پیر کے روز ایک دن قبل ہوئے ضمنی انتخابات کے نتائج کی بابت اپنے ساتھیوں سے طویل مشاورت کے بعد عمران خان صاحب نے ایک تفصیلی پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ میں اس فروعی بحث میں الجھنا نہیں چاہتا کہ سابق وزیر اعظم نے اپنی پسند کے چند صحافیوں ہی کو مذکورہ پریس کانفرنس کے لئے مدعو کیوں کیا۔ میری دانست میں ہر سیاست دان کو یہ حق میسر ہے کہ اپنا پیغام اجاگر کرنے کے لئے من پسند انتظامات کے ذریعے "پریس کانفرنس" سے خطاب کرے۔
"صحافت" کئی دہائیوں تک محدودے چند "رپورٹروں" سے مختص رہی ہے۔ زمانے کے انداز اب بدل چکے ہیں۔ رواں صدی کے آغاز میں ٹی وی صحافت اور سوشل میڈیا کے فروغ نے جو انداز متعارف کروایاہے اس نے موبائل کے مالک ہر شہری کو "صحافی" بنادیا ہے۔ سیاستدان "پرہجوم کانفرنس" کے ماحول میں اپنا پیغام تفصیلی انداز میں بیان نہیں کرسکتا۔ کلیدی مقصد اس کا جبکہ اپنا "پیغام" اجاگر کرنا ہوتا ہے۔
اس حقیقت کے تناظر میں لازمی ہے کہ تحریک انصاف کے قائد کے "پیغام" پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔ یہ طے کرنے کے بعد آگے بڑھیں تو عمران خان کامل اعتماد سے یہ اصرار کرتے سنائی دئے کہ اتوار کے دن ضمنی انتخابات نہیں ہوئے "ریفرنڈم" ہوا ہے۔ "ریفرنڈم" نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ وہ پاکستان کے مقبول ترین سیاست دان ہیں۔ "امپورٹڈ حکومت" میں شامل "چوروں اور لٹیروں" سے ہمارے عوام کی اکثریت اُکتاچکی ہے۔
ذاتی طورپر میں"ریفرنڈم" والے دعویٰ کو تسلیم کرنے سے قاصر ہوں۔ اسے نظرانداز کرتے ہوئے بھی تاہم یاد رکھنا ہوگا کہ خان صاحب کے خیال میں اتوارکے "ریفرنڈم"نے ثابت کردیا ہے کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت فوری انتخاب کی شدت سے متمنی ہے۔ یہ بات لکھنے کی ضرورت نہیں کہ انہیں کامل اعتماد ہے کہ فوری انتخابات ہوگئے تو وہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ نہ سہی کم از کم بھاری بھر کم اکثریت سے اقتدار میں واپس لوٹ آئیں گے۔
فوری انتخاب کے مطالبے کو جائز یا ناجائز ثابت کرنے کی بحث میں الجھنا بھی وقت کا زیاں ہوگا۔ یہ سوال مگر اپنی جگہ قائم ہے کہ نئے انتخاب کون دے گا۔ پاکستان کا "تحریری آئین" اگر اب بھی کوئی وقعت رکھتا ہے تو نئے انتخابات فقط اسی صورت ممکن ہیں اگر وزارت عظمیٰ کے منصب پر ان دنوں فائز شہباز شریف صاحب صدر مملکت کو موجودہ قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی درخواست کریں۔ اتوار کے دن ہوئے ضمنی انتخابات کے نتائج آجانے کے بعد شہباز شریف ایسی درخواست بھیجنے کی جرات نہیں دکھائیں گے۔
"تحریری آئین" ہی کو بروئے کار لانا ہے تو فوری انتخاب کے حصول کا دوسرا راستہ یہ ہے کہ عمران خان صاحب اپنے ان اراکین سمیت قومی اسمبلی میں واپس لوٹ آئیں جن کے استعفے ابھی تک سپیکر راجہ پرویز اشرف نے منظور نہیں کئے ہیں۔ تحریک انصاف اگر اپنے تئیں قومی اسمبلی میں لوٹ بھی آئے تو اس کے پاس شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے والے نمبر موجود نہیں ہیں۔ سابق وزیر اعظم کو ایک بار پھر ان ہی "اتحادیوں" سے رجوع کرنا ہوگا جن کے تعاون سے انہوں نے جولائی 2018ءکے انتخابات کے بعد حکومت بنائی تھی۔ رواں برس کے اپریل میں وہ ان سے جدا ہوگئے تو شہباز شریف کو برسراقتدار لانے کی چال کامیاب ہوئی۔ آخری وقت پر ساتھ چھوڑ جانے والے"اتحادیوں" کو لیکن خان صاحب معاف کرنے کو آمادہ نہیں۔
نئے انتخابات یقینی بنانے کے لئے سابق وزیر اعظم ازخود کوئی سیاسی گیم لگانے کے بجائے "انہیں" یاد دلائے چلے جارہے ہیں کہ ملک کے "وسیع تر قومی مفاد" کی خاطر وہ "نیوٹرل" رہنے کے بجائے "سیاسی" کردار ادا کرنے کو رضا مند ہوجائیں۔ نظر بظاہر "وہ" مائل نہیں ہورہے۔ "ان" پر دباؤ بڑھانے کے لئے عمران خان صاحب کو لہٰذااپنے وعدے کے مطابق رواں مہینے کے اختتام سے قبل اسلام آباد پر لانگ مارچ کے ذریعے "دھاوا"بولنا ہوا۔ نواز شریف کی پہلی حکومت کے اختتامی دنوں میں بھی ان دنوں کی اپوزیشن جماعتیں ویسا ہی ماحول بنانا چاہ رہی تھیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کو مگر ان دنوں کے آرمی چیف نے مذاکرات کے لئے اپنا ہیلی کاپٹر بھیج کر مدعو کرلیا۔ اس ملاقات کی بدولت "کاکڑ فارمولا" نمودار ہوا۔ صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف اپنے عہدوں سے مستعفی ہوگئے۔ معین قریشی کو امریکہ سے ہنگامی طورپر مدعو کرنے کے بعد عبوری وزیر اعظم بنادیا گیا۔ 1993ءمیں تاہم ان کی نگرانی میں جو انتخاب ہوئے اس کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں اور تین برس تک اقتدار میں رہیں۔
میں ہرگز یہ دعویٰ نہیں کررہا کہ اگر اب کی بار "کاکڑ فارمولا" جیسا کوئی راستہ بن گیا تو یہ بالآخر عمران خان صاحب کے بجائے ان کے سیاسی مخالفین خاص طورپر نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ ہی کے کام آئے گا۔ یہ بات تقریباََ یقینی نظر آرہی ہے کہ موجودہ حالات میں نئے انتخاب ہوئے تو وہ عمران خان صاحب ہی کو فائدہ پہنچائیں گے۔ سوال اگرچہ یہ لکھ دینے کے بعد یہ بھی اٹھاناہوگا کہ اگر "نیوٹرل" کی معاونت سے نئے انتخابات تقریباََ عمران خان صاحب کی خواہش کے مطابق "مسلط" ہوئے نظر آئے تو ان دنوں حکومت میں بیٹھ کر بھی بے بس ولاچار دِکھتی جماعتیں کیا رویہ اپنائیں گی۔ فی الوقت تو یہ نظر آرہا ہے کہ وقت سے پہلے اقتدار کھودینے کے بعد یہ جماعتیں عمران خان صاحب کی طرح "خطرناک" نہیں بن پائیں گی۔
"وقت" مگر کبھی ساکن نہیں رہتا۔ شہباز شریف صاحب دباؤ کے تحت مستعفی ہونے کے باوجود شاید "باغی" ہونے سے گریز کریں گے۔ لندن میں مقیم ان کے بڑے بھائی مگر یکسومختلف رویہ اپناسکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت بھی "غضب ناک" ہوسکتے ہیں۔ سندھ میں آئے سیلاب کی تباہ کاریوں نے پیپلز پارٹی کو ویسے ہی بوکھلارکھا ہے۔ اقتدار سے "زبردستی" نکالے جانے کے بعد وہ ایک بار پھر "سندھ کارڈ" کو بھی زندہ کرسکتی ہے۔
یہ حقائق مگر ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا میں فی الوقت زیربحث نہیں۔ عمران خان صاحب تو انہیں کسی خاطر میں نہیں لارہے۔ ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے البتہ میں اس خدشے کے اظہار کو مجبور ہوں کہ محض عمران خان صاحب کے دباؤکے تحت ہوئے فوری انتخاب وطن عزیز کو استحکام فراہم نہیں کر پائیں گے۔