Monday, 25 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Imran Khan Ka Halchal Paida Karta Bayan

Imran Khan Ka Halchal Paida Karta Bayan

اخبارات، ٹی وی چینلز اور اب انٹرنیٹ کے بے شمار پلیٹ فارموں کی وجہ سے خبروں کا سیلاب برپا رہتا ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ کونسی خبر کو انبار سے جدا کرکے زیر بحث لایا جائے۔ بدھ کی صبح اٹھنے کے بعد میں اسی شش وپنج میں مبتلا ہوگیا۔ اخباروں کا پلندہ کھنگالتے ہوئے مگر ایک خبر پر نگاہ جم کے رہ گئی۔ بچپن میں سنی کہانیوں کی شاہزادیوں کی طرح اگرچہ طے نہ کرسکا کہ اسے دیکھنے کے بعد ہنسوں یا روئوں۔

خبر تھی کہ پنجاب فرانزک لیبارٹری کی ایک ٹیم لاہور پولیس کے ہمراہ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے پھیرے لگارہی ہے۔ تحریک انصاف کے قائد وہاں کئی مہینوں سے مختلف مقدمات کی وجہ سے مقید ہیں۔ ان کے خلاف بنائے کئی مقدمات عدالتوں سے کمزور بنیادوں کی وجہ سے خارج ہوتے رہے۔ حکومت مگر مزید مقدمات تیار کرتے ہوئے انہیں جیل میں رکھنے کو ڈٹی ہوئی ہے۔ تازہ ترین کاوش 9 مئی کے واقعات پر مرکوز ہے۔

پوری توجہ اس امر پر مبذول رکھی جارہی ہے کہ گزرے برس کے مئی میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں چند فوجی تنصیبات کو جس انداز میں جارحانہ ہنگامہ آرائی کا نشانہ بنایا گیا اس کا اصل ذمہ دار تحریک انصاف کے بانی کو ٹھہرا دیا جائے۔ ریاستی ادارے 9 مئی کے تناظر میں جو مقدمہ تیار کرنا چاہ رہے ہیں اسے مستحکم بنیادوں پر کھڑا کرنے کی ہر ممکن کوشش ہورہی ہے۔ عدالتوں میں وہ ٹھوس ثبوتوں کی بدولت درست ثابت ہوگیا تو تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا جواز بھی میسر ہوجائے گا۔

تحریک انصاف کے قائد تواتر سے اس موقف کو دہراتے رہے ہیں کہ ان کی گرفتاری کے بعد عاشقان عمران نے جس انداز میں احتجاج کیا وہ ذاتی طور پر اس کے ذمہ دار نہیں تھے۔ اسلام آباد کی عدالت میں ان کی پولیس کے بجائے رینجرز کے ہاتھوں گرفتاری نے کارکنوں کو مشتعل کردیا۔ وہ برجستہ گھروں سے نکل کر مختلف شہروں میں فوجی دفاتر کے باہر احتجاج کے اظہار کو چل پڑے۔ عمران خان اور ان کی جماعت کے سرکردہ رہ نما اسی موقف پر قائم رہتے تو شاید لوگوں کی کثیر تعداد اسے تسلیم کرلیتی۔

کچھ وقت گزرجانے کے بعد مگر ان کی جانب سے یہ دعویٰ بھی شروع ہوگیا کہ 9 مئی کے روز حکومتی ایجنسیوں کے تربیت یافتہ لوگ ملک بھر میں سڑکوں پر آئے احتجاجی ہجوم میں گھس گئے تھے۔ ان لوگوں نے غصہ سے بپھرے کارکنوں کو جلائو گھیرائو کو اْکسایا۔ یہ دعویٰ کرنے کے بعد مطالبہ شروع ہوا کہ اصل حقائق کا سراغ لگانے کے لئے عدالتی کمیشن کا قیام عمل میں آئے۔ اس کے روبرو 9 مئی کے واقعات کی سی سی ٹی وی فوٹیج رکھی گئی تو بآسانی طے ہوجائے گا کہ فوجی عمارتوں میں توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائو کے اصل ذمہ دار تحریک انصاف کے سرکردہ رہ نما اور جانے پہچانے دیرینہ کارکن نہیں بلکہ ہجوم میں ایجنسیوں کے بھیجے گھس بیٹھیے تھے۔

پاکستان کی محلاتی سازشوں پر مشتمل تاریخ کو ذہن میں رکھا جائے تو تحریک انصاف کا مذکورہ موقف غیر جانب دار افراد کے لئے بھی قابل قبول ہوسکتا تھا۔ تحریک انصاف مگر کسی ایک موقف پر قائم رہنے کی عادی نہیں۔ اس کے بانی برجستہ گفتگو کے دوران کئی بار مختلف موضوعات پر اپنے پرانے موقف کی جگہ نئی کہانی دلائل سمیت بازار میں لے آتے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں سے وہ ایک بار پھر ایجنسیوں کی جانب سے مبینہ طور پر مشتعل ہجوم میں گھسائے افراد کو 9 مئی کے واقعات کا ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے اس موقف کو دہرانا شروع ہوچکے ہیں کہ ان کی گرفتاری کے بعد مداحین عمران خان کا غصہ اور اس کا اظہار فطری تھا۔

رواں ہفتے کا آغاز ہوتے ہی اس ضمن میں انہوں نے مذکورہ موقف میں ایک نیا پہلو متعارف کروادیا۔ اڈیالہ جیل میں چلائے ایک مقدمے کی سماعت کے دن وہاں موجود صحافیوں سے ان کی گفتگو ہوئی۔ روانی میں انہوں نے اس کے دوران انکشاف فرمایا کہ 2023ء کے مارچ کی 13 اور 14 تاریخ کے بعد ان کے سرکردہ حامیوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اگر آئندہ پولیس کے بجائے رینجرز کے بھاری بھر کم دستوں کے ذریعے گرفتار کرنے کی کوشش ہوئی تو کارکنان جی ایچ کیو کے باہر جمع ہوکر احتجاج ریکارڈ کروائیں گے۔

عملی رپورٹنگ سے ریٹائر ہوجانے کے باوجود میں ان دنوں متحرک رپوٹروں سے رابطے میں رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس کالم اور اپنے ٹی وی پروگرام کے لئے مواد ڈھونڈنے کو اڈیالہ جیل میں بانی تحریک انصاف کے خلاف چلائے مقدمات کی سماعت کے دن اسے رپورٹ کرنے والے ساتھیوں سے بھی رابطہ لازمی ہے۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ کم از کم تین ایسے رپورٹروں سے فرداََ فرداََ بات کی جائے جو صحافیوں کے اس گروہ میں شامل تھے جن کے ساتھ بانی تحریک انصاف نے اڈیالہ جیل میں گفتگو کی۔

گزرے پیر کے روز جو سماعت ہوئی اس کے بعد بھی میں نے تین رپورٹرں سے رابطہ کیا۔ ان میں سے ایک نے عمران خان صاحب کو عاجزانہ انداز میں متنبہ کرنے کی جسارت بھی کی تھی کہ مارچ 2023ء میں ان کی جماعت کی جانب سے طے ہوئے جس فیصلے کا وہ انکشاف کررہے ہیں حکومت اسے "اعترافی بیان" ٹھہرا سکتی ہے۔ اس کی بنیاد پر وہ اس دعوے پر ڈٹ جائے گی کہ 9 مئی کے واقعات کے حقیقی ذمہ دار تحریک انصاف کے قائد ہیں۔ انہوں نے اپنی گرفتاری کے بعد کارکنوں کو عسکری اداروں کے خلاف احتجاج کی منظوری دی تھی۔ فکر مند رپورٹر کا پرخلوص انتباہ مگر بانی تحریک انصاف نے نظرانداز کردیا۔

رپورٹر کا موقف مگر درست ثابت ہوا۔ پیر کی شام سے زمان پارک لاہور میں ہوئے فیصلے کا ذکر ٹی وی سکرینوں پر ٹکروں کے ذریعے دہرایا جانے لگا۔ تحریک انصاف کے قائدین نے وضاحتی بیان دینا شروع کردئیے۔ انگریزی محاورے والا نقصان مگر ہوچکا تھا۔ عمران مخالف جماعتوں کے سرکردہ رہ نما اب جارحانہ پریس کانفرنسوں کے ذریعے عوام کو یاد دلانا شروع ہوگئے ہیں کہ گزرے پیر کے روز زمان پارک لاہور میں مارچ 2023ء کے دن ہوئے فیصلوں کا تحریک انصاف کے قائد نے بالآخر"اعتراف" کرلیا ہے کہ 9 مئی کے دن جو واقعات ہوئے ان کی "منصوبہ بندی" کئی ماہ قبل ہوچکی تھی۔

"اعترافی بیان" کا ڈھنڈورا جاری تھا تو یہ خبر بھی آگئی کہ پنجاب فرانزک لیبارٹری سے ایک ٹیم ایسی مشینوں کے ہمراہ اڈیالہ جیل کے پھیرے لگارہی ہے جو کسی ملزم کے بیان کو سچ یا جھوٹ ثابت کرنے والی چھلنی سے گزارتی ہے۔ اس عمل کو پولی گرافک ٹیسٹ کہاجاتا ہے۔ عمران خان اس کے لئے آمادہ نہیں ہورہے۔ وہ ہوگئے تو پاکستان کی تاریخ کے پہلے صف اوّل کے سیاست دان شمار ہوں گے جس کے بیان کردہ موقف کو پولی گرافک مشین سے گزارا گیا۔ ایسا ہوگیا تو شاید مستقبل میں حکومتی عہدوں پر فائز سیاستدانوں کو بھی اپنے ہر بیان کے بعد پولی گرافک ٹیسٹ دینا لازمی ہوجائے گا۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.