عید کی صبح اٹھتے ہی اگر اپنے مشفق ومہربان انور بیگ کے انتقال کی خبر نہ ملی ہوتی تب بھی میں اس آڈیولیکس سے ہرگز لطف اندوز نہ ہوپاتا جس کا عید کی تعطیلات کے دوران سوشل میڈیا پر بہت چرچا رہا ہے۔ لوگوں کی نجی گفتگو ریکارڈ کرنا ہر صورت ایک قابل نفرت فعل ہے۔ صدیوں سے مگر "سلطان" ہمیشہ یہ جاننے کو بے چین رہے ہیں کہ ان کے ممکنہ حریف خفیہ ملاقاتوں کے ذریعے کیا منصوبے بنارہے ہیں۔ اسی باعث سرکاری سرپرستی میں ماضی کے "اخبار نویس" متعارف ہوئے جو لوگوں میں گھل مل کر ان کے دلوں میں ابلتے جذبات جاننے کی کوشش کرتے۔ ان کے لکھے "پرچوں" کو دربار تک پہنچانے کے لئے "ڈاک" کے نظام کو تیز تر بنانے کی کاوشیں بھی جاری رہیں۔
نظر بظاہر "دور سلطانی" اب ختم ہوچکا ہے۔ اشرافیہ مگر اب بھی اپنی جگہ موجودہے۔ اس کے مختلف گروہوں کے مابین اقتدار واختیار پر کامل کنٹرول کی چپقلش بھی جاری ہے۔ ہماری نظر سے اوجھل "ڈیپ اسٹیٹ" یا "دریں دولت" کا نظام چلانے والے متحارب دھڑوں پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں۔ موبائل فون کی ایجاد سے قبل سیاستدانوں کے گھروں اور دفتروں میں نصب ہوئے ٹیلی فون بھی ٹیپ ہوا کرتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو ہمارے طاقت ور ترین وزیر اعظم رہے ہیں۔ ان کے دفتر میں نصب ٹیلی فونوں سے بھی ان کے بااعتماد معتمد ڈاکٹر مبشر حسن نے گفتگو ٹیپ کرنے والے آلات ڈھونڈلئے تھے۔ رواں صدی میں ایجاد ہوا موبائل فون تو اپنی سرشت میں ویسے ہی ایک طاقت ور ترین مخبر ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے "دریں دولت" کو "انسانی مخبروں" کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ کرونا کی وبا کے دوران ہمیں موبائل کے اس پہلو سے بخوبی آشنا ہوجانا چاہیے تھا۔
انٹرنیٹ اور موبائل فون نے ریاست کے جاسوسی نظام کو طاقت ور ترین بنادیا ہے۔ "رعایا" کو تاہم اس کی وجہ سے "سیف سٹی" بھی مل جاتے ہیں۔ ٹریفک کا نظام بھی بہتر انداز میں کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ ریاست اگرچہ ایسی سہولتوں کو مزید بہتر اور جامع بنانے پر توجہ نہیں دیتی۔ رعایا پر کامل کنٹرول اس کی اولیں ترجیح ہے۔ "نجی گفتگو" کی ریکارڈنگ اور اس کی بوقت ضرورت تشہیر کو "غیر اخلاقی" ٹھہراکر ہوئی سیاپا فروشی دورِ حاضر کے سلطانوں کو مگر اس فعل قبیح سے روک نہیں پائے گی۔ بہتر یہی ہے کہ غالب کی طرح اپنی "تقریر" یعنی گفتگو کو "مدعا" سے محروم رکھیں تاکہ دائمی ریاست کے "آلاتِ شنیدن" اسے سمجھ ہی نہ پائیں۔
یہ بات تسلیم کرنے کے بعد کہ دائمی ریاست خود کو آپ کی ذاتی زندگی میں درآنے کا صدیوں سے حقدار سمجھتی ہے۔ میں حیران فقط یہ سوچتے ہوئے ہوتا ہوں کہ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ریکارڈ ہوئی گفتگو کو منظر عام پر لانے سے دائمی ریاست چسکہ فروشی کے علاوہ کونسے ٹھوس فوائد حاصل کرتی ہے۔ اس کی بابت جب بھی بھرپور توجہ سے غور کیا تو نتیجہ یہ ہی اخذ کیا کہ بالآخر یہ کارزیاں ہی ثابت ہوتا ہے۔ بسااوقات بلکہ "الٹے کو پلٹے" والا معاملہ بھی ہوجاتا ہے۔
عمران خان اقتدار سے محروم ہوئے توآڈیو وڈیو لیکس کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ سوال اٹھتا ہے کہ اب تک جو لیکس ہوئی ہیں وہ عمران خان کے عقیدت مندوں کو ان سے برگشتہ کرپائی یا نہیں۔ میرا جواب ناں میں ہے۔ تازہ ترین آڈیو لیکس کا انجام بھی اس کے برعکس ہوتے نہیں دیکھ رہا۔ "نجی گفتگو" کو ریکارڈ کرکے منظر عام پر لانے کے عمل کے خلاف ان دنوں ماتم کنائی میں مبتلا افراد سے اگرچہ یہ سوال پوچھنا بھی لازم ہے کہ ریکارڈ ہوئی "نجی گفتگو" برسرعام پر لانے کا رواج کس حکومت کے دوران شروع ہوا تھا۔ آپ کو یاد نہیں آرہا تو بتادیتا ہوں کہ اس "مکروہ فعل" کا آغاز عمران حکومت کے دوران ہی شروع ہوا تھا۔ "سیم پیج" کی برکتوں والے موسم میں چند مخصو ص ٹی وی چینلوں کو عمران حکومت کے مخالفین اور ناقدین کی بھد اڑانے کی غرض سے چند ریکارڈنگز فراہم کی جاتیں۔ وہ بہت ناز سے اسے "بریکنگ نیوز" بناتے اور اس کے حوالے سے "خصوصی ٹرانسمیشن" کے لئے گھنٹوں وقف کردیتے۔ عملی صحافت سے کنارہ کش ہوا یہ بدنصیب بھی اس کی زد میں آیاتھا۔ محترمہ مریم نواز کی ریکارڈ ہوئی ایک گفتگو کو اہتمام سے نشر کرتے ہوئے مجھے عاشقان عمران کےلئے "ٹوکری والا بابا" بنادیا گیا۔ اب مکافات عمل کا سامنا کرنا پڑا ہے تو بلبلارہے ہیں۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی والی حقیقت فراموش کرچکے ہیں۔ اسی باعث شاعر یاد دلاتا ہے کہ "ہوا" کسی کی نہیں ہوتی۔ سب کے چراغ بجھاتی ہے۔
"چراغوں" کا آڈیو لیکس کے سبب بجھنا تاہم میرا درد سر نہیں۔ سیاسی عمل کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے دیانت دارانہ تجسس سے فقط یہ جاننے کو مصر ہوں کہ ہماری "دریں دولت" کے کرتا دھرتا ریکارڈ ہوئی گفتگو کوبرسرعام لانے کا فیصلہ کونسے Strategic(جسے اردو میں غالباََ تزویراتی کہا جاتا ہے) مقصد کے تحت کرتی ہے۔ بہت غور کے باوجود میرا کند ذہن اس سوال کا جواب ڈھونڈ نہیں پایا۔ جبلی طورپر اگرچہ یہ محسوس کررہا ہوں کہ جو تازہ ترین لیک ہوئی ہے وہ ریاست کے ایک اہم ترین ستون کے مدارالمہام کو مشتعل بناسکتی ہے۔ ان کے غضب کا شکار مگر گفتگو ریکارڈ کرنے اور اسے منظر عام پر لانے والے افراد نہیں ہوں گے۔ "توہین عدالت" کی ممکنہ بجلی ان سیاستدانوں کے نشیمن ہی جلائے گی جو ان دنوں عمران خان کی اقتدار میں واپسی کو جی ہلکان کرتے ہوئے روکنے کی کاوشوں میں مصروف ہیں۔ اشتعال کی آگ جس "گھر" میں ممکنہ طورپر بھڑک سکتی ہے شاید وہ خود بھی اس کی تپش سے محفوظ نہ رہ پائے۔ اس گھر کے "اندرونی اختلافات" اب ہم سے اوجھل نہیں رہے۔ برسرعام آچکے ہیں۔ ممکنہ اشتعال کی بدولت اس "گھر" کی اجتماعی توقیر بھی ناقابلِ تلافی نقصان کی زد میں آسکتی ہے۔
اندھی نفرت وعقیدت کی ہوا چلی تواس کے آغاز میں"صحافت" کو اجتماعی اعتبار سے بے توقیر بنانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ریاست کا "چوتھا ستون" کہلاتا یہ شعبہ اب "لفافوں" اور "ٹکرکے حق گو افراد" کے مابین بٹ کر اپنی وقعت کھوچکا ہے۔ "صحافی" اس کے باعث "خبر" ڈھونڈنا بھی چھوڑ چکے ہیں جواشرافیہ کی دانست میں ہمیشہ "بدخبری" ہوتی ہے۔ صحافیانہ تجسس کی تباہی نے ہماری دریں دولت کو مضبوط تر بنایا ہے۔ اب ا گر ایک اور "ستون" بھی چسکہ بھری کہانیوں کی لپیٹ میں آگیا تو وہ بھی اجتماعی توقیر کھو بیٹھے گا۔ سیاستدان تو ویسے ہی عرصہ ہوا "چور اور لیٹرے" قرار دئے جاچکے ہیں۔ ریاست کے "ستون" کھوکھلا ہونا شروع ہوجائیں تو انجام مگر کامل انتشار ہی ہوتا ہے۔
آج کا سوڈان ایسے انجام کی بھرپور علامت ہے۔ وہاں بھی کئی برسوں کے آمرانہ نظام کے خلاف "جمہوری تحریک" ابھری تھی۔ ریاست کے ایک "ستون" نے اسے بہلاپھسلا کر ناتواں بنا دیا۔ بالآخر ایک ہی "ستون" باقی رہ گیا تو اس کے مابین بھی ملٹری اور "دہشت گردی پر کنٹرول" کے نام پر بنائی "پیرا ملٹری" کے مابین جھگڑا شروع ہوگیا۔ سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے عین قلب میں"حفاظتی دیوار" کھڑی ہوچکی ہے جس کے دونوں جانب قابض ہوئے فریقین ایک دوسرے کو جدیدترین ہتھیاروں سے نیچا دکھانے کی جنگ میں مصروف ہیں۔ وہاں موجود تمام غیر ملکی سفارت کاروں سمیت عافیت کی تلاش میں جان بچاکر نکلنے کی تگ ودو میں مصروف ہیں۔ سوڈان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ نام نہاد "عالمی ادارے"وہاں محصور ہوئی رعایا کے بارے میں ہرگز فکر مند نہیں ہیں۔ بالآخر جوفریق بھی جیتا اسے "حکومت" تسلیم کرلیا جائے گا۔
چسکے کی ہوس میں مبتلا ہوئے پاکستانیوں سے محض یہ فریاد ہی کرسکتا ہوں کہ ریاست کے "ستونوں" کے کھوکھلا ہوجانے سے خوف کھائیں۔ "ہوا" سب کے چراغ بجھاتی ہے۔ اس سے محفوظ رہنے کی ترکیب ذہن میں نہیں آرہی تو کم از کم دعا کے لئے ہاتھ تو اٹھائیں۔