صوفی تبسم صاحب محض شاعر ہی نہیں تھے۔ اردو کے علاوہ فارسی شاعری کو آفاق کی بلندیوں تک لے جانے والے عرفی، نظامی اور فردوسی جیسے نابغوں کی زبان وبیان پر مہارت کا لگن سے کھوج لگانے والے محقق بھی تھے۔ اپنی شاعری کو لیکن سادہ سے سادہ تر بنانے کے لیے زندگی وقف کیے رکھی۔ بچوں کے لیے بھی نظمیں نہ لکھتے تو شاید مجھ جیسے لوگ طالب علمی کے دوران ہی اردو ادب کی جانب راغب نہ ہوتے۔
بچوں کے لیے، صوفی صاحب کے لکھے چند اشعار عمر کے آخری حصے میں کئی گھمبیر سیاسی معاملات کو میرے لیے برجستہ سلجھادیتے ہیں۔ مثال کے طورپر وہ مصرع جو شکار، کے لیے نکلے ایک گروہ کا انجام لڑتے لڑتے ہوگئی گم-ایک کی چونچ اور ایک کی دم، کے ذریعے بیان کرتا ہے۔ یہ مصرع گزشتہ کئی دنوں سے مجھے بارہا یاد آتا رہا۔ روایتی اور سوشل میڈیا پر نگاہ ڈالتا ہوں تو چیختی دھاڑتی سرخیوں سے خبر، مجھے یہ دی جاتی ہے کہ وطن عزیز میں ان دنوں پارلیمان اور سپریم کورٹ ایک دوسرے کے روبرو تلوار سونتے کھڑے ہوچکے ہیں۔ صوفی صاحب کے بیان کردہ شکاریوں کے برعکس متحارب فریقین میں سے ایک کی چونچ اور دوسرے کی دم مبینہ لڑائی سے قبل ہی تاہم گم ہوچکی ہیں۔
خود کو سب پہ بالادست، ثابت کرنے کو بے چین پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں حال کی اپوزیشن اور اگست 2018ء سے اپریل 2022ء تک حکمران رہی تحریک انصاف موجود ہی نہیں ہے۔ اس کی عدم موجودگی کی وجہ سے پارلیمان کی چونچ، لہٰذا گم ہوئی محسوس ہورہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پالیمان کا چونچ، سے محروم ہوجانا ہماری سیاسی تاریخ کے تناظر میں عجوبہ تصور نہیں کیا جاسکتا۔
قیام پاکستان کے چند ہی برس بعد افسر شاہی سے ابھرے ملک غلام محمد نے بطور گورنر جنرل پارلیمان کی چونچ، کاٹ دی تھی۔ ان دنوں کے چیف جسٹس منیر نے مذکورہ اقدام کو نظریۂ ضرورت، کے تحت واجب ٹھہرایا تھا۔ پارلیمان کی چونچ، کٹ گئی تو بالآخر 1958ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان پاکستان میں پہلا مارشل لاء لگانے کی بدولت ہمارے دیدہ ور، ہوئے۔ جسٹس منیر ہی کی معاونت سے انھوں نے ہمیں 1962ء کا دستور، بھی دیا۔ اس کی بدولت جاہل اور اجڈ، عوام بنیادی جمہوریت، کے نمائندے منتخب کرتے۔
بی ڈی ممبر، کہلاتے یہ افرد بعدازاں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین منتخب کرتے۔ یہ نمائندے ہی صدر کو بھی اپنے ووٹوں سے منتخب، کرتے اور ایوب خان اس کی بدولت عوام کے حقیقی نمائندہ ہونے کے گماں میں مبتلا رہے۔ قوم کو کامل دس برس تک سیدھی راہ پر چلاتے رہے۔ فرد واحد یعنی صدر ایوب کی ذات میں مرتکز ریاست اور حکومتی اختیارات کا نتیجہ مگر ہم نے بنگلہ دیش کے قیام کی صورت بھگتا جسے میرے بچپن میں مشرقی پاکستان، کہا جاتاتھا۔
عوام کے براہِ راست ووٹوں سے قومی اسمبلی کے قیام کا حق جاہل اور اجڈ، پاکستانیوں کو قیام پاکستان کے طویل عرصے بعد 1970ء میں نصیب ہوا۔ اس کے نتیجے میں قائم ہوئی قومی اسمبلی مشرقی پاکستان کھودینے کے بعد بقیہ پاکستان میں فقط پانچ برس تک برقرار رہ سکی۔ 7جولائی 1977ء میں ایک اور مارشل لاء نافذ ہوگیا۔ اس نے اسمبلیاں بحال کرنے میں آٹھ برس لگائے۔ ان کے لیے انتخاب مگر غیر جماعتی بنیادوں، پر ہوئے۔ وزیر اعظم کی نامزدگی، صدر کا اختیار رہی۔ صدر مملکت کو یہ اختیاربھی حاصل رہا کہ وہ جب چاہے قومی اسمبلی کو نااہل اور کرپٹ، ٹھہراکر گھر بھیج دے۔
ہیوی مینڈیٹ، کی وجہ سے دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد نواز شریف نے 1997ء کے آغاز میں مذکورہ اختیارات ختم کردیے۔ پارلیمان کی بالادستی، یوں بحال، ہوگئی۔ وہ مگر تین برس بھی برقرار نہ رہ پائی۔ جنرل مشرف اکتوبر1999ء میں ایک اور مارشل لاء کے ساتھ اقتدار کے حتمی مظہر بن گئے۔ انتخاب کے انعقاد سے قبل انھوں نے احتساب پر توجہ دی۔ اپنے تئیں سیاستدانوں کی صفائی ستھرائی کے بعد 2002ء میں اسمبلی تو بحال کردی مگر صدر کی جانب سے اسے کسی بھی وقت فارغ کرنے کا اختیار بھی اپنے لیے ہتھیالیا۔
پارلیمان کی بالادستی، بحال کرنے کے لیے ہمیں ایک بار پھر 2010ء تک انتظار کرنا پڑا۔ آئین میں اٹھارویں ترمیم اس کا باعث تصور ہوئی۔ دریں اثناء مگرایک عوامی تحریک، کی بدولت افتخار چودھری چیف جسٹس کے منصب پر واپس لوٹ چکے تھے۔ اپنے منصب پر لوٹتے ہی انھوں نے ازخود نوٹسوں کی بھرمار کے ذریعے عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب افراد کو جعلی ڈگریوں، کے ساتھ پارلیمان میں گھسےچور اور لٹیرے، دکھانا شروع کردیا۔ بالآخر ایک وزیراعظم، یوسف رضا گیلانی، کو بھی چٹھی نہ لکھنے کے جرم میں توہین عدالت، کا مرتکب ٹھہراکر فارغ کردیا۔
پارلیمان کو لگام، ڈالنے کے لیے افتخار چودھری نے جو روش اختیار کی اس کی بدولت صدر مملکت کے لیے 58-2(B)والے اختیار کی ضرورت ہی باقی نہ رہی۔ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس، ہی وزیر اعظم کو خوف میں مبتلا رکھتے رہے۔ نواز شریف اس کی وجہ سے سیاسی عمل میں حصہ لینے کو تاحیات نااہل قرار دیے جاچکے ہیں۔ عمران خان ان کے برعکس سپریم کورٹ کے سند یافتہ صادق وامین ہیں۔ یہ سندبھی تاحیات، برقرار رہتی نظر آرہی ہے۔
اپنی چونچ، عرصہ ہوا کھودینے کے بعد آج کی پارلیمان میں سپریم کورٹ کو للکارنے کی سکت ہی موجود نہیں تھی۔ دلِ ناتواں، نے تاہم مقابلہ کرنے کی ٹھان لی۔ وہ مقابلے کو تیار ہوئی تو ماضی کے افتخار چودھری، ثاقب نثار یا آصف سعید کھوسہ کے برعکس چیف جسٹس عمر عطا بندیال صاحب اپنے ہی چند سینئر عزت مآب ساتھیوں کی غیر مشروط حمایت سے محروم نظر آنا شروع ہوگئے۔ چونچ، سے محروم ہوئی پارلیمان اب ان کے ساتھ ہم تو ڈوبے ہیں، والے حربے استعمال کررہی ہے۔ قلم، بہرحال چیف جسٹس صاحب کے ہاتھ میں ہے۔ اس کی بدولت اگر وہ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ کے چند سرکردہ اراکین کو توہین عدالت کے الزام کے تحت سیاست سے بے دخل کردیں تو آئین، ہی سب پہ بالادست، ہوتا نظر آئے گا۔
افتخار چودھری کے ذریعے ریاست کو ماں، بنانے کے خواہاں چودھری اعتزاز احسن صاحب بھی اب ایک اور چیف جسٹس صاحب کی حمایت میں جانثاروں، کا لشکر تیار کرنے کی تیاری میں مصروف ہوگئے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے لیے 14مئی کے دن انتخاب کا انعقاد ہوگیا تو موجودہ چیف جسٹس آئین کے حتمی محافظ شمار ہوں گے۔
مجھے مگر یہ غم کھائے جارہا ہے کہ عزت مآب بندیال صاحب رواں برس کے ستمبر میں ریٹائر ہوجائیں گے۔ وہ اگر اس ماہ ریٹائر ہوگئے تو ان کی رخصت کے بعد ہمارے آئین کا تحفظ کون کرے گا۔ نظر بظاہر سپریم کورٹ میں جو دھڑے بندی ہوئی ہے وہ عزت مآب بندیال صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی جگہ سنبھالنے کے حق دار دوسینئر ترین ججوں کو آئین کے تحفظ کی بابت لاتعلق، دکھارہی ہے۔ اس تناظر میں کسی بھی جانب سے حرفِ تسلی، کا شدت سے منتظر ہوں۔