عرصہ ہوابے تحاشا ذاتی مشاہدات کی بدولت یہ حقیقت دریافت کرچکا ہوں کہ سیاست فقط اقتدار کے حصول کے لیے ہر نوع کا حربہ استعمال کرنے کا نام ہے۔ اصول، اس کھیل میں کوئی وقعت نہیں رکھتے۔ اندھی نفرت ومحبت میں تقسیم ہوئے عقیدت مند مگر اپنی پسند کے سیاستدانوں ہی کو بااصول، ٹھہرانے کو مصر رہتے ہیں۔ آئین کا تحفظ، اور اس کی حرمت، کے تصورات بھی ایسے اصولوں، میں شامل ہیں جن کافروعی بحثوں میں مسلسل ڈھنڈوراپیٹا جاتا ہے۔
پاکستان کے تحریری آئین، پر تکیہ کروں تو ذاتی طورپر مصر رہوں گا کہ پنجاب اسمبلی تحلیل ہوجانے کے 90روز بعد نئی اسمبلی کی تشکیل کے لیے انتخابات بروقت ہونے چاہئیں۔ انھیں ٹالنے کی کوششیں آئین سے انحراف، ہیں۔ مذکورہ اعتراف کے باوجود مگر بھلانہیں سکتا کہ ہمارے تحریری آئین، میں کسی وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اس کے منصب سے ہٹانے کا طریقہ کار بھی واضح انداز میں بیان کردیا گیا ہے۔ گزشتہ برس کے مارچ-اپریل میں عمران حکومت مذکورہ طریقہ کار کو غچا دینے کو بضد رہی۔ قومی اسمبلی کے دفتر میں تحریک عدم اعتماد باقاعدہ انداز میں جمع کروادی گئی تو اس پر گنتی سے گریز کے جواز ڈھونڈنا شروع ہوگئی۔
اس ضمن میں بند لفافے کو ہوا میں لہراتے ہوئے قومی حمیت، کو یہ دعویٰ کرتے ہوئے بھڑکایا گیا کہ واشنگٹن عمران حکومت کی خودمختار، پالیسیوں سے اکتا چکا ہے۔ روس کے یوکرین پر حملہ آور ہونے کے عین ایک دن قبل عمران خان نے ماسکو پہنچ کر روسی صدر پوٹن سے ملاقات کی۔ اس ملاقات نے مبینہ طورپر واشنگٹن کو مزید غضب ناک بنادیا۔ غضب سے مغلوب ہوکر عمران مخالف سیاستدانوں کو ان سے نجات کے لیے تحریک عدم اعتماد کا راستہ دکھایا۔ تحریک تیار ہوگئی تو ہمارے طاقت ور ترین ریاستی اداروں میں موجود میر جعفروں، کو اسے کامیاب کروانے کا ٹاسک بھی سونپ، دیا گیا۔
عمران حکومت اپنے خلاف لگائی بیرونی سازش، کے بارے میں لاعلم نہیں تھی۔ اسے بنیاد بناتے ہوئے ان دنوں قومی اسمبلی کے تحریک انصاف کے نامزد کردہ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے تحریک عدم اعتماد کو قومی سلامتی کا جواز گھڑتے ہوئے، رد کردیا۔ یوں آئین کا یقینی انحراف، ہوا۔ ہماری اعلیٰ ترین عدالت مگر اس کی مزاحمت کو ڈٹ گئی۔ ازخود نوٹس لیا اور با لآخر عمران حکومت کو تحریک عدم اعتماد پر گنتی پر مجبور کیا۔ ان دنوں لیا گیا از خود نوٹس عاشقان عمران خان کو غداری، محسوس ہوا۔ اس کی مذمت، کے لیے برطانیہ وغیرہ میں جلوس نکالے گئے۔ میر جعفر، اور غداروں، کی تصاویر پر وہاں جوتے برسائے گئے۔
وقت اب بدل گیا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے نئے انتخابات کی تاریخ موخر ہوئی تو اعلیٰ ترین عدالت نے ایک اور ازخود نوٹس لے لیا۔ اب کی بار عاشقان عمران خان کو یہ ازخود نوٹس اصولی، جی داری محسوس ہورہا ہے۔ آئین کے تحفظ کو اپنے تئیں مامور دیگر جماعتیں مگر اسے سازش، قرار دے رہی ہیں۔ مجھ ایسے قلم گھسیٹوں سے تقاضا ہورہا ہے کہ ہمت دکھائیں اور آئین سے انحراف کی راہ میں ڈ ٹ جائیں۔ جو قضیہ کھڑا ہوا ہے اس کی بنیاد کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کالم کے ابتدائیہ ہی میں کرچکا ہوں۔ ساتھ ہی مگر اصرار یہ بھی کروں گا کہ مجھ بے اثر کا لکھا کالم تخت یا تختہ والی جنگ میں مصروف فریقین کے لیے کوئی وقعت نہیں رکھتا۔
سیاسی عمل کا تجزیہ کرتے ہوئے اصول، نہیں اہداف، پر توجہ مرکوز رکھنا ہوتی ہے۔ اقتدار سے محروم ہوجانے کے بعد عمران خان صاحب کا حتمی ہدف وزارت عظمیٰ کے منصب پر واپس لوٹنا ہے۔ مذکورہ ہدف کے حصول کے لیے انھیں فوری انتخاب درکار ہیں۔ گزشتہ برس کے مسلسل اور پرجوش جلسے 25مئی 2022ءکے دن اسلام آباد پر ہوا دھاوا اور اس برس کے اختتامی ایام میں برپا کیا لانگ مارچ مطلوبہ ہدف کے حصول میں ناکام رہا۔ عمران خان اس کا حصول یقینی بنانے کے لیے نئی حکمت عملی اختیار کرنے کو مجبور ہوئے۔ پنجاب اسمبلی کی تحلیل اس کا پہلا مرحلہ تھا۔ اس کے نتیجے میں انھیں آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے میں اپنی مقبولیت بھرپور انداز میں اجاگر کرنے کا موقع میسر ہوسکتا ہے۔
ان کا مخالف فریق پنجاب اسمبلی کے نئے انتخابات سے یقینا گھبرارہا ہے۔ بنیادی وجہ اس گھبراہٹ کی مہنگائی کا وہ طوفان ہے جو عمران حکومت کے خاتمے کے بعد عذاب کی صورت نازل ہوا ہے۔ روایتی اور سوشل میڈیا پر ایسے سرویز کی بھرمار ہے جو دعویٰ کررہے ہیں کہ بروقت انتخاب ہوجائیں تو تحریک انصاف 210سے 220افراد کو پنجاب اسمبلی کے لیے بآسانی منتخب کروالے گی۔ 1985ءسے پنجاب مسلم لیگ (ن) کا اکثر ناقابل تسخیر قلعہ نظر آیا۔ سروے مگر دعویٰ کررہے ہیں کہ اب کی بار یہ جماعت 50سے زیادہ افراد کو پنجاب اسمبلی کے لیے منتخب نہیں کرواپائے گی۔
بات اگر پنجاب اسمبلی کے انتخابات تک ہی محدود رہتی تو شاید مسلم لیگ (ن) اپنی ممکنہ شکست کے لیے تیار ہوتی۔ اگست کے تین مہینے بعد مگر نئی قومی اسمبلی کی تشکیل کے لیے بھی انتخاب لازمی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) درحقیقت ان کے نتائج سے مزید گھبرائے ہوئے ہے۔ یاد رہے کہ یہ انتخاب وفاق میں موجود عبوری حکومت، کی نگرانی، میں ہوں گے۔ اس کی نگرانی، مگر پنجاب میں تازہ مینڈیٹ، کے ساتھ منتخب حکومت کے روبرو قطعاً بے بس ہوگی۔ پولیس اور انتظامیہ کو مہارت سے استعمال کرتے ہوئے صوبائی حکومت ایسی فضا بھی تیار کرسکتی ہے جس سے خوفزدہ ہوکر بے تحاشا روایتی سیاستدان قومی اسمبلی تک پہنچنے کے لیے مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ حاصل کرنے سے بھی گھبرائیں گے۔ مقابلہ گویا یک طرفہ، ہوجائے گا۔
اصولوں، کو بھلاکر مسلم لیگ (ن) لہٰذا پنجاب اسمبلی کے انتخابات موخر کروانے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کررہی ہے۔ قضیہ اگر مسلم لیگ (ن) اور عمران خان کے مابین ہی محدود رہتا تو اصولوں، کی بنیاد پرتحریک انصاف کا پلڑا خلقت معصوم کو بھاری نظر آتا۔ ان دونوں کے مابین سیاسی جھگڑا مگر بالآخر سپریم کورٹ تک پہنچ گیا۔ قضیہ وہاں پہنچا تو بتدریج تاثر یہ پھیلنا شروع ہوگیا کہ ہماری اعلیٰ ترین عدالت کے فقط تین عزب مآب جج ہی آئین کے تحفظ کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں۔ جو تاثر پھیلا ہے عام پاکستانی ہوتے ہوئے میں درحقیقت اس سے گھبرا گیا ہوں۔
سپریم کورٹ کی ساکھ اور توقیر مذکورہ تاثر سے بری طرح مجروح ہورہی ہے۔ یہ تاثر اگر برقرار رہا تو ہمارے ہاں گزشتہ کئی مہینوں سے پھیلا خلفشار سنگین اور گھمبیر تر ہوجائے گا۔ ہمیں اس سے گریز ہر صورت درکار ہے۔ اس ضمن میں عزت مآب چیف جسٹس صاحب ہی کو تاریخی پیش قدمی اختیار کرنا ہوگی۔