ہمارے ہاں یو ٹیوب کے ذ ریعے ان دنوں سینئر صحافیوں کا ایک بہت بڑا گروہ "اندر کی خبریں " دیتے ہوئے سیاسی معاملات پر ہماری رہ نمائی فرمارہا ہے۔ عملی رپورٹنگ سے ریٹائر ہونے کی وجہ سے میں بھی اکثر ان سے رجوع کرنے کو مجبور ہوجاتا ہوں۔ پرانے تعلقات کی وجہ سے تاہم کبھی کبھارصحافیوں اور سیاست دانوں کی محفلوں میں شریک ہونا پڑتا ہے۔ اپنی صحافت کے ابتدائی ایام سے واقعات کو "برسرزمین" دیکھنے کی بیماری لاحق ہوگئی تھی۔ اس کی وجہ سے کرونا کے خوف کو بھلاتے ہوئے قومی اسمبلی اورسینٹ کے اجلاسوں کو پارلیمان میں جاکر دیکھنا بھی لازمی شمار کرتا ہوں۔ یوٹیوب کے ذریعے میسر ہوئی Live Streaming اگرچہ پارلیمانی کارروائی کو غور سے دیکھنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ قومی اسمبلی یا سینٹ میں ہوئی تقاریر مگر اپنے تئیں اہم نہیں ہوتیں۔ پریس گیلری میں بیٹھو تو بنچوں پر خاموشی سے بیٹھے اراکین کی بدن بولی (Body Language)کا مشاہدہ بہت کچھ بتادیتا ہے۔ اضافی فائدہ یہ ہوتا ہے کہ پالیمان میں داخل ہوتے یا وہاں سے باہر نکلتے ہوئے چند اہم لوگوں سے سرسری ملاقات بھی ہوجاتی ہے۔ ان لوگوں سے ہوئی اتفاقی گپ شپ اقتدار کے کھیل سے جڑی کئی کہانیوں کا پتہ دیتی ہے۔ مذکورہ بالا وجوہات کے تناظر میں یوٹیو ب کے ذریعے سمجھائی "سیاست" کا جائزہ لوں تو اکثر یہ سوال اٹھانے کو مجبور ہوجاتا ہوں کہ جانے کس دُنیا کا ذکر ہورہا ہے۔
گزشتہ چند دنوں سے مثال کے طورپر یہ کہانی چل رہی ہے کہ "سب پہ بھاری" تصور ہوئے آصف علی زرداری نے یوسف رضا گیلانی کو سینٹ کی اسلا م آباد سے خالی ہوئی سیٹ کا امیدوار نامزد کرنے کے بعد ایک سنسنی خیز گیم لگادی ہے۔ ٹھوس ذاتی علم کی بنیاد پر اگرچہ اسی کالم میں دو سے زیادہ بار تفصیلات سمیت بیان کرنے کی کوشش کرچکا ہوں کہ گیلانی صاحب کو اکھاڑے میں اُتارنے کا سلسلہ کہاں سے شروع ہوا تھا۔
اپنے "ذرخیز" ذہن میں آئے مفروضوں کو "خبر" بنانے کی میرے کئی ساتھیوں کو تاہم علت لاحق ہوچکی ہے۔ اس ضمن میں دُکھ مجھے اپنے نوجوان ساتھیوں سے گفتگو کے بعد شدید تر ہوجاتا ہے۔ ان کی مہربانی میری ڈانٹ ڈپٹ اور جھکی پن کو پرخلوص احترام سے برداشت کرلیتے ہیں۔ تلخ حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ سیاست دانوں نے صحافیوں کو سنجیدگی سے لینا چھوڑ دیا ہے۔ تحریک ا نصاف نے 2014سے صحافیوں کی اکثریت کو "لفافہ" پکارنا شروع کردیا تھا۔ صحافت اس کی وجہ سے بدنام ہوجانے کے بعد معاشی بحران کے علاوہ وطن عزیز پر مسلط 5th Generation War کی وجہ سے بھی "ذمہ دار" ہونے کو مجبور ہوئی۔ اخبارات کے صفحات اب "بیانیے" کی جنگ لڑنے والے مفکر وں کے بیانات سے بھرے ہوتے ہیں۔ ٹی وی سکرینوں پر فردوس عاشق اعوان اور شہباز گل جیسے بلند آہنگ ترجمان اپنے مخالفین کو جارحانہ زبان کے استعمال سے تھلے لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سکرینوں پر رونق لگ جاتی ہے۔ طے مگر کچھ بھی نہیں ہوتا۔
صحافت کی اصل بنیاد Long Formکے ذریعے بیان ہوئے واقعات ہیں۔ سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ Likesاور Sharesحاصل کرنے کے لئے مگر ہم نے اسے بھلادیا۔ دُنیا کے کئی جید دانشور گہری تحقیق کے بعد اسی باعث دور حاضر کو "مابعدصحافت" زمانہ ٹھہرا رہے ہیں۔ اس دور میں "حقائق" نہیں "متبادل حقائق" بیان ہوتے ہیں۔ سادہ زبان میں صحافی کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے معاشرے کے کس فریق کے دلوں میں موجودخواہشات اور تعصبات کو شدت سے اجاگر کرتے ہوئے دادسمیٹے۔ کسی ایک فریق کا جی دار ترجمان بن کر واہ واہ کروائے۔ بذاتِ خود اگرچہ وہ اس گماں کاشکار رہتا ہے کہ لوگوں کی "ذہن سازی" کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔
ہمارے لوگوں کی اکثریت کے دلوں میں موجود تعصبات اور خواہشات کو فروغ دینے کے لئے ان دنوں روایتی اور سوشل میڈیا پر چھائے "ذہن ساز" کہانی یہ پھیلارہے ہیں کہ عمران خان صاحب کو "ان" کی بیساکھیاں میسر نہیں رہیں جو وطنِ عزیز میں 1950سے سیاسی بساط بچھانے اور اس پر مہرے آگے بڑھانے یا انہیں پٹوانے میں حتمی کردار ادا کیا کرتے ہیں۔ سینٹ کی مارچ 2021میں خالی ہونے والی 48نشستوں میں سے زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے لئے عمران خان صاحب کو اب "ازخود" بھاگ دوڑ کرنا پڑرہی ہے۔ ان کی کاوش مگر مینڈکوں کو ترازومیں تولنے والی مشق نظر آنا شروع ہوگئی ہے۔ عمران خان صاحب پر نظر بظاہر نازل ہوئی "مشکل" کی تصدیق کے لئے بے پناہ کہانیاں ہیں۔ وہ خیبرپختونخواہ تشریف لے گئے تو کہانی یہ چلی کہ ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے 20کے قریب اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی نے ان سے ملاقات کرنے سے معذرت کرلی۔ بلوچستان سے سردار رند اور سندھ کے لیاقت جتوئی بھی اپنی قیادت کے خلاف طویل عرصہ خاموش رہنے کے بعد پھٹ پڑے۔ پس ثابت ہوا کہ عمران حکومت کیخلاف "گیم" لگ گئی ہے۔
تحریک انصاف میں نمودار ہوئی "بغاوت" اپنے تئیں شاید کوئی اہمیت کی حامل نہ ہوتی۔ اقتدار کے کھیل کو "اصل تناظر" میں دیکھنے والے زیادہ Excitedیہ سوال اٹھاتے ہوئے بھی محسوس کررہے ہیں کہ الیکشن کمیشن"اچانک" اتنا "خودمختار" کیوں ہوگیا ہے۔ اس نے سینٹ کے انتخاب کے لئے کھلی (Open)ووٹنگ کی مخالفت کیوں کی۔ ڈسکہ میں ہوئے ضمنی انتخابات کی بابت باقاعدہ لکھی تحریر کے ذریعے حکومت کو شرمندہ کرنے والے سوالات کیوں اٹھائے۔"کچھ تو ہے جس کی پرداہ داری ہے"۔
اس کالم کے باقاعدہ قاری بخوبی آگاہ ہیں کہ میں عمران حکومت کا گرویدہ نہیں ہوں۔ اس کے جنونی حامیوں کی نگاہ میں "لفافہ" ہوں۔ میری "صحافت" نے ایک ٹی وی چینل کو "معاشی بحران" سے دو چار کیا۔ اس بے چارے نے مجھے نوکری سے نکال کر اپنی بقاء کا بندوبست کیا۔ 1975سے محض عملی صحافت ہی میرے رزق کا واحد ذریعہ رہی۔ آج تک مگر کسی ادارے میں نوکری کی درخواست نہیں دی۔ نہ ہی کبھی فارغ ہوا۔ ہمیشہ استعفیٰ دے کر ہی رخصت لی۔ عمران حکومت کو اس تناظر میں اپنی ذلت ورسوائی سے Associateیا منسوب کرسکتا ہوں۔
تمام تر ذاتی شکایتوں کے باوجود ذات کا رپورٹر ہوتے ہوئے میں یہ دعویٰ کرنے کو مجبور ہوں کہ عمران حکومت کے لئے فی الوقت "ستے خیراں " ہیں۔ حالات اس کے لئے واقعتا دُگرگوں ہوتے تو پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت گزشتہ کئی دنوں سے اس سوال کا جواب نہ ڈھونڈ رہی ہوتی کہ سینٹ کی خالی ہونے والی نشست پر "کھلا" انتخاب ہوسکتا ہے یا نہیں۔ عمومی حالات میں آئین کے آرٹیکل 226 کے ہوتے ہوئے کسی بھی حکومت کو سپریم کورٹ کے روبرو کھلے انتخاب کے لئے صدارتی ریفرنس بھیجنے کی ہمت نہ ہوتی۔ فیصلہ بالآخر جو بھی آئے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران جو ماحول بنا اس نے سیاسی چالوں کے عادی روایتی سیاستدانوں کو خفیہ ووٹنگ کو Taken for Grantedلیتے ہوئے اپنا ووٹ بیچنے کو مبینہ طورپر "بے چین" اراکین سے مک مکا کرنے سے روک دیا۔ گومگو کے عالم میں جکڑکررہ گئے۔
عمران حکومت اگر پراعتماد نہ ہوتی تو فیصل واوڈا صاحب کو وفاقی وزیر ہوتے ہوئے بھی سینٹ کے لئے سندھ سے اپنا امیدوار نامزد نہ کرتی۔ قومی اسمبلی میں ان کی رکنیت کے خلاف گزشتہ کئی مہینوں سے شہریت کی بنیاد پر عذداری کی درخواست الیکشن کمیشن اور عدالت میں زیر غور ہے۔ حکومت کو بالآخر یہ خدشہ لاحق ہوگیا کہ غالباََ خیر کی خبر نہیں آئے گی۔ فیصل صاحب کو پارلیمان میں ہر صورت بٹھانے کے لئے لہٰذا سینٹ کی امید واری والی راہ نکالی گئی۔ اب ان کے کاغذاتِ نامزدگی بھی منظور کرلئے گئے ہیں۔ مسلم لیگ (نون) کی سعدیہ عباسی کو گزشتہ سینٹ انتخابات کے دوران ایسی سہولت میسر نہیں ہوئی تھی۔ حالانکہ وہ دفتری اوقات کے بعد امریکی سفارت خانے کے روبرو اپنی شہریت سے دست بردار ہوئی تھیں۔ عوامی نمائندوں کو صادق اور امین کے معیار پر ہر صورت پورا اُترنے کے خواہاں ثاقب نثار نے مگر اسے قواعد کے مطابق تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ پرویز رشید اپنے کاغذات نامزدگی داخل کروانے گئے تو انہیں بتایا گیا کہ انہوں نے پنجاب ہائوس کے بل ادا کرنے ہیں۔ واجب الادا رقم 96لاکھ بتائی گئی۔ پرویز رشید کے پاس یہ رقم موجود نہیں تھی۔ کئی دوستوں نے جن میں سے چند کے نام ذاتی طور جانتا ہوں باہم مل کر مطلوبہ رقم جمع کرلی۔ پنجاب ہائوس کا انچارج مگر یہ رقم وصول کرنے کے لئے دستیاب ہی نہیں تھا۔ غالباََ "دھند" میں غائب ہوگیا۔ دیگ کے ان دانوں کے علاوہ میرے پاس بتانے کو اور بھی بہت کچھ ہے۔ فی الحال مگر انہی پراُکتفا کیجئے۔