گزشتہ ہفتے کے آخری کالم کے آغاز ہی میں حکومت کے اس تجزیے سے اتفاق کو مائل تھا کہ اسلام آباد پہنچنے کے بعد مولانا فضل الرحمن اپنے مارچ سے ایک دھواں دھار خطاب فرمائیں گے۔ اس خطاب میں عمران حکومت کی مخالف جماعتوں کی مشاورت سے ایک "چارٹر آف ڈیمانڈز" کا اعلان ہوگا۔ اس چارٹر کو تسلیم کرنے کے لئے ایک "ڈیڈ لائن" دی جائے گی اور "ورنہ" کی دھمکی کے ساتھ مارچ کا اختتام ہوجائے گا۔ اس امکان کے اظہار کے بعد اگرچہ احتیاطاََ میں نے سیاست میں X-Factors کی اہمیت بھی یا ددلادی تھی۔ مولانا جمعرات کے بجائے جمعہ کی سہ پہر اسلام آباد پہنچے۔ شہباز شریف اوربلاول بھٹو زرداری کی تقاریر کے بعد ان کی رات کے آغاز میں باری آئی تو اپنے پُرجوش کارکنوں سے انہوں نے دو دن کی "مہلت" مانگی۔ میرا یہ کالم چھپنے تک وہ مہلت ختم ہوچکی ہوگی۔ نظر بظاہر اس کے اختتام کے بعد مولانا اسلام آباد کے ریڈ زون پہنچ کر اپنے مطالبات تسلیم ہونے تک وہاں دھرنا دینے کو تلے بیٹھے ہیں۔ ریڈ زون کی طرف بڑھنے سے قبل شاید وہ مزید ایک دو روز انتظار کو ترجیح دیں۔ وہاں پہنچے بغیر مگر اسلام آباد سے کسی صورت واپس نہیں جائیں گے۔ مولانا کی دھرنا والی پالیسی سے مجھے ہرگز اتفاق نہیں ہے۔ اس کے خلاف میرے دلائل وہی ہیں جو مجھ بدنصیب نے اگست 2014 میں دئیے دھرنے کے بارے میں مسلسل بیان کئے تھے۔ ان دلائل کو مگر Status-Quo (نظام کہنہ) کی غلامانہ حمایت ٹھہرایا گیا۔ مبینہ حمایت کی نواز حکومت سے "لفافوں " کی صورت اُجرت حاصل کرنے کے الزامات بھی لگے۔ حق وصداقت کی علمبردار تصور ہوتی اُن ٹی وی سکرینوں کے بارے میں لیکن کسی نے سوالات نہ اٹھائے جہاں کئی ماہ پہلے سے شیڈول ہوئے پروگرام روک کر عمران خان صاحب کے لائے کنٹینر پر براہِ راست Live Cut ہوتے تھے۔ "انقلاب" کی محبت میں ٹی وی نیٹ ورکس ان دنوں کئی گھنٹوں کے کمرشل اشتہار قربان کرتے نظر آئے۔ اشتہارات کی قربانی دینے والوں کو بارہا ذاتی ملاقاتوں میں سمجھاتا رہا کہ فروغ انقلاب کی خواہش میں براڈ کاسٹنگ کے بنیادی اصولوں کی نفی ہورہی ہے۔ ان اصولوں پر کاربند نہ رہا گیا تو بالآخر الیکٹرانک میڈیا کو کنٹرول کرنے کے تمام تر ذرائع دریافت ہوجائیں گے۔ صحافت کی اجتماعی ساکھ اس کے نتیجے میں تباہ وبرباد ہوجائے گی۔ یہ ساکھ بالآخرقصہ پارینہ ہوئی۔ اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے معاشرے میں غیرجانبدارانہ تجزیے کی اب گنجائش موجود نہیں۔ صحافی کے لئے کسی ایک فریق کے تعصبات، خواہشات اور ترجیحات کا اثبات یا انکار لازمی ہوچکا ہے۔ مطلوبہ اثبات یا انکار سے اجتناب کی خاطر ہی مولانا فضل الرحمن کے مارچ کے دوران اس پر تبصرہ آرائی سے گریز کرتا رہا۔ یہ گریز برقرار رکھنے کی گنجائش بھی اب ختم ہورہی ہے۔ مولانا اسلام آباد کے "ریڈزون" کی جانب روانہ ہوگئے تو حکومت فی الوقت ریاستی قوت کے بھرپور استعمال سے اسے روکنے کا ارادہ باندھے ہوئے ہے۔ ممکنہ تصادم کے نتائج کو ہم کئی ہفتوں تک بھگتتے رہیں گے۔ عمران حکومت پہلا رائونڈ جیتنے کے بعد "استحکام" کی صورت دکھانہیں پائے گی۔ قوی امکان ہے کہ ریاستی قوت کا بھرپور استعمال بلکہ چند مہینوں بعد وہی ابتری وانتشار پیدا کرنے کا باعث ہوگا جو اسلام آباد کی لال مسجد والوں کے خلاف آپریشن کے بعد ہمارا مقدر ہوئے تھے۔ ربّ کریم سے دردمندانہ فریاد ہے کہ میرے خدشات غلط ثابت ہوں۔ انتہائی دیانت داری سے اصرارکرنے کو مجبور ہوں کہ FATF کی زد میں آیا پاکستان جس کی معیشت آئندہ تین برس کے لئے IMF کے تیار کردہ نسخے کی Hostage ہوچکی ہے، ممکنہ ابتری وانتشار برداشت نہیں کرسکتا۔
یاد ہمیں یہ بھی رکھنا ہوگا کہ مودی سرکار نے اس ماہ کے آغاز میں ہماری شہ رگ کو باقاعدہ دو حصوں میں بانٹ کر وہاں کے گورنر بھی تعینات کردئیے ہیں۔ 80 لاکھ کشمیریوں کو ابھی تک پری پیڈ موبائل فونز اور انٹرنیٹ تک رسائی نصیب نہیں ہوئی ہے۔ تین مہینے گزر جانے کے باوجود ہم ان کی مشکلات کا ازالہ کرنے کی کوئی راہ نکال نہیں پائے ہیں۔ صورت حال اس قدر سنگین ہے کہ جرمنی کی چانسلر انجیلا مارکل نے گزشتہ ہفتے دہلی پہنچتے ہی ا علان کیا کہ کشمیر کے حوالے سے مودی سرکار نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے اسے برقرار رکھنا ناممکن ہے۔ نریندر مودی مگر سعودی عرب کو Strategic Partner بناکر اپنے وطن لوٹا تھا۔ ان دنوں بنکاک کی سیر سے لطف اندوز ہورہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر نازل ہوئی قیامت کے متوازی افغانستان بھی ہے۔ زلمے خلیل زاد ایک بار پھر متحرک ہوچکا ہے۔ روس اور چین کی معاونت سے ٹرمپ انتظامیہ طالبان پر دبائو بڑھارہی ہے کہ وہ سیز فائر کا اعلان کرنے کے بعد افغانستان سیاست کے تمام فریقین سے سنجیدہ مذاکرات کے ذریعے پائیدارامن کی کوئی راہ نکالیں۔ پاکستان سے بھی اس ضمن میں شدید تقاضے ہوں گے۔ ہماری ریاست اور حکومت کو مقامی اور بین الاقوامی صورت حال سے نبردآزما ہونے کے لئے کامل یکسوئی درکار ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو "حلوہ" کے طعنے دیتے ہوئے محترم فواد چودھری اور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ مطلوبہ یکسوئی کو یقینی نہیں بناسکتے۔ پرویزخٹک کی جانب سے غداری کے مقدمات کی دھمکیاں بھی اس ضمن میں کا م نہیں آئیں گے۔ تھوڑی لچک اور کافی فراخ دلی دکھانا ہوگی۔ عمران حکومت فی الوقت اس پر لیکن آمادہ نظر نہیں آرہی۔ عمران حکومت کے علاوہ مولانا فضل الرحمن کو انگریزی زبان والا Face Saver پاکستان پیپلز پارٹی سے کہیں زیادہ نواز شریف کے نام سے منسوب پاکستان مسلم لیگ فراہم کرسکتی تھی۔ اس جماعت کی قیادت ان دنوں شہباز شریف جیسے "سنجیدہ اور تجربہ کار" لوگوں کے پاس ہے۔ اس قیادت نے مولانا کے مارچ کو رونق بخشنے کے لئے پنجاب کے جی ٹی روڈ پر کماحقہ "کمک" فراہم نہیں کی۔ پنجاب کے شہروں میں رونق لگ جاتی تو شاید مولانا کے لئے اسلام آباد پہنچنے کے بعد "ورنہ" والی تقریر کرتے ہوئے اپنے مارچ کے اختتام کا اعلان کرنا آسان ہوجاتا۔ مولانا اب انتہائی سنجیدگی سے یہ محسوس کررہے ہیں کہ شہباز شریف اور ان کے "سنجیدہ اور تجربہ کار" معاونین نے انہیں Abandon کردیا۔ بلاول بھٹو زرداری سے انہیں شکوہ نہیں۔ وہ پیپلز پارٹی کی "لبرل" محدودات کا نجی محفلوں میں کھلے دل سے اعتراف کررہے ہیں۔ ریگولر اور سوشل میڈیا پر چھائے "لبرل" خواتین وحضرات کو مگر اس کا ادراک نہیں ہے۔ شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی معاونت سے محروم ہوئے مولانا فضل الرحمن اب "تخت یا تختہ" والا ماحول بنانے کے لئے اپنی Base یا Core Constituency پر کامل انحصار کو مجبور ہوگئے ہیں۔ اس Constituency کی مبینہ "انتہا پسندی" کے بارے میں میرے بھی ہزاروں تحفظات ہیں۔ ٹویٹر پر طنزیہ یا تندوتیز الفاظ کے استعمال سے مذکورہ Constituency کو مگر کمزور نہیں کیا جاسکتا۔ مولانا کی جماعت ٹھوس تاریخی وجوہات کی بناء پر کینیڈا میں پناہ گزین طاہر القادری کی جماعت سے قطعاََ مختلف ہے۔ اس کا تقابل فیض آباد میں دھرنا دینے والی جماعت سے کرنا بھی بچگانہ پن ہوگا۔ "بیانیہ" کسی بھی جماعت کی بنیادی پہچان ہوا کرتا ہے۔ بیانیے سے کہیں زیادہ اہم مگر ایک شے ہوتی ہے ابلاغ یا Communication۔ مولانا کی جماعت کو ابلاغ کے ذریعے اپنا پیغام پھیلانے کا طویل تجربہ ہے۔ 1857کے غدر سے قبل پیغام رسانی کے لئے اس جماعت کے اکابرین خاص ساخت کی روٹیوں کا استعمال کرتے تھے۔ برطانوی استعمار کے استحکام کے بعد ریشمی رومال والی تحریک بھی چلی تھی۔
ہماری آزاد و بے باک سکرینوں نے مولانا کے مارچ کو نظرانداز کیا۔ ان کے کارکنوں نے مگر سوشل میڈیا کے بھرپور استعمال کے ذریعے گھر بیٹھے لوگوں کو بھی اپنے مارچ کے بارے میں لمحہ بہ لمحہ باخبر رکھا۔ اس جماعت کے حافظ حمد اللہ اور مفتی کفایت جیسے نمائندوں نے ٹی وی سکرینوں پر رونما ہوکر Rating کے کئی شیروں کو پچھاڑدیا۔ "ون آن ون" انٹرویو کے ذریعے کئی اینکروں کی Ratings کو شرطیہ نمبرون بنانے والے راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر بھی ان حضرات سے مناظرے کو میسر نہیں تھے۔ مولانا کی جماعت سے متعلق افراد کو اپنا پیغام پہنچانے کے لئے ویسے بھی ٹی وی سکرینوں کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے پاس مساجد کے منبر ہیں۔ مدارس ہیں۔ ""حلوے" کے طعنے ان کے بیانیے کو Counter نہیں کرسکتے۔ بہتر یہی ہے کہ تھوڑی لچک اور کافی فراخ دلی سے کام لیتے ہوئے ممکنہ تصادم کو ٹالنے کی راہ نکالی جائے۔