بھاری نہ بھی ہوتب بھی واضح اکثریت کے ساتھ عمران خان صاحب کی وزارت عظمیٰ کے منصب پر واپسی اب یقینی دکھائی دے رہی ہے۔ گیارہ جماعتوں پر مشتمل حکمران اتحاد محض ہونی کو ٹالنے کی فکر میں مبتلا نظر آرہا ہے۔ اس ضمن میں جو ہتھکنڈے اختیار کئے جارہے ہیں میری دانست میں اس کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچائیں گے۔ نواز شریف کے نام سے منسوب پاکستان مسلم لیگ ان جماعتوں میں سب سے بھاری قیمت ادا کرے گی۔
اس جماعت کے مستقبل کی بابت دیوار پر جو لکھا ہوا نظر آرہا ہے اس پر غور کریں تو حیرانی ہوتی ہے۔ 1988ء میں محمد خان جونیجو کی جنرل ضیا کے ہاتھوں فراغت کے بعد نواز شریف نے مسلم لیگ کے جس دھڑے کی قیادت سنبھالی وہ 1990ء کی دہائی میں دوبارہ اقتدار میں آیا۔ اس کا اندازِ حکمرانی شہری متوسط طبقے اور کاروباری افراد کو بہت بھایا۔ لاہور-اسلام آباد موٹروے جیسے میگا پراجیکٹ کے ذریعے یہ جماعت ملک کو جدید صنعتی دور میں دھکیلتی نظر آئی۔ بازار میں ہر صورت رونق لگائے رکھنے کی لگن نے مسلم لیگ (نون) کے مخالفین کو اس کے خلاف کمیشن خوری وغیرہ کے الزامات لگانے میں آسانیاں بھی فراہم کیں۔ غیبت بھری کہانیاں مگر عوام کی اکثریت میں مقبول نہ ہوپائیں۔ اپنی ساکھ کو اس نے جنرل مشرف کے نو سال تک پھیلے اقتدار کے دوران بھی بچائے رکھا۔
اپریل 2016میں پانامہ دستاویزات کے منظر عام پر آنے کے بعد نواز شریف اور ان کے خاندان کو سپریم کورٹ کی کڑی نگرانی میں احتساب کے شکنجے میں کسنا شروع کردیا گیا۔ نواز شریف اس کی وجہ سے تاحیات کسی بھی عوامی عہدے کے لئے نااہل قرار پائے۔ اپنی دختر سمیت جیل بھی بھجوائے گئے۔ کئی مہینوں تک پھیلی احتسابی کارروائی کے باوجود نواز شریف صاحب کا بنایا ووٹ بینک مگراپنی جگہ مستحکم رہا۔ اسی باعث یہ تاثر بھی اس جماعت کے حامیوں میں شدت سے مقبول ہوا کہ 2018ء کے انتخابات کے دوران اس جماعت کا مینڈیٹ "چراکر" عمران خان صاحب کو زور زبردستی وزارت عظمیٰ کے دفتر پہنچادیا گیا تھا۔ مذکورہ تاثر اسے عمران حکومت کے دوران ہوئے ضمنی انتخابا ت میں اکثر کامیاب بھی بناتا رہا۔
نواز شریف کو جیل سے نکال کر برطانیہ بھیج دینے کے باوجود مسلم لیگ (نون) کے دیرینہ دشمن اس کے ووٹ بینک کو متاثر نہ کر پائے۔ عمران حکومت نے ڈاکٹر حفیظ شیخ کی معاونت سے ملک میں جو اقتصادی پالیسیاں متعارف کروائیں اس کے تلخ اثرات سے بلکہ حکمران جماعت کے حامی اراکین قومی اسمبلی بھی بلبلا نا شروع ہوگئے۔ جو غصہ ان کے دلوں میں ابھررہا تھا اس کا بھرپور اظہار انہوں نے خفیہ ووٹنگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈاکٹر حفیظ شیخ کے بجائے یوسف رضا گیلانی کو مارچ 2021ء میں اسلام آباد سے سینٹ کا رکن بنواکر کیا۔
پنجاب سے تحریک انصاف میں شامل ہوئے الیکٹ ایبل کی خاطر خواہ تعداد مسلم لیگ (نون) سے خفیہ روابط استوار کرتے ہوئے آئندہ انتخاب میں اس جماعت کے ٹکٹ کے حصول کی کاوشوں میں مصروف ہوگئی۔ گزشتہ برس کے اکتوبر سے مسلم لیگ (نون) میں یہ تاثر بھی فروغ پانا شروع ہوگیا کہ عمران حکومت مقتدر حلقوں کے ساتھ "سیم پیج" پر نہیں رہی۔ جو حالات ابھررہے تھے اس امر کے متقاضی تھے کہ مسلم لیگ (نون) اقتدار کے کھیل میں اپنی توانائی کی بحالی کو سنبھال کررکھتی۔ عمران خان صاحب کو پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے دیتی اور آئندہ انتخابات تک اپنی تنظیم کو گراس روٹس تک مستحکم بنانے میں مصروف ہوجاتی۔
اس جماعت کی قائد انہ صفوں میں لیکن نجانے کیوں اور کیسے یہ فکر پھیل گئی کہ عمران خان صاحب 29مئی 2022ء کے بعد کسی بھی دن ایک اہم ترین ریاستی ادارے کے نئے سربراہ کی نامزدگی کا اعلان کردیں گے۔ اس ضمن میں جو نام گردش میں آیا مسلم لیگ (نون) کی اکثریت ان سے خوفزدہ رہتی ہے۔ کامل گھبراہٹ میں یہ فرض کرلیا کہ اگر وہ صاحب تعینات ہوگئے تو 2023ء کا انتخاب بھی مسلم لیگ (نون) سے "چھین" لیا جائے گا۔ نئے انتخاب سے قبل بلکہ عمران حکومت احتسابی عمل کو تیز اور شدید تر بناتے ہوئے مسلم لیگ کے شہبازشریف، خواجہ آصف، احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی جیسے قدآور رہ نمائوں کو سزائیں دلوانے کے بعد انتخاب میں حصہ لینے کے ناقابل بھی بنادے گی۔
مفروضہ خدشات کی بنیاد پر فروری 2022ء سے عمران خان صاحب کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجنے کی تیاری شروع ہوگئی۔ مذکورہ تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے عوام کو متحرک کرنے کے بجائے محلاتی سازشوں کا جال بچھایا گیا۔ جوڑ توڑ میں مصروف قیادت یہ اندازہ ہی نہ لگاپائی کہ روس کا یوکرین پر حملہ پاکستان ہی نہیں دنیا کے دیگر ممالک کے لئے بھی اقتصادی حوالوں سے تباہ کن اثرات کا حامل ہوگا۔
رواں برس کا آغاز ہوتے ہی عمران خان صاحب بخوبی جان چکے تھے کہ ان کی جماعت میں "باغیوں "کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ "اتحادی" بھی اِدھر اُدھر کھسکنے کو تڑپ رہے ہیں۔ محلاتی سازشوں سے گھبرانے کے بجائے مگر انہوں نے جارحانہ رویہ اختیار کرنے کی ٹھان لی۔ "امریکی سازش" کی داستان تراشی جو ان کے حامیوں میں شدت سے مقبول ہوئی۔ امریکہ کو ایک حوالے سے "ٹھینگا" دکھانے وہ روس کے صدر سے ملاقات کے لئے ماسکو بھی چلے گئے۔ محلاتی سازشوں میں مصروف ان کے مخالفین عمران خان صاحب کی خارجہ محاذ پر جارحانہ پیش قدمیوں کے اثرات بروقت سمجھ ہی نہ پائے۔ ان کا توڑ ڈھونڈنا تو بہت دور کی بات تھی۔
تحریک عدم اعتماد پر بچگانہ ضد سے غالب توجہ مرکوز رکھتے ہوئے مسلم لیگ (نون) اور اس کے اتحادی بالآخر نو اپریل کی رات عمران خان صاحب کو گھر بھیجنے میں کامیاب ہوگئے۔ تحریک عدم اعتماد پر گنتی کو یقینی بنانے کے لئے سپریم کورٹ کو بھی کلیدی کردار ادا کرناپڑا۔ اقتدار سے محرو م ہوجانے کے بعد عمران خان صاحب نے مگر ہمت نہیں ہاری۔ کمال ہوشیاری سے ایسی حکمت عملی تشکیل دی جس نے انہیں بے پناہ دشمنوں میں گھراتنہائی بہادر آدمی بناکر دکھانا شروع کردیا۔ ان کی بغاوت نے شہری متوسط طبقے کی کماحقہ تعداد کو بھی متحرک بنادیا۔
حکومتی اتحاد اس کے برعکس بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتیں ہر مہینے بڑھاتے ہوئے عوام کی زندگی اجیرن بناتا نظر آنا شروع ہوگیا۔ اپریل سے جو حکومت قائم ہے وہ فقط "بری خبروں " کی پیغامبر ثابت ہورہی ہے۔ عوا م کو اس امر پر قائل کرنے کو قطعا ناکام کہ ان دنوں پھیلی کساد بازاری اور معاشی ابتری گزشتہ حکومت کی اختیار کردہ پالیسیوں کا فطری نتیجہ ہے۔ ایسے عالم میں ہر صورت اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش حکومتی اتحاد کے خلاف عوام کے دلوں میں فقط مزید نفرت اور غصے ہی کو بھڑکائے گی۔