خواجہ آصف صاحب جب طیش میں آجائیں تو رونق لگادیتے ہیں۔ پیر کی سہ پہر گزشتہ ہفتے حماد اظہر کی جانب سے پڑھی آئندہ مالیاتی سال کے لئے ڈاکٹر حفیظ شیخ کی تیارکردہ مالیاتی تجاویز پر قومی اسمبلی میں بحث کا آغاز ہوا۔ اس بحث کا آغاز ہمیشہ قائد حزب اختلاف کرتے ہیں۔ شہباز شریف صاحب مگر کرونا کی زد میں آنے کی وجہ سے ان دنوں خود کو گھرمیں بند کئے بیٹھے ہیں۔ خداانہیں جلد شفایابی عطا فرمائے۔ ان کی عدم موجودگی میں پاکستان مسلم لیگ (نون) کے سینئر ترین رکن ہوتے ہوئے خواجہ صاحب کو بحث کا آغاز کرنا پڑا۔
اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد خواجہ صاحب بینکاری کے شعبے سے وابستہ ہوگئے تھے۔ 1990 کی دہائی میں والد کی وفات کے بعد عملی سیاست میں آئے۔ علم معاشیات کے عملی اطلاق کے بے شمار پہلوئوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ نجکاری اور بجلی پیدا کرنے والی وزارتوں کے نگہبان رہے ہیں۔ وزارتِ دفاع کے بعد وزارتِ خارجہ بھی سنبھالی۔ انہیں ہر اعتبار سے اب ایک انتہائی تجربہ کار سیاست دان تسلیم کرنا ہوگا۔ خواجہ آصف پاکستانی اخبارات کے باقاعدہ قاری نہیں۔ عالمی تاریخ اور امور پر مگر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ نجی ملاقاتوں میں ان امور پر گفتگو کرتے ہوئے بسااوقات "وہ کہے اور سنا کرے کوئی" کا سماں باندھ دیتے ہیں۔
پیر کے روز میری شدید خواہش تھی کہ اپنی تقریر کے ذریعے وہ جامع انداز میں کوئی ایسی پالیسی بیان کریں جو مجھ جیسے عام پاکستانیوں کو یہ امید دلائے کہ کرونا کی وجہ سے نازل ہوئے بے پناہ اقتصادی مسائل کے باوجود وطن عزیز کوئی ایسی راہ تلاش کرسکتا ہے جو ملک کو معاشی بحالی اور ترقی کی جانب لے جاسکتی ہے۔ خواجہ صاحب نے مگر اس حوالے سے سوچ بچار کا نظر بظاہر تردد ہی نہیں کیا۔
گزشتہ برس پے در پے ایسے واقعات ہوئے ہیں جن کی بدولت تاثر یہ پھیلا کہ شاید خواجہ صاحب اپنی صلاحیتیں اور تعلقات کو شہباز شریف صاحب کے "مقتدر حلقوں " سے روابط استوار کرنے کے لئے بروئے کار لارہے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ نواز شریف کے نام سے منسوب پاکستان مسلم لیگ کے اس گروہ کے نمائندہ نظر آئے جن پر "ووٹ کو عزت دو" والے بیانیے سے روگردانی کاالزام لگا۔ پیر کے روز اپنی تقریر کے ذریعے خواجہ صاحب لہذا یہ پیغام دیتے نظر آئے کہ ان کے اندر موجود "آتش" اب بھی زندہ ہے۔ ہمیں یاد دلانے کو مجبور ہوئے کہ نواز شریف سے ان کی دوستی 1964سے شروع ہوئی تھی۔ وہ ان کے لیڈر ہیں اورا نہیں قوی یقین ہے کہ وہ دن ضرور آئے گا جب نواز شریف پوری آن بان اور شان کے ساتھ وطن واپس لوٹیں گے۔ نواز شریف سے پُرجوش وفاداری کا اظہار ان کی پیروالی تقریر کا Operative Partتھی۔
نواز شریف کے قصیدے پڑھنے سے قبل مگر خواجہ صاحب نے عمران حکومت کی معاونت کے لئے آئی ایم ایف سے مستعارلئے ڈاکٹر حفیظ شیخ اور رضاباقر کی خوب کلاس لی۔ انہیں "اُجرتی قاتل(Mercenaries) پکارا۔ ان کا اصرار رہا کہ یہ دونوں حضرات بنیادی طورپر اس امر کو یقینی بنانے پر مامور ہیں کہ پاکستان عالمی اداروں کی جانب سے مہیا کردہ قرضوں اور ان پر واجب سود کو ادا کرنے کے قابل رہے۔ اس ارادے سے مگر جو پالیسیاں وہ بنارہے ہیں وہ ملکی معیشت کو کامل تباہی کی جانب دھکیل رہی ہیں۔ حفیظ شیخ اور رضاباقر بالآخر ہماری معیشت کے "گورکن" ثابت ہوں گے۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ کی ذہانت وفطانت کے بارے میں معاشی امور کے حوالے سے قطعی جاہل مجھ جیسے صحافی کو رائے دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ان کے بارے میں میڈیا میں جولکھا اور بولاجاتا ہے اس کے بارے میں وہ فکر مند بھی نہیں ہوتے۔ انہیں اپنی صلاحیتوں پر بے پناہ اعتماد ہے۔ وضاحتیں دینے کے عادی نہیں۔ 2013کے انتخابات سے قبل مگر ان کی "گوٹ" کہیں پھنسی نظر آئی۔ غالباََ اس برس انتخابات کی نگرانی کے لئے بنائی جانے والی حکومت کے وزیر اعظم بننا چاہ رہے تھے۔ امید تھی کہ پیپلز پارٹی ا نہیں اس منصب پر فائز کروانے کو ڈٹ جائے گی۔ آصف علی زرداری نے تنہائی میں لیکن ان کے بارے میں چند کلمات ادا کئے تو مجھے اندازہ ہوا کہ حقیقت قطعاََ مختلف ہے۔ ان دنوں جس انگریزی اخبار کے لئے پریس گیلری لکھتا تھا وہاں ایک دوبار اشاروں کنایوں میں عندیہ دیا کہ پیپلز پارٹی حفیظ شیخ صاحب کو عبوری وزیر اعظم تعینات نہیں کرنا چاہ رہی۔
شیخ صاحب نے کمال مہربانی سے پہلی اور آخری بار مجھے اپنے ہاں چائے پر بلالیا۔ اس ملاقات کے دوران وہ اپنے والد مرحوم کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے ساتھ اپنے تاریخی تعلق کی داستان بیان کرتے رہے۔ ان کے بیان کردہ ورژن کو ان سے منسوب کئے بغیر بیان کرنا میرا پیشہ وارانہ فرض تھا۔ میں نے ادا کردیا۔ ان سے تعلقات کی کہانی بھی وہاں ختم ہوگئی۔
اتفاق یہ بھی ہوا کہ گزشتہ برس جب یہ قیاس آرائیاں گردش میں تھیں کہ عمران حکومت اسد عمر کی جگہ کسی اور کو وزارتِ خزانہ کامدارالمہام بنانے پر غور کررہی ہے تو ان کی نامزدگی کے امکان کا ذکر بھی میرے اپنے ہاتھ سے کسی نہ کسی طرح ہوگیا۔ پہلی ترجیح اگرچہ شوکت ترین تھے۔ شیخ صاحب کا نام کیسے فائنل ہوا۔ یہ کہانی پھر سہی۔
شخصیات کو فی الوقت مگر بھلانا ہوگا۔ سوال میرے ذہن میں خواجہ صاحب کی پیرکے ر وز ہوئی تقریر کے بعد مسلسل یہ اُٹھ رہا ہے کہ "عوام کی طاقت" سے منتخب ہوئی حکومتیں بالآخر آئی ایم ایف سے وزیر خزانہ مستعارلینے کو کیوں مجبور ہوجاتی ہیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو ایک طویل جدوجہد کے بعد بالآخر 1988میں پہلی بار برسراقتدار آئی تھیں۔ انہیں وزیر اعظم نامزد کرنے سے قبل مگر اس امر کو یقینی بنایا گیا کہ ہماری افسرشاہی کے ایک جید نمائندے، وی-اے-جعفری صاحب، وزارت خزانہ کے مدارالمہام ہوں گے۔ 1993میں لیکن ایسی شرط عائد نہیں ہوئی۔ پیپلز پارٹی کے احسان پراچہ مگر خزانہ کے وزیرمملکت ہی رہے۔
ایک اور طویل جدوجہد کے بعد آصف علی زرداری 2008میں اس ملک کے صدر ہوئے تو چند ماہ گزرنے کے بعد شوکت ترین صاحب کو وزیر خزانہ لگانا پڑا۔ ان سے بات نہ چلی تو حفیظ شیخ صاحب سے رجوع کرنا پڑا۔ ہماری تاریخ کے تناظر میں اگرچہ یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ نواز شریف کی تینوں حکومتوں نے وزارتِ خزانہ چلانے کے لئے آئی ایم ایف سے کسی ٹیکنوکریٹ کو مستعار نہیں لیا۔ سرتاج عزیز کے بعد معاشی معاملات ہمیشہ اسحاق ڈار ہی چلاتے رہے۔
عمران حکومت کے بارے میں ہزار ہا تحفظات رکھنے والے بھی یہ حقیقت تسلیم کرنے کو مجبور ہیں کہ انہوں نے بہت محنت سے نوجوان حامیوں کی ایک Baseتشکیل دی ہے۔ اسد عمر صاحب ہمیشہ تحریک انصاف کی معاشی ترجیحات اور حکمت عملی کے بلندآہنگ ترجمان رہے ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ ایسے وفادار اور ذہین وفطین شخص کو عمران خان صاحب Whatsappکے ذریعے یہ اطلاع دینے کو کیوں مجبور ہوئے کہ انہیں وزارت خزانہ کے منصب سے ہٹایا جارہا ہے۔ ان کی جگہ وہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو کیوں لائے۔ وہ کونسی مجبوری تھی جو شیخ صاحب کے علاوہ ڈاکٹر رضاباقر کو بھی سٹیٹ بینک آف پاکستان کا طاقتورترین گورنر تعینات کروانے کا باعث ہوئی۔
پیر کے روز خواجہ آصف صاحب کی "جوانی جوش پر آئی "ہوئی تھی۔ کاش وہ غضب کے اظہار تک ہی محدود نہ رہتے۔ مجھ جیسے کم عقلوں کو یہ بات بھی سمجھادیتے کہ پرجوش کارکنوں کی محبت سے مالامال پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف جیسی جماعتیں اپنے ہی ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکین کو نظرانداز کرتے ہوئے پارلیمان کے باہر سے "ٹیکنوکریٹس" لانے کو کیوں مجبور ہوجاتی ہیں۔
ٹیکنوکریٹس والی مجبوری مگر پا کستان جیسے ممالک کو ہی لاحق نہیں ہوتی۔ بھارت بہت عرصہ تک "دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت" ہونے کا دعوے دار رہا ہے۔ وہاں بھی لیکن 1990کے آغاز میں معاشی معاملات اتنے دُگرگوں ہوگئے کہ من موہن سنگھ کو وزارتِ خزانہ دینا پڑی۔ بعدازاں سونیا گاندھی نے اسے وزیر اعظم کے منصب پر بھی بٹھادیا۔
میں یہ دعویٰ تسلیم کرنے سے انکاری ہوں کہ سیاست دان وزارتِ خزانہ سنبھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ قیامِ پاکستان سے قبل برطانوی ہند میں جو "منتخب بندوبست" ہوا تھا اس میں وزارتِ خزانہ کے لئے قائداعظم نے لیاقت علی خان کو نامزد کیا تھا۔ اس حیثیت میں انہوں نے 1946میں جو بجٹ تیار کیا تھا وہ ہر حوالے سے "عوام دوست" تھا۔ کئی محقق بضد ہیں کہ مذکورہ بجٹ نے ساہوکاروں کی چیخیں نکلوادی تھیں۔ ٹاٹا اور برلا جیسے اجارہ دار اس بجٹ سے بہت نالاں ہوئے تھے۔ ان دو طبقات کے غصے نے بلکہ پاکستان کے قیام کو یقینی بنادیا۔
ٹیکنوکریٹس کو وزارتِ خزانہ دینے کا عمل قیامِ پاکستان کے بعد لیاقت علی خان کی شہادت سے شروع ہوا۔ 1951-52کے مالیاتی سال کے اختتام پر ہماری شرح نمو آج کی طرح منفی کی سطح سے نیچے گرنا شروع ہوگئی تھی۔ اس سے نبردآزما ہونے کے لئے IMFسے پہلی بار رجوع کرنا پڑا تھا۔ 2020میں ہم معاشی اعتبار سے دوبارہ اسی مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں آج سے 68سال قبل کھڑے نظر آئے تھے۔ یہاں سے کس طرح آگے بڑھنا ہے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کو کوئی شخص تیار نظر نہیں آرہا۔