دو روز تک خاموش رہنے کے بعد عمران خان صاحب نے نئے آرمی چیف کے لئے خیرمقدمی ٹویٹ لکھ دیا ہے۔ اسے لکھتے ہوئے مگر اس خواہش کا اظہار بھی کردیا ہے کہ نئی عسکری قیادت آٹھ مہینوں کے دوران بقول ان کے "ملت" اور "ریاست" کے مابین ابھرے "اعتماد کے بحران" کو ختم کرنے کی کوشش کرے۔ مذکورہ تناظر میں تاہم ممکنہ اقدام کی نشاندہی سے انہوں نے گریز کیا۔ عمران خان صاحب کے ایک بااعتماد ساتھی جناب اسد عمر البتہ اس تناظر میں کلیدی پیغام یہ دے رہے ہیں کہ اگر نئے آرمی چیف تحریک انصاف کی جانب سے نئے انتخابات کے جلد از جلد انعقاد کی راہ نکالیں تو معاملات سنور سکتے ہیں۔
آئین کے مجھ جیسے طلباءکو اسد عمر صاحب کا تجویز کردہ مطالبہ عجب محسوس ہوا۔ ہمارے ہاں اگرچہ 1993ءکے انتخابات ان دنوں کے آرمی چیف عبدالوحید کاکڑ صاحب کے وضع کردہ ایک فارمولے کی بدولت منعقد ہوئے تھے۔ مذکورہ تاریخ دہرانے کے لئے عسکری قیادت کو مگر سیاسی امور میں مداخلت کرنا ہوگی اور نئے آرمی چیف کی جانب سے کمان سنبھالنے سے کئی ہفتے قبل ہی عسکری ادارے تواتر سے دہرائے چلے جارہے ہیں کہ وہ سیاسی امور میں مداخلت کے خواہاں نہیں ہیں۔
غیر معمولی حالات میں تواتر سے دہرائی خواہشات کی بھی عمل پیرائی ممکن نہیں رہتی۔ سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ آیاواقعتا وطن عزیز میں حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ فقط عسکری قیادت کی مداخلت ہی نئے انتخاب کا انعقاد یقینی بناسکتی ہے۔ ٹھنڈے دل سے اس سوال پر طویل غور کے بعد میں یہ اصرار کرنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ ایسا نہیں ہے۔ فقط سیاسی مبادیات وحرکیات پر توجہ مرکوز رکھی جائے تو عمران خان صاحب اور ان کی جماعت کے پاس نئے انتخابات کی راہ تیار کرنے کی سکت اپنے تئیں موجود ہے۔ گزشتہ ہفتے کی شام اپنے لانگ مارچ کے اختتامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان صاحب نے لوگوں کو یہ انکشاف کرتے ہوئے چونکادیا تھا کہ وہ اپنی جماعت کو پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی حکومتوں سے الگ کرلیں گے۔ یوں ملک کے دو بڑے صوبوں میں نئی حکومتوں کے قیام کے لئے نئے انتخابات کا انعقاد لازمی ہوجائے گا۔
عمران خان صاحب نے جس ارادے کا اظہار کیا اس کی تکمیل نظر بظاہر ناممکن نہیں۔ پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے وزرائے اعلیٰ اپنے صوبوں کے گورنر کو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھیج دیں تو 48گھنٹوں کے اندر اندر نئے انتخابات کی تاریخ دینا ہوگی۔ سوال اٹھتا ہے کہ جو اہداف وہ اپنے نامزد کردہ وزرائے اعلیٰ کے ذریعے حاصل کرسکتے ہیں ان کے حصول کے لئے نئے آرمی چیف کو کردار ادا کرنے کے لئے کیوں اُکسایا جارہا ہے۔ اس سوال کا جواب سوچتے ہوئے صحافیوں کے شکی ذہن یہ سوچنے کو مجبور ہورہے ہیں کہ غالباََ ان کے نامزد کردہ وزرائے اعلیٰ فی الوقت اپنی حکومتیں برقرار رکھنا چاہ رہے ہیں۔ شاید ان کی جماعت سے وابستہ اراکین صوبائی اسمبلی کی موثر تعداد بھی اپنے اداروں کو مزید کچھ مہینوں تک برقرار رکھنا چاہ رہی ہے۔
آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے یعنی پنجاب میں تحریک انصاف کی حمایت سے چودھری پرویز الٰہی وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہیں۔ اقتدار کے کھیل کو وہ خوب سمجھتے ہیں۔ جنرل مشرف کی سرپرستی میں 2002ءسے 2007ءتک پہلے بھی پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ وہ اپنے صوبے کے انتظامی امور سے بخوبی آگاہ ہیں۔ وہاں کے ہر حلقے کے سیاسی حقائق کو بھی خوب سمجھتے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کی کرامت کے طفیل پنجاب دیگر صوبوں کے مقابلے میں مالیاتی اعتبار سے بہت تگڑا ہے۔ خود کو میسر وسائل کو وہ نہایت مہارت سے اپنے صوبے میں Feel Goodماحول پھیلانے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے اورنج ٹرین کے کرایوں کے حوالے سے ایک سکیم شروع کی ہے جو عوام کو بہت پسند آئے گی۔ اس کے علاوہ وہ اراکین صوبائی اسمبلی کی تجویز کردہ "ترقیاتی سکیموں" کو بھی دریادلی سے منظور کررہے ہیں۔ سرکاری سرپرستی کی بدولت پنجاب میں حکومتی اتحاد سے وابستہ ہر رکن اسمبلی خود کو ان دنوں بہت مطمئن محسوس کررہا ہے۔ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ (نون) سے وابستہ اراکین اسمبلی اپنے حلقوں میں مہنگائی کے عذاب کا ذمہ دار تصور ہورہے ہیں۔ حکومتی اتحاد کے ہر رکن کی لہٰذا یہ فطری خواہش ہے کہ اپنا حلقہ "پکا" کرنے کے لئے وہ مزید کچھ ماہ حکومت میں رہیں۔
صوبائی حکومتوں سے مستعفی ہونے کے اعلان سے قبل عمران خان صاحب نے ایسی جزئیات پر تفصیلی غور نہیں کیا۔ ان کے اعلان کو اب ایک ہفتہ گزرنے کو ہے۔ اس اعلان پر عملدرآمد کے لئے مگر حقیقی پیش رفت ہوتی نظر نہیں آرہی۔ پنجاب میں جو دشواریاں درپیش ہوسکتی ہیں میں انہیں ذہن میں لاپایا ہوں۔ خیبرپختونخواہ کے ٹھوس حقائق تک نارسائی وہاں کی بابت تسلی بخش جوابات فراہم نہیں کررہی۔
حقائق جو بھی رہے ہوں پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں صوبائی اسمبلیوں کے فوری انتخاب کا حصول عمران خان صاحب کی ٹھوس پیش قدمی کا تقاضہ کرتا ہے۔ اس ضمن میں انہیں آرمی چیف کی معاونت درکار نہیں ہے۔ یاد رہے کہ فوری انتخابات کے نتیجے میں ان دونوں صوبوں میں جو حکومتیں قائم ہوں گی وہ آئندہ پانچ برس تک برسراقتدار رہیں گی۔ قومی اسمبلی کے انتخاب ان حکومتوں کے ہوتے ہوئے ہی منعقد ہوں گے۔ اس کے علاوہ مارچ 2023ءمیں سینٹ کی خالی ہوئی نشستوں کا انتخاب بھی ان ہی حکومتوں کے زیر نگرانی ہوگا۔ فوری طورپر پنجاب اور خیبرپختونخواہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ہوئے انتخاب عمران خان صاحب کو بلکہ انگریزی والی وہ Edgeفراہم کرسکتے ہیں جو آئندہ پانچ سال کے دوران انہیں اقتدار کے کھیل کا طاقت ور ترین شراکت دار بنائے رکھے گی۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ ایسے روشن امکانات کے ہوتے ہوئے بھی وہ "غیروں" کو مداخلت کے لئے کیوں اُکسارہے ہیں؟