تخت یا تختہ والے معرکوں کے دوران "ابہام" اکثر کلیدی کردار ادا کرتا ہے اور عمران خان صاحب کی سیاست کے بارے میں ہزاروں تحفظات رکھنے والوں کو بھی اب تسلیم کرلینا چاہیے کہ وہ اس حربے کو استعمال کرنے میں تقریباََ لاثانی ہیں۔ کئی ہفتوں سے مستقل یہ دعویٰ کررہے تھے کہ انہیں اپنا ہدف اسلام آباد پر لانگ مارچ کے ذریعے ہی حاصل کرنا ہوگا۔ اس کی حتمی تاریخ دینے سے مگر کتراتے رہے۔ بالآخر محض یہ فضا بنائی کہ ان کے لانگ مارچ کا آغاز رواں مہینے کے اختتامی ہفتے میں کسی روز ہوگا۔ منگل کی شب تاہم پشاور سے لاہور پہنچے اور اچانک "بریکنگ نیوز" کی صورت اعلان کردیا کہ آنے والے جمعہ کی صبح وہ اس شہر کے لبرٹی چوک سے لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد کی جانب بڑھنا شروع ہوجائیں گے۔
عمران خان صاحب نے خود تو یہ پیغام نہیں دیا۔ ان کے قریب تصور ہوتے "ذمہ دار ذرائع" کے حوالے سے پھیلائی خبریں مگر یہ دعویٰ کررہی ہیں کہ وہ 28اکتوبر کو لاہور سے روانہ ہوکر 4نومبر کو اسلام آباد پہنچ جائیں گے۔ اگر یہ خبر درست ہے تو ہم تصور کرسکتے ہیں کہ لاہور سے اسلام آباد تک ان کے سفر میں آٹھ دن صرف ہوں گے۔ اپنے طویل سفر کے دوران جی ٹی روڈ پر واقع تمام شہروں میں غالباََ عوامی اجتماعات سے خطاب کرنے اور شب بسری کے بعد اگلے شہر روانہ ہوں جائیں گے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ جو سفر بھاری بھر کم اجتماع کے ساتھ بھی 24سے کم گھنٹوں میں طے ہوسکتا ہے اسے مکمل کرنے کے لئے سابق وزیر اعظم آٹھ دن کیوں لینا چاہیں گے۔ اس سوال کا جواب سوچتے ہوئے میں فقط یہ اندازہ ہی لگاسکتا ہوں کہ ان کی خواہش ہے کہ تحریک انصاف کا مارچ اسلام آباد پہنچنے سے قبل ہی انہیں مطمئن کرنے والے اعلانات کردئے جائیں۔ عدلیہ تحریک کا انجام بھی ایسے ہی ہوا تھا۔ مسلم لیگ (نون) کے قائد نواز شریف اپنے لاہور والے گھر سے باہر لگائی رکاوٹوں کو نظرانداز کرتے ہوئے شاہدرہ پہنچ گئے۔ راوی کے پل سے گوجرانوالہ پہنچے تو رات گزارنے کے لئے وہاں قیام کا فیصلہ کیا۔
دریں اثناءاسلام آباد میں فون کی ٹلیاں کھڑکنا شروع ہوگئیں۔ ان دنوں کے وزیر داخلہ مرحوم رحمن ملک صاحب بضد تھے کہ وہ نواز شریف صاحب کے لائے مارچ کو ناکام بناسکتے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری بھی اس ضمن میں لچک دکھانے کو آمادہ نہیں تھے۔ چند ہی افراد کو مگر یاد ہے کہ ان دنوں کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اس دوران حکومتِ پاکستان سے روابط استوار کئے۔ اسے "مک مکا" کو مائل کیا۔ وزیر اعظم ہوتے ہوئے یوسف رضا گیلانی ویسے ہی دل سے افتخار چودھری کی بطور چیف جسٹس بحالی کے خواہش مند تھے۔ بالٓاخر انہیں بحال کرنے پر زرداری صاحب بھی آمادہ ہوگئے۔ اس کے بعد لطیفہ یہ بھی ہوا کہ نواز شریف اور چودھری اعتزاز احسن کو صدر یا وزیر اعظم نے نہیں بلکہ ان دنوں کے آرمی چیف جنرل کیانی نے ٹیلی فون پر آگاہ کیا کہ افتخار چودھری کی بحالی کا مطالبہ تسلیم کرلیا گیا ہے۔ ان کی دی "گارنٹی" پر نواز شریف اور چودھری اعتزاز احسن نے اعتبار کیا۔ رات گئے یوسف رضا گیلانی نے ٹیلی وژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے افتخا ر چودھری کی بحالی کا اعلان بھی کردیا۔ نوازشریف کا مارچ گوجرانوالہ سے لاہور واپس چلا گیا۔
عمران خان صاحب کو غالباََ یہ توقع ہے کہ ان کے لانگ مارچ کی بابت بھی ویسی ہی تاریخ دہرائی جاسکتی ہے۔ انہیں یہ اعتماد نہ ہوتا تو لاہور سے اسلام آباد آٹھ دنوں تک پھیلے سفر کی "خبریں" نہ پھیلائی جاتیں۔ جس "اعتماد" کا میں اندازہ لگارہا ہوں اس کے حقیقی اسباب مجھے ہرگز معلوم نہیں۔ ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے محض قیاس آرائی کا مرتکب ہورہا ہوں۔
میرا قیاس اگر درست ہے تو یہ بھی فرض کرنا چاہوں گا کہ عمران خان صاحب اپنے لانگ مارچ کی حتمی تاریخ دینے سے شاید اس لئے کترارہے تھے کیونکہ انہیں امید تھی کہ صدر علوی کی معاونت سے ہوئے "بیک ڈور" مذاکرات انہیں نئے انتخاب کی تاریخ دلوادیں گے۔ وہ خفیہ مذاکرات کے ذریعے یہ ہدف حاصل نہ کر پائے۔ دباؤ بڑھانے کے لئے لانگ مارچ کی حتمی تاریخ کا اعلان کردیا۔ اسلام آباد پہنچنے کے لئے مگر "آٹھ دنوں" کی "ذمہ دار ذرائع" کی بدولت کہانیاں بھی پھیلادیں۔
"دباؤ" کا لفظ لکھنے کے بعد سوال یہ بھی اٹھانا ہوگا کہ وہ "کس" پر بڑھایا جائے گا۔ مجھ سے کہیں زیادہ ذہین قاری جبلی طورپر جان سکتے ہیں کہ "دباؤ" کا اصل ہدف کون ہوسکتا ہے۔ اس "ہدف" کو درست جان لیں تو گماں ہوتا ہے کہ عمران خان صاحب اپنے لانگ مارچ کے ذریعے "کاکڑفارمولا" دہرانا چاہ رہے ہیں۔ یہ فارمولا1993ءکے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ سے منسوب ہے۔ ان دنوں کے صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی پہلی حکومت کو آٹھویں ترمیم کی بدولت ملے اختیارات کے تحت برطرف کردیا تھا۔ جسٹس نسیم حسن شاہ کی قیادت میں تاہم سپریم کورٹ نے روزانہ کی بنیاد پر اس برطرفی کے خلاف سماعت کی اور نواز حکومت کی برطرفی کو غیر آئینی ٹھہراتے ہوئے بحال کردیا۔ بحال ہوئی قومی اسمبلی میں لوٹنے کے باوجود نواز حکومت مگر مستحکم نہ ہوپائی۔ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے منظور ہوئی قرارداد بھی پنجاب میں مسلم لیگ (نون) کی حکومت کا قیام یقینی نہ بنا پائی۔
افراتفری کے اس عالم میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے لانگ مارچ کے ذریعے اسلا م آباد آنے کی ٹھان لی۔ وہ مارچ کی تیاریوں میں مصروف تھیں تو جنرل کاکڑ نے ہیلی کاپٹر بھیج کر انہیں مذاکرات کے لئے بلوالیا۔ اس کے نتیجے میں بالآخر جنرل کاکڑ نے صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کو اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کو آمادہ کیا۔ وہ مستعفی ہوگئے تو واشنگٹن سے معین قریشی کو ہنگامی حالات میں مدعو کرنے کے بعد عبوری وزیر اعظم بنادیا گیا۔ نئے انتخاب کا انعقاد ہوا۔ اس کے نتیجے میں محترمہ بےنظیر بھٹو وزیر اعظم کے دفتر لوٹ آئیں۔ دیکھنا ہوگا کہ موجودہ حالات میں"کاکڑ فارمولا" دہرایا جاسکتا ہے یا نہیں۔ اس سوال کا جواب آپ بھی تلاش کریں اور میں بھی ان دنوں خود پر نازل ہوئی کاہلی کو تج کر اس کا تسلی بخش جواب ڈھونڈنے کی کوشش کروں گا۔