وقت بہت ظالم ہے۔ لوگوں کی اصلیت بے نقاب کئے بغیر اسے چین نہیں آتا۔ بدھ کے روز سوشل میڈیا کے ذریعے مجھے اسلام آباد میں سرکاری ملازموں پر جارحانہ لاٹھی چارج اور آنسو گیس پھینکنے کی تصاویر ملتی رہیں۔ میں نہا دھوکر کپڑے بدلنے کے بعد اس فکر میں مبتلا تھا کہ اپنے ایک بہت ہی پیارے دوست کے فارم ہائوس کیسے پہنچوں گا جنہوں نے دیگر قریبی دوستوں کو بھی رات کے کھانے پر بلارکھا ہے۔ وہاں مدعو ہوئے ایک مہمان ایئرپورٹ کو اسلام آباد سے ملانے والی شاہراہ پر تین گھنٹوں سے ٹریفک میں پھنسے ہوئے تھے۔ کئی احباب نے اطلاع یہ بھی دی کہ ریڈزون کی نواحی گلیوں میں واقعہ ان کے گھروں میں آنسو گیس کے بادل آجانے کی وجہ سے سانس لینا دشوار ہورہا ہے۔ طویل عرصے کے بعد پاکستان کا دارالحکومت مظاہرین اور پولیس کے مابین پُرتشدد مقابلے کے مناظر دکھا رہا تھا۔
ان مناظر کے بارے میں فکر مند ہوئے ذہن میں 2013میں ہوئے ایک واقعہ کی یاد آگئی۔ پشاور کے گل بہار علاقے کی ایک گلی تھی۔ وہاں تحریک انصاف کے شوکت یوسف زئی نے لوگوں سے رابطے کا دفتر بنارکھا تھا۔ پورے ملک میں انتخابی مہم زور شور سے جاری تھی۔ امید باندھی جارہی تھی کہ مردان میں ایک جلسے سے خطاب کے بعد عمران خان صاحب گل بہار کی اس گلی میں بھی تشریف لائیں گے۔ سکیورٹی کے بارے میں فکر مند اہل کار مگر خان صاحب کو اجتناب کا مشورہ دے رہے تھے۔
طویل انتظار کے ان لمحات میں نوجوانوں کا ایک گروہ میرے گرد جمع ہوگیا۔ عمران خان صاحب انہیں بہت پسند تھے۔ دیگر سیاست دانوں کو وہ "چور اور لٹیرے"ہی نہیں بلکہ عوامی مشکلات سے سفاکانہ حد تک لاتعلق شمار کرتے تھے۔ غریب کے دُکھوں کی بات چلی تو ایک نوجوان نے نہایت خلوص سے اعلان کیا کہ وہ صاحب جنہیں میں اس کالم میں "راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر" پکارتا ہوں، واحد سیاست دان ہیں جو انتہائی دردمندی سے "غریب کی ٹپکتی چھت" کا تذکرہ کرتے ہیں۔ عوام کے دُکھوں کے وہ حقیقی ترجمان ہیں۔ رپورٹر کی ڈھیٹ ہڈی کی بدولت میں خاموش مسکراہٹ سے اس نوجوان کی جذبات بھری ستائش کو سنتا رہا۔ اسلام آباد پر چھائے آنسو گیس کے بادلوں کی تصاویر دیکھتے ہوئے یاد آگیا۔
سرکاری ملازمین کو بدھ کے روز ہوئے مظاہرے کے لئے ان ہی صاحب کے رویے اور زبان نے اشتعال دلایا تھا جو کئی برسوں تک "غریب کی ٹپکتی چھت" کی بابت نوحہ گری کرتے ہوئے ٹی وی سکرینوں پر تنہابیٹھے ریکارڈ ساز Ratingsلیتے رہے ہیں۔ اسلام آباد کی پولیس ان دنوں موصوف کے ماتحت ہے۔ مظاہرین کا غضب بھڑکاکروہ سکرینوں سے غائب ہوگئے۔ معاملات سنبھالنے کی ذمہ داری پرویز خٹک اور شبلی فراز کو سونپ دی گئی۔ ہمارے احمد فراز کے فرزند نے تاہم "روٹی نہیں تو کیک کھائو" جیسا رویہ اختیار کرتے ہوئے جان چھڑالی۔ خٹک صاحب کی معاونت کے لئے علی محمد خان صاحب کو متحرک ہونا پڑا۔
پاکستان کے تنخواہ دار افراد کی بے پناہ اکثریت اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ ہماری ریاست کے گریڈ 1سے 16تک کے ملازمین کو جو تنخواہ ملتی ہے اس میں گزارہ قطعی ناممکن ہے۔ درد مند حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ٹھوس اعدادوشمار پر گہری نظر رکھتے ہوئے سرکاری ملازمین کو افراطِ زر کی بدولت رونما ہوئی تکالیف سے نبردآزما ہونے کے لئے "ریلیف" کے نام پر اضافی رقوم فراہم کریں۔ ہمارے خزانے کی کنجی ان دنوں IMFکے نامزد کردہ حفیظ شیخ صاحب کے "ٹیکنوکریٹ"ہاتھوں میں ہے۔ کابینہ کے تقریباََ ہر دوسرے اجلاس میں وہ اپنا لیپ ٹاپ کھول کر ایسے اعدادوشمار دکھاتے ہیں جو "سب اچھا، کی نوید سناتے ہیں۔ ہمارا "آزاد اور بے باک" میڈیا مگر بدھ کے دن ان سے رابطہ ہی نہ کرپایا۔ ان ہی کی بدولت یہ سمجھا سکتا تھا کہ سرکاری ملازمین کس حد تک "ناجائز" تقاضا کررہے ہیں۔"جائز" مطالبات کی تسکین کے لئے "شفا"بھی ان ہی کے دستخطوں سے جاری ہوئے "نسخے" سے میسر ہوگی۔ حفیظ شیخ جیسے "ٹیکنوکریٹ" مگر "خاص مخلوق" ہوا کرتے ہیں۔ Macro یا Micro Managementکے نا م پر کلیدی فیصلوں کا حتمی اختیار ان کے پاس ہے۔ ان فیصلوں سے تنخواہ دار کے دلوں میں جو آگ بھڑکتی ہے اسے ٹھنڈا کرنے کے لئے عوام کے ووٹوں کے محتاج پرویز خٹک اور علی محمد خان جیسے روایتی سیاستدانوں ہی کو مظاہرین کی منت سماجت کرنا ہوتی ہے۔ حفیظ شیخ صاحب نے مگر بدھ کی شام اپنے گھر میں نہایت سکون سے گالف کی پریکٹس کی ہوگی۔ اس پریکٹس کو وڈے لوگ غالباََPuttingپکارتے ہیں۔"گندی" سیاست کے تقاضوں سے آزاد ہوئے یہ ٹیکنوکریٹ اب ووٹوں کی بھیک مانگ کر قومی یا صوبائی اسمبلیوں میں تحریک انصاف کی ٹکٹ کی بدولت پہنچے اراکین سے ووٹ لے کر ایوان بالا کا رکن منتخب ہونے کی تیاری کررہے ہیں۔ تحریک انصاف کے اراکین پارلیمان کو سرجھکا کر ان کی حمایت میں اُنگوٹھا لگاناہوگا۔ وہ انگوٹھا لگانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کریں تو "بکائو" پکارے جائیں گے۔ ان پر الزام لگے گا کہ "چوروں اور لٹیروں " سے بھاری رقوم لے کر انہوں نے "قیادت"سے بے وفائی کی۔"لوٹے" ہوگئے۔ ربّ کریم سے فریاد ہے کہ مجھے اگر ایک اور زندگی عطا کرنا ہے تو اپنے حبیبﷺ کے صدقے مجھے بھی "ٹیکنوکریٹ" بنادے۔
کرونا کی وباء پھوٹنے کے ابتدائی ایام سے اس کالم میں مسلسل فریاد کئے چلاجارہا ہوں کہ مذکورہ وباء نے دُنیا بھر کی معیشت کو ہلاکررکھ دیا ہے۔ امریکہ جیسی بے رحم سرمایہ دارانہ ریاستیں بھی مجبور ہورہی ہیں کہ کرونا کی وجہ سے غریب تر ہوئے لاکھوں افراد کو آسرا دینے کے لئے امدادی رقوم فراہم کی جائیں۔ ورلڈ بینک اور IMFجیسے سفاک ادارے بھی اس ضمن میں کافی نرمی دکھارہے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کے لئے کرونا کی بدولت "امدادی رقوم" کے پیکیج تیار ہوئے۔
ہمارے ہاں حیران کن ڈھٹائی سے مسلسل ڈھول پیٹا جاتا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے۔ عوام نے ہمارے ہاں ایک پارلیمان منتخب کررکھی ہے جو حکومت کو ہمیشہ سوالات کی زد میں رکھتی ہے۔ کرونا کے پھیلائو کے بعد قومی اسمبلی کے جتنے بھی اجلاس ہوئے وہاں وزراء اور حکومتی جماعت کے دیگر نمائندگان سینہ پھلاکر یاد دلاتے رہے کہ کروڑوں پاکستانیوں کو سہارا دینے کے لئے احساس پروگرام کے تحت یکمشت پندرہ ہزار روپے ادا کردئیے گئے ہیں۔ اپوزیشن اراکین کی بھاری بھر کم تعداد مگر ابھی تک میرے اور آپ جیسے بدنصیبوں کی خاطر یہ معلوم نہیں کرپائی کہ ورلڈ بینک وغیرہ سے کرونا کے لئے مختص"امدادی رقم" کتنے ارب پاکستانی روپوں پر مشتمل تھی۔ احساس پروگرام کے نام پر جو "آسرا" دیا گیا وہ مذکورہ رقم کا کتنے فی صد تھا۔ عوام کے دُکھوں کی بابت ٹسوے بہاتی اپوزیشن جماعتیں ایسے سوالات اٹھاتیں تو بآسانی دریافت ہوجاتا کہ ورلڈ بینک وغیرہ سے کرونا کے نام پر جو "خیرات" آئی ہے اس کا گرانقدر حصہ چند دھندوں کے اجارہ دار سیٹھوں کی "معاونت" کے لئے خرچ ہوا ہے۔ غریب کو اس ضمن میں اونٹ کے منہ میں زیرہ جتنی رقم ہی ملی۔
اجارہ دار سیٹھوں کو "آسرا" ملا تو حکومت نے ایسے اعدادوشمار کی تشہیر شروع کردی جو برآمدات میں خیرہ کن بڑھوتی کی نوید سناتے ہیں۔ معیشت "بحال" کرنے کی بڑھک لگانے کے بعد بجلی اور پیٹرول کے نرخوں میں گرانقدر اضافہ شروع کردیا گیا۔ سرکاری ملازم کی تنخواہ مگر جامد رہی۔ وہ اپنے لئے "آسرا" ڈھونڈنے نکلا تو ریاست نے "قانون کی حکمرانی" ثابت کرنے کے لئے ریاستی قوت کو بے دریغ انداز میں استعمال کیا۔"غریب کی چھت ٹپکتی" ہی رہے گی۔ کوئی اس کا پرسان حال نہیں۔ وہ سیاسی جماعتیں بھی نہیں جو "خالص جمہوریت" کے نفاذ کو تڑپ رہی ہیں۔