اپنی ضد منوانے کا ہنر کوئی عمران خان صاحب سے سیکھے۔ کم از کم تین بڑی سیاسی جماعتوں میں شامل ان کے مخالف سیاستدان خود کو بہت کائیاں اور تجربہ کار تصور کرتے ہیں۔ صدارت اور وزارت عظمیٰ کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ پنجاب جیسے پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کے مدارالمہام بھی رہے ہیں۔ ان کی اکثریت 1985ءسے نہ سہی تب بھی 1990ءکے آغاز ہی سے اقتدار کے شاطر کھلاڑیوں پر مشتمل ہے۔
رواں برس کا آغاز ہوا تو باہمی اختلافات بھلاکر یہ کائیاں اور تجربہ کار سیاستدان عمران خان صاحب کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے فارغ کرنے کے لئے یکسو ہوگئے۔ انہیں یہ گیم لگانے کا موقع اس گماں نے فراہم کیا کہ گزرے برس کے اکتوبر میں اہم ریاستی ادارے کی تعیناتی نے "سیم پیج" والی محبتیں ختم کردی ہیں۔ عمران حکومت اس کی وجہ سے اب ریت کی دیوار بن چکی ہے۔ محض ایک دھکہ اسے گرانے کے لئے کافی ہوگا۔
اقتدار کے سفاک کھیل کے مجھ جیسے دیرینہ شاہد بارہا اس کالم میں متنبہ کرتے رہے کہ عمران خان صاحب کو وزارت عظمیٰ کی آئینی مدت ختم ہونے سے قبل محلاتی سازشوں کے ذریعے ہٹانا سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا۔ روس یوکرین پر دھاوا بولنے کی تیاری کررہا ہے۔ اس کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل اور خوراک کا گھمبیر بحران نمودار ہوگا۔ پاکستان اس کے بدترین اثرات کی زد میں آئے گا۔
ہمارے اقتصادی حالات اس سے قبل ہی دُگرگوں تھے۔ سابق حکومت کے وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب نے جو بجٹ تیار کیا تھا آئی ایم ایف نے اسے منظور نہیں کیا۔ "ڈومور" کے تقاضے کو موثر بنانے کے لئے 6ارب ڈالر کے اس پیکیج کی قسط بھی روک دی جو ہماری معیشت کی بحالی کی خاطر 2019ءمیں تیار ہوا تھا۔ ریاست پاکستان اس پر ستمبر2022ءتک کامل درآمد کا وعدہ کرچکی تھی۔
عمران خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد والی گیم پر تحفظات کا اظہار کرنے والے مجھ جیسے دو ٹکے کے رپورٹروں کو ان دنوں کی حزب مخالف کے کائیاں اور تجربہ کار سیاستدان بالآخر سرگوشیوں میں یہ بتانے کو مجبور ہوگئے کہ ان کی سیاسی بقاءکے لئے "اب نہیں تو کبھی نہیں" والا مرحلہ آچکا ہے۔ سابق وزیر اعظم یہ طے کرچکے ہیں کہ نومبر2022ءتک ہماری ریاست کے اہم ترین ادارے کے سربراہ کی معیاد ملازمت ختم ہونے کا انتظار نہ کیا جائے۔ اس سے چھ ماہ قبل ہی 29مئی کے دن "جانشین" کو نامزد کردیا جائے۔
ہماری سیاسی تاریخ میں ایسا واقعہ 1991ءمیں بھی رونما ہوا تھا جب جنرل آصف نواز مرحوم کو اسلم بیگ صاحب کی ریٹائرمنٹ سے تین ماہ قبل متوقع آرمی چیف نامزد کردیا گیا تھا۔ اب کی بار یہ عمل چھ ماہ قبل دہرانے کی افواہیں چلیں۔ عوام سے حقیقی معنوں میں سیاسی قوت کے طلب گار سیاستدان ریاستی اداروں میں تعیناتیوں کے عمل سے عموماََ لاتعلق رہتے ہیں۔ وطن عزیز تاہم اپنی سرشت میں بہت ہی "خاص" ہے۔ سیاست ہمیشہ طاقت ور اداروں کے ایجنڈے کی تعمیل کا نام ہی رہی ہے۔
متوقع نامزدگی کے حوالے سے فقط ایک ہی نام گردش میں رہا۔ یہ نام عمران مخالف سیاستدانوں کے دلوں میں مفلوج بنادینے والا خوف اجاگر کرتا تھا۔ اس خوف سے جان چھڑانے کے لئے فیصلہ ہوا کہ عمران خان صاحب کی وزارت عظمیٰ سے رخصتی ہر صورت29مئی 2022ءسے قبل یقینی بنائی جائے گی۔ سابق وزیر اعظم کو اپنے خلاف لگائی گیم کا بھرپور علم تھا۔ وہ "صبح گیا یا شام گیا" والی حقیقت بروقت جان گئے۔ اسے ذہن میں رکھتے ہوئے کمال ہوشیاری سے پیٹرول اور بجلی کے نرخوں کو منجمد کرنے کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد روس کے صدر سے ملاقات کو بھی روانہ ہوگئے۔ واشنگٹن نے اس کے بار ے میں خفگی کا اظہار کیا تو "امریکی سازش" کی دہائی مچانا شروع ہوگئے۔ مبینہ "سازش" بالآخر کامیاب ہوگئی تو ریاستی اداروں میں بیٹھے "میر جعفروں" کے لتے بھی لینا شروع ہوگئے۔
اقتدار سے فارغ کئے جانے کے بعد عمران خان صاحب نے روایتی اور سوشل میڈیا کی بدولت عوام سے رابطہ استوار کرنے کے ہر ممکن ذریعہ کو ذہانت اور ثابت قدمی سے جارحانہ انداز میں استعمال کرتے ہوئے پاکستانیوں کی کماحقہ تعداد کو قائل کردیا کہ انہیں"میر جعفروں" اور ان کے مبینہ سرپرست امریکہ سے "حقیقی آزادی" کی جنگ لڑنا ہوگی۔ ان کے برعکس عمران خان کی جگہ آئی شہباز حکومت آئی ایم ایف کو رام کرنے میں جتی رہی۔ ریاست کو دیوالیہ ہونے سے بچانا اس نے اپنا یک وتنہا ہدف ٹھہرایا اور اس ضمن میں اپنی "سیاست" قربان کرنے کا دعویٰ بھی کرتی رہی۔
شہباز حکومت میں شامل جماعتیں اپنی سیاست کی "قربانی" سے فارغ ہوچکیں تو مہنگائی کی بدترین لہر نے انہیں عوامی نفرت کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ دریں اثناءپاکستان میں تعینات ہوئے امریکی سفیر نے تحریک انصاف کی خیبرپختونخواہ حکومت سے صحت عامہ کے ضمن میں"تعاون" کے نام پر روابط استوار کئے۔ ان کی سفارتی مہارت نے تحریک انصاف کی قیادت کو بتدریج قائل کرنا شروع کردیا کہ امریکہ عمران خان صاحب کا ویری نہیں ہے۔ ان کے ساتھ بلکہ دوستانہ تعلقات بڑھانا چاہ رہا ہے۔ امریکہ نے اپنی صفائیاں پیش کردیں تو "میر جعفر" بھی اپنی ذات پر لگائے دھبے مٹانے کی کاوشوں میں مصروف ہوگئے۔ حال ہی میں ہوئے چند اعلیٰ سطح کے رابطوں نے یہ الجھن بھی سلجھادی ہے۔
پیر کی شام ہمارے سینئر ترین ٹی وی اینکر اور عوام کی ذہن سازی کے عمل پر اجارہ دار تصور ہوتے کامران خان صاحب نے عمران خان صاحب کا ڈیڑھ گھنٹے تک پھیلاون آن ون انٹرویو کیا ہے۔ اس کے ذریعے سابق وزیر اعظم نے فراخ دل فاتح کی طرح "چور اور نکمے"سیاستدانوں کے علاوہ اپنے ہر ویری کو معاف کردیا ہے۔ ان کا تقاضہ اب فقط فی الفور نئے انتخاب کا انعقاد ہے تانکہ دوتہائی اکثریت کے ساتھ وہ اقتدار میں واپس لوٹ کر ملک کو حقیقی آزادی اور خوش حالی کی راہ پر گامزن کرسکیں۔
نئے انتخاب کے انتظار میں وہ نومبر2022ءکے دن متوقع تعیناتی کو مزید چند مہینوں تک ٹالنے کو بھی آمادہ ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ صاف ستھرے انتخاب کی بدولت قائم ہوئی نئی حکومت ہی اس تعیناتی کا فیصلہ کرے۔ ایسی فراخ دلی دکھاتے ہوئے اگرچہ انہیں کامل اعتماد ہے کہ متوقع فیصلہ ان کے ہاتھوں ہی سرانجام پائے گا۔ شاید "ہما" بالآخر ان ہی صاحب کے سربیٹھے جن کے نام سے گھبراکر شہباز شریف اور ان کے ہمنوا بہت اشتیاق سے سوجوتوں کے علاوہ سو پیاز کھانے کو بھی ہنسی خوشی آمادہ ہوئے تھے۔