پیر کے دن اسلام آباد کے مجھ جیسے پرانے رہائشیوں کے لئے بھی سردی بہت شدید تھی۔ بستر سے نکلنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی۔ زندہ رہنے کے لئے مگر رزق کمانے کی خاطر موسم کی شدتوں کو نظرانداز کرنا ضروری ہے اور جن دنوں قومی اسمبلی کا اجلاس ہورہا ہو تو میں اس کالم کے علاوہ "دی نیشن" کے لئے پریس گیلری والا کالم لکھتا ہوں۔ نہادھوکر لہٰذا اپنے تئیں بالم بنا اور گاڑی سٹارٹ کرکے پارلیمان کی جانب روانہ ہوگیا۔
وہاں موجود ساتھی مجھے واٹس ایپ کے ذریعے تازہ ترین بھیجتے ر ہتے ہیں۔ آدھے راستے میں تھا تو اطلاع آئی کہ فقط بارہ اراکین کی موجودگی میں اجلاس شروع کردیا گیا۔ تلاوت کلام پاک اور دیگر ابتدائی رسومات کے بعد پیپلز پارٹی کے آغارفیع اللہ نے کورم نہ ہونے کی نشان دہی کردی۔ اسے پورا کرنے کے لئے اجلاس مؤخر کردیا گیا۔ کافی انتظار کے بعد مگر بندے پورے نہیں ہوئے۔ اجلاس کو بالآخر منگل کی شام تک مؤخر کردیا گیا۔
یاد رہے کہ کورم نہ ہونے کے باوجود قانون کی نگاہ میں پیر کے روز قومی اسمبلی کا اجلاس باقاعدہ منعقد ہوا ہے۔ اس کے ہر رکن کو اس روز"کام" کرنے کا بھاری بھر کم معاوضہ ادا کیا جائے گا۔ مجھے کامل یقین ہے کہ اس ماہ کے اختتام تک ہمارے "فرض شناس" نمائندے نظر بظاہر بغیر کوئی کام کئے یہ معاوضہ وصول کرتے رہیں گے۔
حکومت کے پاس فی الوقت قومی اسمبلی سے منظور کروانے کے لئے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ گزشتہ جمعرات کے دن ایک طویل ترین اجلاس کے دوران قومی اسمبلی سے منی بجٹ کے علاوہ 15مزید قوانین بھی منظور کروالئے گئے ہیں۔ اسمبلی کا سیشن مگر جاری رکھا جارہا ہے۔ فقط اس وجہ سے کہ ہمارا تحریری آئین تقاضہ کرتا ہے کہ ہر پارلیمانی سال کے دوران قومی اسمبلی کم از کم 120مرتبہ ملے۔ مطلوبہ دن پورے کرنے کا کھانچہ ہے۔ ڈھٹائی کے ساتھ ہوئی دونمبری جس کا ارتکاب حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی باہمی رضا مندی سے ہورہا ہے۔
ایسی دیدہ دلیر دونمبریوں کے عینی شاہد ہونے کے باوجود مجھ جیسے صحافی آپ کو اس گماں میں مبتلا رکھیں گے کہ وطن عزیز میں ایک منتخب پارلیمان ہے۔ حکومت اس کے روبرو جوابدہ ہے۔ میرے اور آپ جیسے عام شہری کے ساتھ وہ کوئی زیادتی کرنا چاہے تو منتخب پارلیمان میں بیٹھے اراکین ہمارے تحفظ کے لئے سینہ پھلاکر کھڑے ہوجائیں گے۔ پارلیمانی جمہوریت کے واہمے کو حقیقت کی صورت دیتے ہوئے ہم اپنا دھندا چلاتے ہیں۔ آپ کو اس گماں میں مبتلا رکھتے ہیں کہ ہم "جمہوری نظام" کی برکتوں سے فیض یاب ہورہے ہیں۔
سلطانوں کی من مانی کو روکنے کیلئے "(ہماری)نمائندگی کے بغیر کوئی ٹیکس نہیں لگایا جائے گا" والے نعرے کی بدولت منتخب پارلیمان کا ادارہ وجود میں آیا تھا۔ اس ادارے میں قانون سازی کے لئے کئی مراحل طے کرنا ہوتے ہیں۔ مذکورہ مراحل کی بدولت عام شہریوں کو علم ہوتا ہے کہ کن ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر نئے قوانین متعارف اور لاگو کئے جارہے ہیں۔ اس ضمن میں ہمیں باخبر رکھنے کی بنیادی ذمہ داری اپوزیشن نشستوں پر بیٹھے اراکین کی ہے۔
ہماری اپوزیشن میں ان دنوں "ووٹ کو عزت دو" کا ورد کرنے والوں کی اکثریت ہے۔ انہوں نے تاہم اس قانون کا مسودہ دیکھے بغیر ہی اس کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کردیا تھا جو ایک ریاستی عہدے کی معیاد ملازمت میں توسیع کے لئے سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس کے حکم پر تیار ہونا تھا۔ وہ قانون تیار ہوگیا تو حکومت اور اپوزیشن نے کوئی بحث کئے بغیر ہی اسے 12منٹ میں متفقہ طورپر منظور کرتے ہوئے تاریخ بنائی۔ جی حضوری کی ایسی مثال دنیا کی کسی اور پارلیمان میں نظر نہیں آئی۔
مذکورہ قانون کے علاوہ دس سے زیادہ قوانین پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلوانے کے نام پر بھی تیار ہوئے تھے۔"ہمارے نمائندوں " کا بنیادی فریضہ تھا کہ وہ ان قوانین پر بھرپور بحث کے ذریعے میرے اور آپ پر مشتمل رعایا کی رہنمائی کے لئے دریافت کرتے کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں کیوں ڈالا گیا تھا۔ اپوزیشن کے کسی ایک رکن نے بھی لیکن یہ جرأت نہیں دکھائی۔ قومی اسمبلی کے سپیکر کے سرکاری گھر میں ریاستی اور حکومتی نما ئندوں کے ساتھ رات گئے تک بیٹھے ہوئے مک مکا میں مصروف رہے۔
ان کی جانب سے برتی فدویانہ جی حضوری کے باوجود ایک دن مخدوم شاہ محمود قریشی دندناتے ہوئے ایوان میں آئے اور نہایت حقارت سے اعلان کردیا کہ مذکورہ قوانین کی منظوری میں معاونت کے بدلے اپوزیشن جماعتیں اپنے "بدعنوان رہ نمائوں " کے لئے معافی تلافی والے این آر او کی طلب گار ہیں۔ عمران خان صاحب مگر "چوروں اور لٹیروں " پر ترس کھانے کو ہرگز تیار نہیں۔ اپنے اصولی مؤقف کی وجہ سے وزارت عظمیٰ گنوانے کو بھی ہمہ وقت تیار بیٹھے ہیں۔
شاہ محمود قریشی کی جانب سے ذلت اچھالتی اس تقریر کے باوجود "ووٹ کو عزت دو " کا سوانگ رچانے والے "انقلابیوں " نے تاریخی عجلت میں مذکورہ قوانین پاس کروانے میں بھرپور معاونت فراہم کی۔ بہانہ یہ تراشا کہ وہ پاکستان کے "وسیع تر مفاد" میں کڑوا گھونٹ پی رہے ہیں۔ مذکورہ قوانین کو منظور ہوئے ایک برس سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا ہے۔ پاکستان مگر اب بھی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں موجود ہے۔
کسی اپوزیشن رہ نما نے ابھی تک یہ جرأت نہیں دکھائی کہ ایوان میں کھڑے ہوکر حکومت کو یہ بتانے کو مجبور کرے کہ تاریخی عجلت میں منظور کروائے قوانین کے باوجود پاکستان ابھی تک اس لسٹ میں کیوں موجود ہے۔ اس تناظر میں پنجابی محاورے والی گوٹ کہاں پھنسی ہوئی ہے۔ ایسے "نمائندوں " کے ہوتے ہوئے مجھے تو رعایا کے دُکھوں کا ذکر ہوتا بھی لیکن نظر نہیں آرہا۔ ان کے ازالہ کی صورت نکالنا تو بہت دور کی بات ہے۔