چار برس پہلے کا واقعہ ہے۔ پنجاب کے ایک نامور سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک بہت ہی بااثر صاحب اپنے اسلام آباد والے گھر میں تنہا بیٹھے تھے۔ عملی سیاست سے خرابی صحت کی بناء پر لاتعلق ہونے کو سوچ رہے تھے۔ ایوان ہائے اقتدار میں ان کا اثر نہ ہونے کے برابررہ گیا تھا۔
میرا ان سے دیرینہ تعلق ہے۔ فون کرکے مجھے دوپہر کے کھانے پر بلالیا۔ ان کے ہاں اس وقت کم از کم دس سے پندرہ لوگ کھانے کی میز پر موجود ہوا کرتے تھے۔ اس روز میں واحد مہمان تھا۔ تندور سے تازہ نکلی سرخ روٹی کے ساتھ کریلے قیمہ کھایا۔ اچار اور کچی لسی نے لطف دوبالا کردیا۔
کھانے سے فارغ ہوکر ان کے بیڈ روم میں چلے گئے۔ نیند آنے سے قبل انہوں نے مجھے گپ شپ کے لئے روک لیا۔ میں اس موقعہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہماری سیاسی تاریخ کے کئی اہم واقعات کی بابت ان سے سوال کرنا شروع ہوگیا۔ ان واقعات کے وہ عینی شاہد تھے۔ انہیں بگاڑنے یا سنوارنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان کی بتائی تفصیلات کے طفیل میری "تاریخ" درست ہوگئی۔
کچھ وقت گزرنے کے بعد انہوں نے جمائیاں لیناشروع کیں تو میں رخصت کی تیاری کرنے لگا۔ رخصت سے قبل بے ساختہ مگر یہ پوچھ لیا کہ ان دنوں وہ اسلام آباد ہی میں براجمان کیوں رہتے ہیں۔ اپنے آبائی حلقے میں "ڈیرے" پر بیٹھے ہوئے لوگوں کے "کام شام" کیوں نہیں آتے۔ میرے سوال کو انہوں نے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ سنا اور انتہائی حقارت سے جواب یہ دیا کہ لوگوں کو اپنے کام کروانے کے لئے اب سیاست دانوں کی سفارش کی ضرورت نہیں رہی۔ وہ سرکاری افسروں سے براہِ راست رابطہ کرکے پیسہ لگاکر اپنے کام کروالیتے ہیں۔
سچی بات ہے مجھے ان کی بات ناقابل اعتبار لگی۔ فرض کرلیا کہ موصوف نے "اپنے حلقے" سے عدم موجودگی کے دفاع میں یہ کہانی گھڑی ہے۔ خود کو تسلی دینے والا مفروضہ 2018 کے انتخاب کے قریب چند شہروں میں سیاسی موڈ کا جائزہ لینے کے لئے کچھ دن گزارے تو ان کی بتائی بات سمجھ میں آگئی۔ اسلام آباد میں بیٹھے مجھ جیسے صحافی ہمارے سماج میں بتدریج نمودار ہوئی کئی تبدیلیوں کے بارے میں پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔
پنجاب اور خاص طورپر اس کے وسط میں موجود گجرات، وزیر آباد، گوجرانوالہ سے شروع ہوکر خانیوال، اوکاڑہ یا ساہی وال جیسے اضلاع میں "شہری" اور "دیہاتی" کا فرق اب نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ جدید سڑکوں کے جال، ہمہ وقت میسر ٹرانسپورٹ، 24/7 چینل اور موبائل فونز نے لوگوں کے مابین تعلق کو بہت توانابنادیا ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے اپنے خاندانوں کو Upward Mobility مہیا کی۔ ان کے بچے محض مناسب ہی نہیں بسااوقات اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کرچکے ہیں۔ سکولوں اور کالجوں میں انہوں نے سماجی اعتبار سے بااثر یا کاروباری حوالوں سے کامیاب خاندانوں کے بچوں سے دوستیاں بنائیں۔ سرکاری دفتروں میں انہیں کوئی مسئلہ درپیش ہوتو "اپنے علاقے" کے ایم این اے یا ایم پی اے سے رابطہ کرکے انہیں فون کے ذریعے سفارش کی ضرورت نہیں رہی۔ وہ متعلقہ افسروں سے براہِ راست رابطے کرتے ہیں اور عموماََ "مک مکا" کے ذ ریعے ان کے کام ہوجاتے ہیں۔
وسطی پنجاب کے مسلسل پھیلتے شہروں اور قصبات میں متوسط طبقے کے مسلسل ابھارنے یہاں مقیم افراد کو ایک خاص نوعیت کی "خودمختاری"فراہم کی ہے۔ ریگولر اور سوشل میڈیا کے فروغ نے انہیں "انفرادی سوچ" کاعادی بھی بنادیا۔ وہ اپنے "کام شام" کروانے کے لئے بااثر سیاست دانوں کے محتاج نہیں رہے۔ سیاست دانوں کو اب "اصولی" دِکھتی بنیادوں پر پسند یا ناپسند کرتے ہیں۔
1980 کی دہائی میں وسطی پنجاب کے شہروں اور قصبات میں جو نیا متوسط طبقہ اُبھرا ہے اس کی ترجیحات اور تعصبات کو نواز شریف اور ان کی جماعت نے بہت مہارت سے اپنالیا۔ وہ کئی حوالوں سے ان کے "ترجمان" ہوگئے۔"اسی باعث نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کا ان علاقوں میں ایک مؤثر ووٹ بینک آج تک اپنی جگہ قائم ہے۔ اس میں Dent ڈالنے کی فی الوقت گنجائش نظر نہیں آرہی۔
عمران خان صاحب کی تحریک انصاف نے خیبرپختونخواہ میں ایسا ہی رویہ اپنایا تھا۔ اس صوبے کے شہروں میں جو نیا متوسط طبقہ اُبھرا اس کے نوجوانوں کی اکثریت کو عمران خان نے اپنا گرویدہ بنایا۔ سوات سے ابھرے مراد سعید وہاں موجود رویوں کے حقیقی ترجمان ہیں۔ اسی باعث قومی اسمبلی میں اپنی جماعت کے دفاع کیلئے اُٹھتے ہیں تو رونق لگادیتے ہیں۔ خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف نے جن طبقات کو سیاست میں متحرک کیا اس کا اثر بالآخر اسلام آباد اور راولپنڈی سے جہلم کے درمیانی اضلاع میں بھی کارگر ہوتا نظر آیا۔ جی ٹی روڈ یا موٹروے سے بہت دور آباد شہروں اور قصبات میں روایتی سیاست لیکن اب بھی بہت مضبوط ہے۔ اس سیاست کا بے پناہ اثر ہمیں جنوبی پنجاب کے اضلاع میں نمایاں طورپر نظر آتا ہے۔
2018 کے انتخابات کے بعد عمران خان نے اس حقیقت کو دریافت کیا۔ وسطی پنجاب میں انہیں پذیرائی نہیں ملی۔ امکانات کے بے پناہ درانہیں جنوبی پنجاب میں البتہ کھلتے نظر آئے۔ اسی باعث انہوں نے عثمان بزدار کو پنجاب کاوزیر اعلیٰ نامزد کیا۔ وہ Top Down ماڈل کا اتباع کرتے ہوئے وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں بیٹھے عثمان بزدار کے ذریعے جنوبی پنجاب میں "کچھ" ڈیلیور کرنے کو بے چین ہیں۔ وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو سرائیکی بیلٹ کے سرداروں اور مخدوموں کے محتاج نہیں رہیں گے۔ جہانگیر ترین کی افادیت بھی بتدریج کم ہونا شروع ہوجائے گی۔ مخدوم خسروبختیار کے مقابلے میں بھی کوئی "زرتاج گل"، نمودار ہوسکتی ہے۔
وسطی پنجاب میں نواز شریف کے ووٹ بینک کی اہمیت اور جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف کے لئے طویل المدتی امکانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی میں اس کالم میں اصرار کرتا رہا کہ تمام تر دبائو کے باوجود عمران خان وزارتِ اعلیٰ کے منصب سے عثمان بزدار کو ہٹانے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔
عثمان بزدار سے میری آج تک سرسری ملاقات بھی نہیں ہوئی۔ سیاست کا ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے میں اپنے گھر تک محدود ہوا تھوڑے غور کے بعد مگر جان سکتا ہوں کہ وہ عمران خان کے لئے کیوں ضروری ہیں۔ صحافتی میدان میں ہمہ وقت متحرک میرے کئی عزیز ترین دوست ذاتی ملاقاتوں میں میری سوچ سے اختلافات کرتے رہے۔ وہ جنہیں "مقتدر حلقے" کہا جاتا ہے ان کے بااثر لوگوں سے ذاتی ملاقاتوں کے بعد وہ اپنے کالموں یا ٹی وی پروگراموں میں عثمان بزدار کی فراغت کا اکثر اعلان کرتے رہے ہیں۔ میں یہ بڑھک لگانے سے بازرہا اور اب میرے کئی ساتھی حیران ہورہے ہیں کہ نواز شریف کی جماعت سے چند لوگوں نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ سے برسرِ عام ملاقاتیں بھی شروع کردی ہیں۔ دعویٰ یہ بھی ہورہا ہے کہ مسلم لیگ نون کے کم از کم 30 ایم پی اے اب جاتی امراء کے وفادار نہیں رہے۔ آئندہ انتخاب تحریک انصاف کے ٹکٹ پر لڑنے کو تیار ہیں۔ آئندہ انتخابات سے قبل عثمان بزدار کی "جی حضوری" کرتے ہوئے اپنے حلقوں کے لئے ترقیاتی فنڈز لینا شروع ہوجائیں گے۔ ان کے حلقوں میں تعینات سرکاری افسر اب ان کے فون لینا بھی شروع ہوجائیں گے۔ ان کے بتائے "کام شام" ہوجایاکریں گے۔
عثمان بزدار، جن کے بارے میں "صبح گیا یا شام گیا" والی کہانی گزشتہ کئی مہینوں سے بارہا پھیلائی گئی اب توانا تر ہوتے نظر آرہے ہیں۔ سنسنی خیز ٹِکروں کے محتاج رپورٹروں کو اب بلکہ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی مسلم لیگ میں "دراڑیں " پیدا ہوتی نظر آرہی ہیں۔ تین روز قبل پاکستان مسلم لیگ نون کی پارلیمانی پارٹی کا قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل ایک اجلاس ہوا۔ اس اجلاس کے بعد "مریم گروپ" بمقابلہ "شہباز گروپ" کی کہانی چل رہی ہے۔ یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ محترمہ مریم نواز صاحبہ کے "ایمائ" پر مذکورہ اجلاس میں پیر صابر شاہ، جاوید لطیف اور محسن رانجھا وغیرہ نے مبینہ طورپر "ڈیل گروپ" کے کرتا دھرتا تصور ہوتے خواجہ آصف پر سخت زبان میں تنقید کی۔ شہباز شریف صاحب کے وطن واپسی کے مطالبے بھی ہوئے۔ باہمی اختلافات "کھل کر سامنے آگئے"۔
آپ سے کیا چھپانا۔ ذات کا رپورٹر ہوں۔ عمر کے ساتھ مگر کاہلی نازل ہوچکی ہے۔ اس کاہلی کے باوجود بسااوقات "خبر"، ڈھونڈنے کو جی مچل جاتا ہے۔ مسلم لیگ کے اجلاس میں جو "گرماگرمی" ٹی وی سکرینوں پر گج وج کے ساتھ بیان ہوتی رہی اس کی تفصیلات جاننے کے لئے پارلیمان میں موجود ہوتے ہوئے بھی مسلم لیگی رہ نمائوں سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ وقتی اُبال کو میں "خبر" تصور نہیں کرتا۔ سیاست میں حتمی اہمیت "ووٹ بینک" کی ہوا کرتی ہے۔ فی الوقت وہ مسلم لیگ نون سمیت ہماری تمام سیاسی جماعتوں کے لئے "دائیں بائیں " ہوتا نظر نہیں آرہا۔ سیاسی جماعتوں کے ووٹ بینک میں واضح Dent نظر آنا شروع ہوں گے تو سیاست میں ہل چل آئے گی۔ فی الوقت اس ضمن میں "ٹھنڈ پروگرام" چل رہاہے۔