شائع ہوئی۔ بھاری بھر کم اصطلاحات سے لدی ایسی رپورٹیں علم معیشت کے اعتبار سے مجھ جیسے جاہلوں کے لئے "لکھے موسیٰ پڑھے۔ خود آ" جیسی ہوتی ہے۔ IMF کی جانب سے "شفافیت" کا وعدہ تو وفاہوجاتا ہے مگر ہمیں ککھ سمجھ نہیں آتی۔ ہمارے علم میں اضافے کے لئے سکرینوں پر چھائے اینکر خواتین وحضرات ایسی رپورٹوں کو سلیس زبان میں سمجھانے کا تردد مول نہیں لیتے۔ جبکہ میری اور آپ کی روزمرہ زندگی کی مشکلات کو سمجھنے کے لئے ایسی رپورٹیں کلیدی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔
بہرحال جو تازہ ترین رپورٹ آئی اس نے "سب اچھا" کی نوید توسنائی ساتھ ہی مگر اس خدشے کا اظہار بھی کردیا کہ 2020 کے دوران مہنگائی کی شرح میں حکومتی اندازوں اور دعوئوں سے کہیں زیادہ اضافہ ہوگا۔ وزارتِ خزانہ نے ایک طولانی پریس ریلیز کے ذریعے IMF کے اس دعوے کو رد کردیا۔ حکومت کے دبدبے میں سرجھکائے اپنے کام سے کام رکھنے والے مجھ جیسے شہری اپنی سرکار پر اعتماد کرنے کو مجبور ہوتے ہیں۔ کچھ حقائق مگر اتنے ٹھوس اور واضح ہوتے ہیں جو سوال اٹھانے کو مجبور کردیتے ہیں۔
جس روز مہنگائی کی شرح پر قابو پانے کی دعوے دار پریس ریلیز منظر عام پر آئی اس سے ایک روز قبل ہی یہ اعلان ہوا کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت میں پونے دو روپے کے قریب اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ اضافہ کیوں ضروری تھا؟ اس سوال کا جواب فراہم کرنالازمی تصور نہیں کیا جاتا۔ بجلی کے فی یونٹ نرخ میں اضافے کے دودن بعد اوگرا نے پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں دو روپے اِکسٹھ پیسے اضافے کی سفارش کردی ہے۔ ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمت بھی تین روپے کے اضافے کے ساتھ لاگو ہوگی۔ ہمیں فقط یہ بتایا گیا ہے کہ عالمی منڈی میں خام تیل میں اضافے کی وجہ سے یہ فیصلہ ضروری تھا۔ اللہ اللہ خیر صلہ۔
دھندے کی باریکیوں سے قطعاََ نابلد ہوتے ہوئے بھی میں یہ دعویٰ کرنے کو مجبور ہوں کہ آنے والے دنوں میں ڈیزل مٹی کے تیل اور پیٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ ہمیں ممکنہ اضافے کو تیار کرنے کے لئے تیل فراہم کرنے والی کمپنیوں نے چند روز پہلے یہ فیصلہ کیا کہ پیٹرول پمپس کو تیل کی فراہمی پر "CAP" لگادیا جائے۔
"CAP" کو سادہ الفاظ میں سمجھنے کے لئے یہ جان لیں کہ میں اور آپ عموماََ جن پیٹرول پمپس سے اپنی کار اور موٹر سائیکل میں پیٹرول ڈلواتے ہیں ان کے پاس ہفتے یا مہینے بھر کی عمومی سیل سے وافر پیٹرول جمع کرنے کی گنجائش بھی موجود ہوتی ہے۔ فرض کریں ایک پیٹرول پمپ ہر ماہ 30 ہزار لیٹر پیٹرول فروخت کرتا ہے تو اس کے پاس ہر ماہ تقریباََ اتنا ہی پیٹرول ذخیرہ کی صورت بھی موجود ہوتا ہے۔ سطحی انداز سے اس حقیقت پر غور کریں تو فوراََ گماں ہوتا ہے کہ پیٹرول پمپ کے مالکان عمومی کھپت سے زائد پیٹرول اپنے پاس فقط منافع کی ہوس میں ذخیرہ کئے رکھتے ہیں۔ جو پیٹرول ان کے پاس ہوتا ہے وہ پرانے نرخوں پر خریدا گیا ہوتا ہے۔ نرخوں میں اضافہ ہو تو ان کو اپنے ذخیرے کی وجہ سے گراں قدر منافع ایک دھیلہ خرچ کئے بغیر مہیا ہوجاتا ہے۔
فقط "منافع کی ہوس" کو جواز بناتے ہوئے Capping کا فیصلہ مگر کافی رسکی بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ مختلف شہروں میں خدانخواستہ ہنگامے پھوٹ پڑیں۔ ٹرانسپورٹرہڑتال پر چلے جائیں تو پیٹرول پمپ میں موجود "ذخیروں " ہی سے میرے اور آپ کے لئے پیٹرول کی فروخت جاری رہتی ہے۔"ہنگامی" صورت حال پیدا نہیں ہوتی۔ زندگی رواں رہتی ہے۔ تیل کی کمپنیوں نے اب جو CAP لگایا ہے وہ "منافع کی ہوس" کا مقابلہ کرنے کا ارادہ نہیں دکھاتا۔ اس فیصلے کا سبب یقینا یہ خوف ہے کہ شاید عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ تیل فراہم کرنے والی بڑی کمپنیاں درحقیقت اپنے منافع کی فکر میں مبتلا ہیں۔ وہ پیٹرول پمپ کے مالکان کو "اضافی" فائدہ پہنچانے کو تیار نہیں۔
پیٹرول کی فراہمی اور قیمت میں اضافے کے بارے میں تیل درآمد کرنے والی کمپنیوں کے خدشات اتنے بھی بے بنیاد نہیں ہیں۔ آج سے تین روزقبل امریکہ نے عراق میں موجود ایک ایسی تنظیم کے ٹھکانوں پر F-15 طیاروں کے ذریعے حملے کئے ہیں جسے ایران کی سرپرستی میں قائم "ملیشیاء" تصور کیا جاتا ہے۔ اس تنظیم نے عراق حکومت کو داعش پر قابو پانے کے لئے ٹھوس انداز میں مدد فراہم کی تھی۔
عراق میں ان دنوں مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر بھرپور ہنگامے ہورہے ہیں۔ بغداد اور بصرہ میں مظاہرین کو پولیس کے علاوہ "نامعلوم" افراد کے گروہوں نے بھی گولیوں کا نشانہ بنایا۔ مظاہرین کا ایک طاقت ور گروہ یہ محسوس کررہا ہے کہ عراق ایران کا تقریباََ غلام ہوچکا ہے۔ ایران کے سفارت خانوں پر غصے کے اظہار کے لئے کئی حملے بھی ہوئے۔ عوام کی اکثریت مگر ایران کے علاوہ اپنے ملک کو امریکی تسلط سے بھی آزاد کروانا چاہ رہی ہے۔ ایران کے خلاف بھڑکائے جذبات کا مگر امریکہ نے فضائی حملے کے ذریعے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ مشرقِ وسطیٰ پر نگاہ رکھنے والے تبصرہ نگاروں کو اب یہ خدشہ ہے کہ ایران مذکورہ حملے کا "بدلہ" عراق کے علاوہ لبنان میں بھی امریکی یا اسرائیلی تنصیبات پر حزب اللہ جیسے حامیوں کے ذریعے لینے کی کوشش کرے گا۔ یمن کے حوثی بھی سعودی عرب پر میزائل پھینک سکتے ہیں۔ ایران کی جانب سے "حساب برابر" کرنے کی کوشش عالمی منڈی میں تیل کی فراہمی اور قیمت کے بارے میں ایک سنگین بحران پیدا کرسکتی ہے۔
"اندیشہ ہائے دورودراز" کو فی الوقت بھلاتے ہوئے آج کے اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے اعلان کے بعد عمران حکومت کی وزارتِ خزانہ کس منہ سے یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ 2020 میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ نہیں ہوگا۔ پیٹرول کی قیمت ہمارے روزمرہ استعمال کی اجناس واشیاء کی قیمت کے تعین میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ اگر بڑھتی رہی تو مہنگائی میں ہر صورت اضافہ ہوگا۔ IMF کے بیان کردہ خدشات کو لہذا ہم سنجیدگی سے لینے کو مجبور ہیں۔ بھاری بھر کم اصطلاحات پر مبنی پریس ریلیز کا اجراء ہمارے دُکھ کا مداوا نہیں۔
مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہوئے پاکستانیوں کے اذہان میں اُبلتے سوالات مگر ہماری نمائندگی کے دعوے دار سیاست دان ان دنوں اٹھانہیں رہے۔ میڈیا کو چسکہ فروشی کے ذریعے Ratings لینا ہے۔ ٹویٹر اور ٹک ٹاک وغیرہ پر لگی رونق نے انہیں خوف میں مبتلا کررکھا ہے۔ مقبولِ عام میڈیا کی عوامی مسائل کی بابت عدم دلچسپی اخبارات کے ذریعے میسر Long Form صحافت کی اہمیت کومزید اجاگر کرتی ہے۔ معاشی حقائق کے حوالے سے بنیادی سوالات اٹھانا ضروری ہوگیا ہے۔ ان سوالات کی عدم موجودگی میں حکومت انتہائی ڈھٹائی سے مہنگائی پر قابو پانے کے دعوے کرتی رہے گی۔