پیر کی صبح کالم لکھنے کے بعد اسے دفتر بھجواچکا تو تھوڑی دیر کو انٹرنیٹ دیکھا۔ میرے ٹویٹر اکاؤنٹ پر شوکت ترین کی آڈیو ٹیپ چھائی ہوئی تھی۔ پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے وزرائے خزانہ سے گفتگو کرتے ہوئے وہ ان دونوں کو وفاقی حکومت کو ایسی سرکاری چٹھی لکھنے کو اُکسارہے تھے جو آئی ایم ایف کو ریاست پاکستان کی مدد کے لئے مختص رقم کے اجراءمیں رکاوٹ ڈال سکتی تھی۔ خیبرپختونخواہ کے وزیر خزانہ نے اس ضمن میں حیران کن حد تک "جی سرکار" کا مظاہرہ کیا۔
فرطِ جذبات میں یہ انکشاف بھی کردیا کہ وہ پاکستان میں تعینات آئی ایم ایف کے نمائندگان سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ ان کا لکھا خط لہٰذا اپنا اثرسرعت سے دکھائے گا۔ پنجاب کے محسن لغاری غالباََ جھگڑا صاحب کی طرح بین الاقوامی معیشت اور اس کے حتمی کرتا دھرتا افراد سے کماحقہ آگاہ نہیں۔ سادگی میں دریافت کرلیا کہ شوکت ترین جس مضمون کا خط ان سے لکھوانا چاہ رہے ہیں"ریاست" یعنی پاکستان کو نقصان تو نہیں پہنچائے گا۔ شوکت ترین کا جواب عمران خان صاحب کی راحت کے مقابلے میں ملک کو بھاڑ میں پھینکتا سنائی دیا۔
اعتراف کرتا ہوں کہ شوکت ترین کی گفتگو سن کر میرا خون کھول گیا تھا۔ ٹویٹر پر میرے کئی صحافی اور اینکر ساتھی طیش میں مغلوب ہوئے جن جذبات کا اظہار کررہے تھے اس میں حصہ ڈالنے سے مگر دل پر پتھر رکھتے ہوئے گریز کیا۔ عرصہ ہوا دریافت کرچکا ہوں کہ وطن عزیز اندھی نفرت وعقیدت میں ناقابل علاج حد تک تقسیم ہوچکا ہے۔ جو آڈیو لیک ہوئی ہے وہ عاشقان عمران کی سوچ پر ہرگز اثرانداز نہیں ہوگی۔ پیر کی رات میری سوچ کو ٹھوس جواز بھی مہیا ہوگیا۔
عمران خان صاحب ٹیلی تھون کے ذریعے سیلاب زدگان کی مدد کے لئے چندہ جمع کررہے تھے۔ اس کے اختتام تک پانچ ارب روپے کی خطیر رقم جمع ہوجانے کا وعدہ ہوا ہے۔ اس بھاری بھر کم رقم کو عمران خان صاحب کے دیرینہ جیالے اپنے قائد کی دیانت وصداقت کے علاوہ کرشماتی شخصیت کا بھرپور اظہار دکھاتے ہوئے ڈھول بجارہے ہیں۔ ان کی دانست میں ٹیلی تھون کے دوران ہوئے وعدوں نے پیر کی صبح آڈیو لیک کے ذریعے عمران خان صاحب کی ذات پر اچھالے الزامات کو فضا میں آبی بخارات کی مانند تحلیل کردیا ہے۔
کامل تعصب میں گرفتار ہوا کوئی انتہائی سفاک شخص ہی اس خواہش کا اظہار کرسکتا ہے کہ عمران خان صاحب کی ٹیلی تھون کے دوران جن بھاری بھر کم عطیات کا وعدہ ہوا ہے وہ بالآخر کھوکھلے ثابت ہوں۔ سیلاب کی وجہ سے کئی برسوں تک پھیلی بدحالی کو ذہن میں رکھتے ہوئے خلوص دل سے یہ دُعا کرنے کو مجبور ہوں کہ جس رقم کا وعدہ ہوا ہے ربّ کریم اسے نبھانے میں مدد فرمائے۔
عاشقان عمران خان صاحب کو البتہ ہاتھ باندھتے ہوئے خبردار کرنا بھی لازمی تصور کرتا ہوں کہ ان کے قائد کے ویری بہت لگن سے اب یہ جاننے کے لئے ہر ممکن حربہ استعمال کریں گے کہ جن رقوم کا وعدہ ہوا ہے وہ بالآخر ہمارے ہاں پہنچی ہیں یا نہیں۔ اس ضمن میں دو یا تین بڑے پیمانے کی کوتاہیاں سرزد ہوگئیں تو سوشل میڈیا کے موجودہ دور میں چسکہ بھری کہانیوں کا طوفان امڈ آئے گا۔ خان صاحب کی شہرت کو اب کی بار وہ شدید ضرب لگاسکتا ہے۔ ربّ کریم سے البتہ ایک بارپھر فریاد کررہا ہوں کہ ایسا نہ ہو۔ شوکت ترین اگرچہ اپنی سفاکی ثابت کرچکے ہیں۔ اس کا ازالہ ممکن ہی نہیں۔
معاشی امور کی بابت میں نیم پڑھا جاہل ہوں۔ صحافی کو مگر زندگی کے تمام ترشعبوں کی بابت تھوڑی خبر رکھنا ہوتی ہے۔ اسی باعث 2019کے آغاز ہی سے اس کالم میں دہائی مچانا شروع ہوگیا تھا کہ انتخابی مہم کے دوران آئی ایم ایف کو ٹھینگا دکھانے والی بڑھکوں کے باوجود عمران حکومت کو بالآخر عالمی معیشت کے اس نگہبان ادارے کے درپر امداد کے لئے دستک دینا ہی پڑے گی۔ خان صاحب کے نورتنوں میں سے کلیدی شمار ہوتے اسد عمر اس تاثر کو حقارت سے جھٹلاتے رہے۔ بالآخر وزیر اعظم نے انہیں واٹس ایپ پیغام لکھ کر فارغ کردیا۔ عمران خان صاحب ان کی جگہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو اپناطاقت ور مشیر بنانے کو مجبور ہوئے۔
شیخ صاحب نے وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالنے کے چند ہی روز بعد آئی ایم ایف سے ایک معاہدے پر دستخط کردئے۔ عمران حکومت کے ترجمانوں کی فوج ظفر موج اس کی بابت دادوتحسین کے دونگڑے بجانا شروع ہوگئی۔ میں بارہا یاد دلاتا رہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ ہوا ہے وہ عمران حکومت نہیں"ریاست پاکستان" کی جانب سے ہوا ہے۔ اس میں عائد شرائط پر ہر صورت عملدرآمد کرنا ہوگا۔ ان سے مفرممکن ہی نہیں۔
مارچ 2021تک لیکن تحریک انصاف کے حامی اراکین قومی اسمبلی کی موثرتعداد بھی آئی ایم ایف سے ہوئے معاہدے کے اثرات کی وجہ سے گھبراگئی۔ وہ "اپنے حلقوں" میں ووٹروں سے کنی کترانا شروع ہوگئے۔ اپنی خفت مٹانے کو انہوں نے خفیہ رائے شماری کی سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد سے سینٹ کی خالی ہوئی ایک نشست پر حفیظ شیخ کے مقابلے میں جتوادیا۔ عمران خان صاحب نے حفیظ شیخ کی شکست سے کوئی سبق سیکھنے کے بجائے شوکت ترین کو ان کی جگہ تعینات کردیا۔
شوکت ترین بنیادی طورپر بینکار ہیں۔ اس کے باوجود تلخ حقائق کو لوگوں کے روبرو لانے کے بجائے عام پاکستانیوں کو روایتی سیاستدانوں کی طرح جھوٹے خواب دکھانا شروع ہوگئے۔ مجھ جیسے قلم گھسیٹ کے بیان کردہ خدشات شاذہی ان کے روبرو آئے ہوں۔ گزشتہ بجٹ پر قومی اسمبلی میں ہوئی بحث کے دوران تاہم تحریک انصاف کی نشستوں پر بیٹھے کئی اراکین نے بھی ان کی سنائی داستانوں پر سوالات اٹھانا شروع کردئے۔
ان سوالات کے ٹھوس جوابات فراہم کرنے کے بجائے وہ ایک دن غصہ سے سرخ ہوئے ایوان میں آئے اور رعونت سے انکشاف کیا کہ وہ "کرنل جمشید ترین کے فرزند ہیں۔ " جھوٹ بولنا ان کے خون میں شامل ہی نہیں۔ ان کی بتائی "سب اچھا" والی داستان ہر اعتبار سے ٹھوس بنیادوں پر کھڑی ہے۔ ملک اب ترقی کی جانب بھاگنا شروع ہوگیا ہے۔ آئی ایم ایف ہمیں حکم دینے کے قابل بھی نہیں رہا۔
گزرے برس کا ستمبر چڑھتے ہی مگر آئی ایم ایف نے شوکت ترین کو اپنے پیش کردہ بجٹ سے رجوع کو مجبور کردیا۔ وہ اصرار کرتے رہے کہ "منی بجٹ" نہیں آئے گا۔ وہ مگر بالآخر آیا اور عمران خان صاحب نے "ایجنسیوں" کو اسے منظور کروانے کے لئے ہر ممکن حربہ استعمال کرنے کو اُکسایا۔ آئی ایم ایف سے ایک بار پھر نئے وعدے ہوئے۔ ان کے باوجود شوکت ترین نے عمران خان صاحب کو بجلی اور پیٹرول کی قیمتیں منجمد کرنے سے نہیں روکا۔ ان کا اعلان ہوجانے کے بعد بلکہ پوری ڈھٹائی سے اس کا دفاع کرتے رہے۔ یہ تاثر دینے کو بھی مصر رہے کہ ان کے تیار کردہ بجٹ میں پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں کو منجمد رکھنے کی سکت موجود ہے۔ جس ڈھٹائی سے وہ بے بنیاد دعوے کرتے رہے کسی سفاک سیاست دان کے بس سے بھی باہر ہے۔ ان کی گھڑی داستان مگر عمران حکومت کو بچا نہیں پائی۔
عمران حکومت کی جگہ برسراقتدار آئی شہباز حکومت کے ساتھ وہ "ہم توڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے"والا رویہ دکھاتے رہے۔ اقتدار کے سفاک کھیل کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے یہ رویہ میرے لئے ہرگز حیران کن نہیں تھا۔ معاملہ مگر اب پاکستان کی معاشی بقاءتک پہنچ گیا تھا۔ فرض کیا ہماراآئی ایم ایف پر کامل انحصار نہ ہوتا تب بھی اپنے محدود وسائل کے ساتھ پاکستان حال ہی میں آئے سیلاب کی تباہ کاریوں سے اپنے تئیں نبردآزما ہوہی نہیں سکتا تھا۔
تین کروڑ انسانوں کی بدحالی سخت ترین دلوں کو بھی موم بنارہی ہے۔ ایسے عالم میں بھی شوکت ترین مگر ہروہ حربہ استعمال کرنے کو بے چین رہے جو پاکستان کو دیوالیہ کی جانب دھکیلتے ہوئے سری لنکا بنادے۔ ایسے شخص کو معاف کردینے کی ہمت مجھ جیسے رقیق القلب شخص میں بھی موجود نہیں ہے۔