گزشتہ برس کے اپریل میں اقتدار چھن جانے کے بعد عمران خان اپنے وعدے کے مطابق خطرے ناک، ہوگئے تو میں کنفیوز ہوگیا۔ 2011ءسے مسلسل اپنے کالموں اور ٹی وی شوز میں ان کے اندازِ سیاست کے اوپر دیانتدارانہ سوالات اٹھاتا رہا ہوں۔ ان کے جوابات تو نہیں ملے۔ عاشقانِ عمران مگر سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارموں کو بھرپور انداز میں استعمال کرتے ہوئے مجھے بددیانت صحافی ہی نہیں بلکہ بدکردار شخص بھی ثابت کرنا شروع ہوگئے۔
دو بیٹیوں کے والد کو ان کے حملوں سے گھبراجانا چاہیے تھا۔ میری بچیوں کے ساتھ سکول اور یونیورسٹی میں پڑھنے والے دوست بچپن ہی سے ہمارے گھر کو اپنے گھر کی طرح سمجھتے ہیں۔ یہاں سے ملی شفقت اور ہمارا اندازِ رہن سہن انھیں بھاتے ہیں۔ انھیں بخوبی اندازہ ہے کہ میں اور میری بیوی کتنی مشقت کی بدولت خوش حالی کا بھرم برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اگر آپ کے بچے اور ان کے قریب ترین دوست آپ کے طرزِ زندگی کی بابت شرمسار نہ ہوں تو بندہ غوغائے رقیباں، سے مزید بے نیاز ہوجاتا ہے۔ بے نیازی ویسے بھی ڈھٹائی کی حد تک میری فطرت کا حصہ رہی ہے۔ عمران خان کی سپاہ ٹرول سے لہٰذا خوفزدہ نہ ہوا۔
بالآخر عمران خان اقتدار میں آئے تو مجھے ٹی وی سکرین سے ہٹواکر بدلہ، اتارلیا۔ میں سرجھکائے پرنٹ کی دنیا تک محدود ہوگیا۔ یہ کالم بھی تسلسل سے لکھ نہ پاتا اگر نوائے وقت، کی متعارف کردہ روایات کی وارث اور محافظ محترمہ رمیزہ نظامی ڈٹ کر میرا ساتھ نہ دیتیں۔ میرے لکھے کئی کلمات نے عمران حکومت کے کئی طاقتور لوگوں کو اکثر ناراض کیا۔ اپنی خفگی وہ رمیزہ بی بی تک پہنچاتے رہے۔ انھوں نے مگر ان کی بابت مجھے مطلع کرنے کی ضرورت تک محسوس نہ کی۔ ذات کے رپورٹر کو البتہ پارلیمان ہاؤس کے چکر لگاتے ہوئے اس ضمن میں خبر، مل جاتی۔ میں شرمسار ہوارمیزہ بی بی کا شکریہ بھی ادا نہ کر پاتا۔
بہرحال خان صاحب اقتدار سے فارغ ہوئے تو امریکا کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے اپنی فراغت کا ذمہ دار ٹھہرادیا۔ آپ سے کیا پردہ۔ میں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا تو امریکا کے ایک مشہور زمانہ ہفت روزہ ٹائمز، کے سرورق پر ہمارے مذہبی جذبات بھڑکانے والا ایک گستاخانہ خاکہ چھپا۔ ان دنوں امریکا کا دفتر اطلاعات لاہور کے مال روڈ پر واقع بینک اسکوائر، کے پچھواڑے میں کام کرتاتھا۔ اس کے باہر احتجاجی جلوس کی تیاریوں کی افواہ پھیلی تو میں سکول سے گھر لوٹنے کے بجائے وہاں چلا گیا۔ میرے وہاں پہنچنے تک مذکورہ جلوس پر آنسو گیس پھینکنے کے بعد لاٹھی چارج سے پکڑدھکڑ کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ اپنی زندگی میں پولیس کا ڈنڈا پہلی بار میرے کاندھے پر اس دن بہت شدت سے لگا۔ اس کی وجہ سے ابھری سوجن کو میری مشفق ماں کئی دنوں سے آٹے کے چھان میں ابالے پانی سے گرم کیے تولیے سے ختم کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ امریکا کے ساتھ گویا بچپن ہی سے میرا ویر، شروع ہوگیا تھا۔ اس دشمنی، میں اس وقت مزید شدت آگئی جب 1969ءکا آغاز ہوتے ہی ایوب حکومت کے خلاف چلائی تحریک پولیس اور انتظامیہ کے قابو سے باہر نکلنا شروع ہوگئی۔ ہم جیسے سادہ لوح ایوب خان کو سامراجی ایجنٹ، شمار کرتے تھے۔
ایوب حکومت کے خاتمے کے بعد کالج میں داخل ہوا تو ویت نام اور عرب-اسرائیل جنگ کی وجہ سے امریکا کے سامراجی عزائم، دل ودماغ کو پریشان کرنا شروع ہوگئے۔ ہمارے ہاں بالآخر جولائی 1977ءمیں جنرل ضیاءکا مارشل لاءبھی لگا۔ ان کی حکومت امریکا کی بھرپور معاونت سے پاکستانیوں کو غلام، بنانے مگر افغانستان کو آزاد، کروانے کے جہاد، میں مصروف ہوگئی۔
قصہ مختصر امریکا سے میرا ویر، بہت دیرینہ ہے۔ اسے وزارتِ عظمیٰ سے فراغت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے عمران خان نے ہم کوئی غلام ہیں، کا سوال اٹھایا تو میرا دل پسیج گیا۔ سنجیدگی سے سوچنا شروع ہوگیا کہ عاشقانِ عمران اور ان کی حکومت کے دوران جوگزرے ہیں داغ پر صدمے، انھیں بھلاکر عمران خان سے رابطے کی کوشش کروں۔ امپورٹڈ حکومت، کے خلاف حقیقی آزادی، کی جنگ کا حصہ بن کر اپنی آخرت سنوارنے کی کوششیں کروں۔
عمران خان نے مگر اپنے باعتماد مشیر فواد چودھری صاحب کے توسط سے امریکا کے اسلام آباد میں تعینات سفیر سے روابط استوار کرنا شروع کردیے۔ اس کے بعد زلمے خلیل زاد جیسے افغان نژاد دونمبری کرائے کے دانشور ان کے لیے لابی میں مصروف ہوگئے۔ رابن رافیل بھی عمران خان کے لیے رحمدل کے جذبات دکھانے کو مائل ہوگئیں۔ حقیقی آزادی، کی جنگ لہٰذا شروع ہی نہ ہوپائی۔ زلمے خلیل زاد جیسے قلندر، جو افغان اور عراق عوام کی زندگیاں اجاڑنے کے براہِ راست ذمہ دار رہے ہیں مبینہ جنگ، کے ترجمان بن جائیں تو عالمی اور امریکی سیاست سے قطعی نابلد احمق ہی اس جنگ، کا سپاہی بننے کو آمادہ ہوگا۔ اپنے بارے میں یہ وضاحت دینا اس تناظر میں ویسے بھی لازمی ہے کہ میں بھولی تو ہوں مگر اتنی بھی نہیں،۔
میرے دل میں کئی دنوں سے مچلتی عمران خان سے معافی تلافی کے حصول کے بعد ان کی امریکا کے خلاف مبینہ طورپر برپاکی ہوئی حقیقی آزادی، کی جنگ میں حصہ لینے کی خواہش ہفتے کی شام اس وقت تو بالکل ہی مٹی میں مل گئی جب ایک آڈیو لیک کی بدولت سابق وزیر اعظم پاکستان کی امریکا کی ایک رکن کانگریس سے گفتگو کا علم ہوا۔ وہ موصوفہ سے ہماری ریاست کے دائمی اداروں کی شکایت لگاتے پائے گئے۔ اپنے مخصوص انداز میں انھیں قائل کرتے رہے کہ موصوف دیگر اراکینِ کانگریس کے ساتھ مل کر پاکستان میں حقیقی جمہوریت، کی بحالی میں اہم کردار ادا کریں۔ حقیقی آزادی، کی جنگ لڑنے کے لیے اب عمران خان کو امریکا کی پارلیمان سے تگڑے اتحادی اور معاون ملنا شروع ہوگئے ہیں۔ ایسے عالم میں مجھ دو ٹکے کے رپورٹر کو اپنا بڑھاپا خراب کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ربّ کریم میرا گوشہ نشینی تک محدود رہنا طے کرچکا ہے، لہٰذا رب کی رضا کے آگے سر جھکائے عمران خان کے لیے اگے تیرے بھاگ لچھیے، کہتے ہوئے آج کا کالم ختم کررہا ہوں۔