محض "صحافتی تجربے" کی بدولت مجھ جیسے رپورٹر سے "کالم نگار" ہوئے بے ہنر گزشتہ چند ہفتوں سے دیہاڑی لگانے کے لئے کسی آڈیو لیک کے منتظر رہتے ہیں۔ وہ برسرعام آجائے تو ماہرانہ منافقت سے لوگوں کی نجی زندگی میں ریاست کی جانب سے تانک جھانک کی مذمت سے کالم کا آغاز کرتے ہیں۔ "اصولی" بنیادوں پر تحفظات کے دونمبری اظہار کے باوجود آڈیو لیک کی بدولت منظر عام پر آئے مواد کو بعدازاں زیر بحث لانا شروع ہوجاتے ہیں۔ غیبت"مردہ بھائی کے گوشت" کو مزید چسکے دار بنادیتی ہے۔ آپ کے لکھے کالم کو اس کی بدولت سوشل میڈیا پر مناسب لائیکس اور شیئرز بھی مل جاتے ہیں۔
آڈیو لیکس کی عدم موجودگی میں گوشہ نشین ہوا صحافی حق گو ساتھیوں کے بنائے یوٹیوب چینلز سے "چوندے چوندے" موضوعات تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس ضمن میں بدقسمتی مگر یہ ہے کہ گزرے دور کا صحافی ہوتے ہوئے سنسنی خیز سازشی کہانیوں کو کئی چھلنیوں سے گزارنے کو مجبور ہوجاتا ہوں۔ اپریل کے آغاز سے مثال کے طورپر یوٹیوب کے بیشتر چینل وزیر اعظم شہباز شریف کو "توہین عدالت" کا مرتکب ہوتے نظر آرہے تھے۔ ان کی مچائی دہائی نے نام نہاد مین سٹریم میڈیا کے "سٹار" تصور ہوتے اینکر خوتین وحضرات کوبھی اس امر پر مجبور کیا کہ وہ مذکورہ سوال کا جواب ڈھونڈیں۔
لوگوں کی آسانی کے لئے سوال کو سادہ تر بنادیا گیا۔ غلط انداز میں ساخت ہوئی سادگی مگرقارئین وناظرین کی گمراہی کا سبب بن جاتی ہے۔ یہ بات برحق ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے 14مئی کے روز پنجاب اسمبلی کے انتخابات منعقد کروانے کا حکم دیا تھا۔ حکم کی تعمیل کو تاہم کئی مراحل سے گز رنا ہوتا ہے۔ ریاست یا حکومت کو کوئی حکم کڑوی گولی کی طرح قبول نہ ہو تو وہ "تعمیل" کی راہ میں منافقانہ عاجزی سے "تاویلات" کے انبارکھڑے کردیتی ہے۔ وفاقی حکومت نے 14مئی والے حکم کے ساتھ ویسا ہی رویہ اختیار کیا۔
حکم ہوا تھا کہ وفاقی حکومت مذکورہ انتخابات کے انعقاد کے لئے الیکشن کمیشن کو 21ارب روپے فراہم کرے۔ وزیر اعظم نے معاملہ کابینہ کے روبرو رکھ دیا۔ کابینہ نے زیرک چالاکی سے فیصلہ کیا کہ بجائے خود فیصلہ کرنے کے 21ارب روپے فراہم کرنے والا سوال اس مجاز اتھارٹی کے سامنے رکھ دیا جائے جس کی اجازت کے بغیر حکومت کسی بھی مد میں ایک دھیلہ بھی خرچ نہیں کرسکتی۔ اس مجازاتھارٹی کو ہمارے ہاں قومی اسمبلی کہا جاتا ہے۔ یہ عوام کے براہِ راست ووٹوں سے منتخب ہوتی ہے۔ اسی باعث سالانہ بجٹ کی منظوری اس کا صوابدیدی حق ہے۔
اس کالم میں بارہا عرض گزارتا رہا کہ 21ارب روپے کی فراہمی کے سوال کو "مجاز اتھارٹی"کے سپرد کردینے کے بعد وزیر اعظم نے خود کو "توہین عدالت" کے ا لزام سے محفوظ بنالیا ہے۔ الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود اگر 21ارب روپے میسر نہ ہوئے تو "حکم عدولی" کا مرتکب فقط شہباز شریف اور ان کی کابینہ کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ "مجاز اتھارٹی" یعنی قومی اسمبلی اس کی اجتماعی ذمہ دار ہوگی۔ 21ارب روپے کا "مطالبہ زر" رد کرنے والے تمام اراکین قومی اسمبلی کو "توہین عدالت" کا مرتکب ٹھہرانا آئین کی جانب سے اداروں کے مابین طے ہوئی اختیارات کی تقسیم کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں ہے۔
اپنی بات سمجھانے کو مجھے کئی دن لگے۔ شہباز شریف کا دفاع اگرچہ میرا درد سر نہیں تھا۔ ان کی جگہ فرض کیا عمران خان بھی وزیر اعظم ہوتے اور پنجاب اسمبلی کے انتخابات سے فرار کے لئے ویسی ہی حکمت عملی اختیار کرتے جو موجودہ حکومت نے برتی تو میں"مجاز اتھارٹی" پر توجہ مرکوز رکھتا۔ قواعد وضوابط پر غور کی لیکن ہمیں عادت نہیں۔ اس کے علاوہ منتخب پارلیمان ہمارے 1950کی دہائی سے سول اور فوجی افسر شاہی کی باندی رہی ہے۔
جنرل ضیا نے 1985کے انتخابات کے بعد بھی اس میں آٹھویں ترمیم مسلط کی تھی۔ اس کی بدولت صدرکو یہ اختیار میسر رہا کہ وہ جب چاہیے قومی اسمبلی کو کرپشن وغیرہ کے الزامات کے تحت گھر بھیج دے۔ نواز شریف کی پہلی حکومت کے علاوہ سپریم کورٹ نے بھی ہر قومی اسمبلی کی برطرفی کو "نظریہ ضرورت" کے تحت واجب ٹھہرایا۔
ریاست کے دائمی مالکوں کو جب احساس ہوا کہ مارشل لا یا بااختیار صدر دورِ حاضر میں قابل قبول نہیں ہوتے تو وزیر اعظم کو لگام ڈالنے کے لئے "آزاد عدلیہ" کی حوصلہ افزائی شروع ہوگئی۔ آغاز اس عمل کا افتخار چودھری سے ہوا۔ موصوف "مسیحا" کی صورت چیف جسٹس کے منصب پر "عوامی تحریک" کی بدولت لوٹے تو ازخود نوٹس کے ذریعے قوم کو سیدھی راہ پر رکھنے کے خبط میں مبتلا ہوگئے۔ ان کی "مسیحائی" ہم صحافیوں کی "اکثریت" کو بہت بھائی تھی۔
افتخار چودھری کے ریٹائر ہوجانے کے بعد کچھ وقفہ آیا۔ حالات"معمول" کی صورت نظر آنے لگے تو 2014میں"تبدیلی" کے متوالے میدان میں آگئے۔ دھرنا مگر "تبدیلی" نہ لاپایا۔ اپریل 2016میں لیکن پانامہ دستاویزات نے ایک نئی صورت حال کھڑی کردی۔ ازخود نوٹس ایک بار پھر قوم کو "چور اور لٹیروں" سے محفوظ رکھنے کے لئے لازمی تصور ہوا۔ قمر جاوید باجوہ اورثاقب نثار مذکورہ تناظر میں بھائی -بھائی ہوگئے۔
بالآخر 2018کے انتخاب نے نواز شریف کی تاحیات نااہلی کے بعد سپریم کورٹ کے سندیافتہ صادق وامین کو وزیر اعظم بنادیا۔ ریاست کے دائمی مالکوں کے ساتھ وہ کئی مہینوں تک "سیم پیچ" پر رہے۔ اکتوبر 2021میں لیکن ایک تعیناتی کے حوالے سے گڑبڑشروع ہوگئی۔ "سیم پیچ" والی برکت باقی نہ رہی تو عمران مخالفین نے تحریک عدم اعتماد کی گوٹ چلاکر وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا۔
عمران خان کی جگہ اقتدار میں آنے کو بے چین افراد سمجھ ہی نہ پائے کہ آئی ایم ایف گزشتہ حکومت سے اکتا چکا تھا۔ اس کی فیصلہ سازی امریکی اشاروں کی منتظر رہتی ہے۔ واشنگٹن میں ان دنوں بائیڈن برسراقتدار ہے۔ افغانستان پر وہ اوبامہ کے زمانے سے کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ اس کے وائٹ ہاؤس پہنچنے سے قبل صدر ٹرمپ پاکستان کی معاونت سے طالبان کے ساتھ ایک معاہدہ طے کرچکا تھا۔ اس معاہدے پر عملدرآمد نے بائیڈن کو اپنے ملک کے ٹیلی وژن پر قطعاََ بے دست وپا دکھایا۔ فوجی طیاروں کے پیٹ پر چپکے انسانوں کا فضا سے زمین پر گرنا انتہائی دردناک مناظر دکھانے کا باعث ہوا۔ ہمارے وزیر اعظم -عمران خان- مگر خوش تھے کہ افغانوں نے "غلامی کی زنجیریں" توڑ دی ہیں۔
جنگِ افغانستان کا 20سال بعد جو انجام ہوا ہے اس کی روشنی میں واشنگٹن پاکستان سے بددل چکا ہے۔ اسی باعث "امپورٹڈ حکومت" کو بھی آئی ایم ایف "امدادی قسط"فراہم کرنے میں لیت ولعل سے کام لے رہا ہے۔ فوری انتخاب کے بعد عمران دوتہائی اکثریت کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے منصب پر لوٹ بھی آئے تو کم از کم بائیڈن حکومت ویسی ہی لاتعلقی برقرار رکھے گی جو ان دنوں نمایاں ہے۔ آئی ایم ایف بھی یکدم "دوست" نہیں بن جائے گا۔
مذکورہ امور مگر روایتی اور سوشل میڈیا میں زیر بحث نہیں ہیں۔ آڈیو لیکس اور سازشی کہانیوں کا انتظار وانبار ہے۔ اجتماعی طورپر ہم کس جانب بڑھ رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب مجھ سمیت کوئی "صحافی" ڈھونڈنے میں قطعاََ کوئی دلچسپی نہیں دکھارہا۔