صدر عارف علوی یہ امید تو دلارہے ہیں کہ مسلم لیگ (نون) کے بااثر رہ نما اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب ان کے ساتھ ہوئی ملاقاتوں میں کوئی ایسی راہ ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں جو ملک میں سیاسی استحکام کا ماحول اجاگر کرنے میں مددگار ثابت ہو۔ سوال اس کے باوجود یہ اٹھانا لازمی ہے کہ سیاسی استحکام کی کلید ان دنوں کس سیاسی رہ نما کے ہاتھ میں ہے۔
منطقی انداز میں مذکورہ سوال کا جواب ڈھونڈتے ہوئے میں یہ اعتراف کرنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ یہ کلید فقط عمران خان صاحب کے اجارہ میں ہے۔ وہ "چوروں اور لٹیروں"سے ہاتھ ملانے کو بھی آمادہ نہیں۔ فوری انتخاب ان کے لئے "اب نہیں تو کبھی نہیں" کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔ اسی باعث بضد ہیں کہ وفاقی حکومت اگر قومی اسمبلی کی تحلیل کے ذریعے ان کی امید نہیں دلارہی تو پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی اسمبلیا ں رواں ماہ کے اختتام پر تحلیل کردی جائیں۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی تاہم پنجاب اسمبلی کی تحلیل کو فی الوقت تیار نہیں۔ ٹی وی انٹرویوز میں اصرار کرتے سنائی دئے کہ اگلے برس کے مارچ تک انتظار کرلیا جائے تانکہ "ترقیاتی کاموں" کی تکمیل کی بدولت تحریک انصاف اور اس کی اتحادی مسلم لیگ (ق)کے اراکین صوبائی اسمبلی "اپنے حلقوں" میں ناقابل شکست بن سکیں۔ مارچ تک اپنا عہدہ برقرار رکھنے کی خواہش کا اظہار انہوں نے بدھ کے روز تحریک انصاف کے ایک رکن کو پنجاب کابینہ میں شامل کرتے ہوئے بھی کردیا ہے۔ عمران خان صاحب کو یہ فیصلہ پسند نہیں آیا اور برملا اس ضمن میں اپنے تحفظات کا اظہار کرنے سے باز نہیں رہے۔
بعدازاں زمان پارک میں تحریک انصاف کے قائد نے اپنی جماعت کے کے اہم رہ نماؤں سے طویل مشاورت کی۔ اس کے اختتام پر شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور فواد چودھری صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مصررہے کہ پنجاب اسمبلی رواں ماہ ہی تحلیل کردی جائے گی۔ فرض کیا چودھری پرویز الٰہی اس پر آمادہ نہ ہوئے تو عمران خان صاحب پنجاب اسمبلی میں موجود اپنے اراکین اسمبلی کو اجتماعی استعفے دینے کو مجبور کریں گے۔ پنجاب کابینہ میں شامل تحریک انصاف کے وزراءکو بھی اپنے عہدوں سے فا رغ ہونا پڑے گا۔ اس کے بعد وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز رہنے کے لئے چودھری پرویز الٰہی کو مسلم لیگ (نون) اور اس کی اتحادی پیپلز پارٹی سے رجوع کرنا ہوگا۔
پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری شروع دن سے چودھری پرویز الٰہی اور مسلم لیگ (نون) کے مابین "دوستی" کے خواہاں ہیں۔ چودھری صاحب کے رویے نے مگرمسلم لیگ (نون) کے کئی حلقوں کو چراغ پا بنادیا ہے۔ وہ ان کے ہاتھوں اب مزید "بلیک میلنگ" کو تیار نہیں۔ اپنی قیادت کو سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ پنجاب اسمبلی میں نئے انتخابات ہوبھی گئے تو "قیامت" نہیں آجائے گی۔ یہ تصور محض خام خیالی ہے کہ پنجاب میں نئے انتخابات تحریک انصاف کو بھاری بھر کم اکثریت فراہم کریں گے۔ یوں تحریک انصاف آئندہ پانچ برسوں تک پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے میں وہی حیثیت اختیار کرلے گی جو 1988ءسے 1999ءاور بعدازاں 2008ءسے 2018ءتک مسلم لیگ (نون) کو میسر رہی ہے۔
نئے انتخاب کا اعلان ہوجائے تو وہ قطعاََ ایک نیا منظر نامہ تشکیل دیتا ہے۔ مسلم لیگ (نون) کے کئی رہ نما ممکنہ منظر نامے کو اپنے لئے خوش کن محسوس نہیں کرتے۔ انہیں یہ فکر لاحق ہے کہ اپریل 2022ءکے بعد وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کو رام کرنے کی خاطر جو پالیسیا ں اپنائی ہیں انہوں نے مسلم لیگ (نون) کے ووٹ بینک کو شدید زک پہنچائی ہے۔ 1990ءکی دہائی سے اس جماعت کو پنجاب میں اقتصادی رونق مہیا کرنے والی جماعت تصور کیا جاتا رہا ہے۔ شہری متوسط طبقے کی اکثریت بھی پنجاب میں شہباز شریف کے متعارف کردہ "میگا پراجیکٹس" کے بارے میں شا داں محسوس کرتی رہی۔
سوشل میڈیا کے ساتھ جوان ہوئی نسل مگر اب "حقیقی آزادی" کا خواب دیکھ رہی ہے۔ "موروثی سیاست" سے اُکتائی یہ نسل میڈیا کے ماہرانہ استعمال کے ذریعے شریف خاندان کی صداقت وامانت پر بھی کئی سوالات اٹھارہی ہے۔ مسلم لیگ (نون) کے تجربہ کار رہ نما "نئی سوچ" سے گھبرائے نہیں۔ ان کی خواہش ہوگی کہ اگر چودھری پرویز الٰہی عمران خان کا ساتھ چھوڑ کر ان سے تعاون کے طلب گارہوں تو "کڑواگھونٹ" پی لینے میں کوئی حرج نہیں۔ مجھے گماں ہے کہ مسلم لیگ (نون) کے چودھری پرویز الٰہی کی مبینہ "بلیک میلنگ" سے اُکتائے افراد کے مقابلے میں مذکورہ بالا سوچ کا حامل گروہ بالآخر اپنی بات منواسکتا ہے۔
عمران خان صاحب مگر چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کے لئے آمادہ نہ کر پائے تو مزید "غضب ناک" ہوجائیں گے۔ خیبرپختونخواہ میں اس کے بعد ہر صورت وہاں کی اسمبلی کی تحلیل پر ڈٹ جائیں گے۔ یوں اگلے برس کے مارچ تک کم از کم ہمارے ایک صوبے میں نئے انتخاب کو یقینی بناسکتے ہیں۔ یوں سیاسی بحران گھمبیر تر ہوجائے گا۔ مذکورہ بحران کے ہوتے ہوئے وفاقی حکومت کو عالمی معیشت کے نگہبان اداروں کے ساتھ طویل المدت تعاون کے معاہدے کرنے میں شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ معاشی عدم استحکام اپنی جگہ برقرار رہے گا۔ وہ بلکہ مزید شدت بھی اختیار کرسکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں آئی ایم ایف کو رام رکھنا دشوار تر ہونا شروع ہوجائے گا۔
صدر عارف علوی کی وساطت سے عمران خان صاحب کو لہٰذا فوری انتخاب کے بجائے مزید کچھ ماہ تک انتظار کے لئے قائل کرنا اسحاق ڈار صاحب کے لئے ممکن نظر نہیں آرہا۔ "اب نہیں یا کبھی نہیں" والی ضد کے ساتھ عمران خان صاحب مزید لچک دکھانے کو آمادہ نہیں ہوں گے۔ انہوں نے لچک نہ دکھائی تو پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے رہ نما بھی اپنی بات پر ڈٹ جائیں گے۔
دونوں فریقین کا اپنے اپنے موقف پر ڈٹ جانا سیاسی خلفشار کو سنگین تر بنائے گا۔ ہماری ریاست کے دائمی ادارے یقینی نظر آتی خلفشار کی بابت "نیوٹرل" رہ ہی نہیں سکتے۔ بالآخر انہیں کوئی نہ کوئی کردار ادا کرنا ہوگا جو بالآخر اپنے اپنے موقف پر ڈٹے فریقین کو سیاسی اعتبار سے اجتماعی نقصان پہنچائے گا۔ اس پہلو کی جانب مگر روایتی اور سوشل میڈیا توجہ دیتا نظر نہیں آرہا۔