کہانی میں ایک نیا موڑ آگیا ہے۔ آٹے اور چینی کے "بحران" کی بابت ایف آئی اے کو دیگر ریاستی اداروں کی معاونت سے ایک رپورٹ تیار کرنے کا حکم ہوا تھا۔ بالآخر جو رپورٹ تیار ہوئی اس نے تحریک انصاف کے چند سرکردہ رہ نمائوں کو "بحران" کا حقیقی ذمہ دار ٹھہرایا۔ طے یہ ہوا کہ پاکستان میں اجتماعی طلب سے کہیں زیادہ مقدارمیں چینی پیدا ہوئی۔ یہ چینی گوداموں میں پڑی رہتی تو چینی کے کئی کارخانے بند ہوجاتے۔ وہ کاشتکار جنہوں نے گنا اُگارکھا ہے اپنی نئی فصل کو بیچ نہ پاتے۔ عمران حکومت کو لہذا قائل کیا گیا کہ وہ "بے چارے"صنعت کاروں اور "غریب" کاشتکاروں کو ممکنہ بحران سے "بچانے" کے لئے چینی کو بیرون ملک فروخت کرنے کی اجازت دے۔
بین الاقوامی منڈی میں لیکن چینی کی قیمت نسبتاََ کم تھی۔ وہ ہمارے ہاں پیدا ہوئی چینی کی لاگت کے برابر بھی نہیں تھی۔ اسے بیرون ملک فروخت کرنے کے بجائے چینی پیدا کرنے والوں کی اکثریت "نئے سیزن" میں اپنے کارخانے نہ چلانے کی ترجیح دیتی۔ اپنے گوداموں میں موجود چینی ہی کو فروخت کرکے منافع کمالیتی ہے۔ نئے سیزن میں لیکن کارخانے رواں نہ ہوتے تو گنا پیدا کرنے والوں کو اپنی فصل کے خریدارمیسر نہ ہوتے۔ بحران کھڑا ہوجاتا۔
متوقع بحران کو ٹالنے کے لئے فیصلہ ہوا کہ چینی کو بیرون ملک فروخت کرنے کی اجازت دی جائے۔ عالمی منڈی اور مقامی بازار میں چینی کی قیمت کے درمیان جو فرق ہے اسے سرکار قومی خزانے سے فراہم کردہ "امداد ی رقوم" سے پورا کرے۔ وفاقی حکومت نے بیرون ملک فروخت کی محض اجازت دی۔ صوبائی حکومتوں کو حکم ہوا کہ وہ اپنے خزانے سے "امدادی رقوم" ادا کرے۔ فقط پنجاب حکومت نے اس ضمن میں دریا دلی دکھائی۔ چینی پیدا کرنے والوں کے گودام خالی ہونا شروع ہوگئے۔ یہ خالی ہونا شروع ہوئے تو مقامی منڈی میں چینی کی قیمت آسمان کو چھونے لگی۔ چینی پیدا کرنے والوں نے "امدادی رقوم" کے علاوہ مقامی منڈی میں اضافی قیمت کی وجہ سے اربوں روپے کا منافع بھی کمایا۔ ایف آئی اے کی دیگر ریاستی ا داروں کی معاونت سے تیار کردہ رپورٹ نے درحقیقت یہ بتایا کہ عمران حکومت کی فیصلہ سازی کے ضمن میں بہت ہی بااثر تصور ہوتے جہانگیر ترین نے وفاقی حکومت کو چینی کی بیرون ملک فروخت کو مائل کیا۔ پنجاب حکومت پر دبائو ڈال کر انہوں نے کروڑوں کی "امدادی رقوم" بھی حاصل کرلی۔
مذکورہ رپورٹ نے یہ بھی بتادیا کہ چینی پیدا کرنے والوں کا ایک "مافیا" ہے۔ یہ طلب اور رسد کی بنیادی منطق کو بے رحمی سے نظرانداز کرتے ہوئے چینی پیدا کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ بالآخر اتنی چینی پیدا ہوجاتی ہے جو پاکستان کی اجتماعی طلب سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اجتماعی طلب سے کہیں وافر اس پیداوار کو بیرون ملک بیچنے کی دہائی مچائی جاتی ہے۔ یہ اجازت نہ ملے تو چینی پیدا کرنے والے اپنے کارخانے بند کرنے کو مجبور ہوجائیں گے۔ کارخانے بند ہوجانے سے بے روزگاری پھیلنے کا خطرہ منڈلانا شروع ہوجاتا ہے۔ چینی بنانے والے اپنے گوداموں میں ذخیرہ ہوئی چینی کو بیچ کر اپنے کارخانے بند رکھنے کا خطرہ مول لے سکتے ہیں۔ وفاقی حکومت بنیادی طورپر لیکن اس وجہ سے مزید فکر مند ہوجاتی ہے کہ اگر چینی کے کارخانے بند رہیں تو وہ کاشت کار جنہوں نے گنے کی فصل لگارکھی ہے اپنی نئی فصل کے خریداروں سے محروم ہوجائیں گے۔
دھندے کو رواں رکھنے کے لئے طلب اور رسد کی بنیادی منطق کو نظرانداز کرتے ہوئے "امدادی رقوم" کی تھپکی سے لہذا چینی پیدا کرنے والوں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ کارخانے بند نہ کریں۔ اطلاع ہمیں یہ بھی دی گئی ہے کہ پاکستان کی اجتماعی طلب سے کہیں زیادہ مقدار میں چینی پیدا کرنے والے صنعت کار درحقیقت ایک "مافیا" کی صورت کام کرتے ہیں۔ انہوں نے کئی برسوں سے ہمارے ہاں آئی ہر حکومت کو بلیک میلنگ کے ذریعے بے بس بنارکھا ہے۔ تحریک انصاف کی "انقلابی" حکومت بھی اس کا مقابلہ نہ کر پائی۔ عمران خان صاحب مگر نظام کہنہ کے باغی ہیں۔ اس سے نجات پانے کو بے چین۔ انہیں مزید پریشانی اس وجہ سے بھی لاحق ہوئی کہ ان کے قریب ترین شمار ہوتے جہانگیر ترین چینی کے دھندے سے متعلق "مافیا" کے تقریباََ "سرغنہ" نظر آئے۔
ہمیں بتایا گیا ہے کہ عمران خان صاحب کی جگہ شریف خاندان یا آصف زرداری جیسا کوئی "چور اور لٹیرا" اس وقت ہمارا حکمران ہوتا تو چینی کے "بحران" کی بابت ایف آئی اے کی تیار کردہ رپورٹ منظر عام پر نہ لائی جاتی۔ اسے دبا دیا جاتا۔ عمران خان صاحب نے مگر تاریخی جرأت سے کام لیتے ہوئے ایف ا ٓئی اے کی تیار کردہ رپورٹ کو منظرِ عام پر لانے کا حکم دیا۔ اب ایک تفصیلی رپورٹ کا انتظار کیا جارہا ہے۔ وہ اس ماہ کی 25تاریخ تک تیار ہوگی۔"فرانزک آڈٹ"، کے ذ ریعے اس رپورٹ میں چینی کے کاروبار سے وابستہ اجارہ دار "مافیا" کی نشان دہی ہوجائے گی۔ اس کے سرکردہ احتساب کے شکنجے میں جکڑے جائیں گے۔
"فرانزک آڈٹ" کے ذریعے تیار ہوئی رپورٹ کے منظرِ عام پر آنے کے لئے ہمیں 25اپریل تک انتظار کرنا ہوگا۔ سوال اٹھتا ہے کہ اس دن تک کرونا کس موضوع کو زیر بحث لاتے ہوئے اپنی دوکان چلائے۔ کوروناکی وباء نے لوگوں کو ویسے ہی خوفزدہ بنارکھا ہے۔ اپنے گھروں میں محصور ہوئے وہ ٹی وی سکرینوں پر وقت گزارنے اور دل بہلانے کو چسکہ بھری کہانیوں کے منتظر رہتے ہیں۔ Ratings کو یقینی بنانے کے لئے لہذا اب "شوگرمافیا" کے Don ٹھہرائے جہانگیر ترین خان سے رجوع کیا جارہا ہے۔ پرائم ٹائم پر حاوی تقریباََ ہر ٹاک شو میں وہ One on One انٹرویوز دئیے چلے جارہے ہیں۔ چینی کے بحران کے علاوہ ان سے گفتگو کرتے ہوئے ہمارے متجسس اینکر خواتین وحضرات "اندر کی کہانیاں " بھی کھوج رہے ہیں۔
جہانگیر ترین کی جانب سے بتائی "اندر کی کہانی" نے اب منکشف یہ کیا ہے کہ تحریک انصاف 2013 کے انتخابا ت میں ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر ا کثریت حاصل نہیں کرپائی تھی۔ اس کے خلاف "دھاندلی" نہیں ہوئی تھی۔ بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ اس کے پاس "حلقوں " میں طاقت ور شمار ہوتے Electables کی مؤثر تعداد موجود نہیں تھی۔ یہ"بنیادی نکتہ" مگر عمران خان صاحب ازخود دریافت نہیں کرپائے تھے۔ جہانگیر ترین کے زرخیز ذہن نے انہیں اصل حقیقت سمجھائی۔ بالآخر عمران صاحب قائل ہوگئے کہ ہمارے ہاں کئی دہائیوں سے سیاسی نظام پرمسلط ہوئے بااثر خاندانوں کو On Board لئے بغیر وہ اس ملک کے وزیر اعظم نہیں بن پائیں گے۔ جہانگیر ترین نے اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کرنے کا وعدہ کیا۔ بالآخر ان کے نجی طیارے میں بیٹھ کر "موروثی سیاست" کے علمبردار گھرانوں سے منسلک افراد بنی گالہ آنا شروع ہوگئے۔ 2018 میں تحریک انصاف کی ٹکٹ پر انتخاب لڑا۔ قومی اسمبلی پہنچ گئے تو بالآخر عمران خان صاحب کو ووٹ دے کر پاکستان کا وزیر اعظم بنادیا۔
جہانگیر ترین کی معاونت اور موروثی سیاستدانوں کی حمایت کی وجہ سے وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوجانے کے باوجود عمران خان صاحب مگر نظام کہنہ کے خلاف بغاوت کے عزم کو فراموش کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ "نظریاتی" تھے، ہیں اور رہیں گے۔ انقلابی نظریات اور موروثی سیاست دانوں کے خلاف برپا جنگ کا نیا مرحلہ آگیا ہے۔ ہمیں اس جنگ کے تخت یا تختہ والے معرکے دیکھنے کے لئے تیار کیا جارہا ہے۔ دریں اثناء کرونا سے نبردآزما ہونے والا سوال بھلادیا گیا ہے۔