چودھری پرویز الٰہی اور ان کے فرزند تواتر سے اصرار کئے چلے جارہے ہیں کہ عمران خان صاحب کا حکم ملتے ہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ گورنر پنجاب کو صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھیج دیں گے۔ آئینی اعتبار سے ایسی ایڈوائس پر عملدرآمد لازمی ہے۔ یوں پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے نئے انتخابات کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ شاید مجھے یہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ تحریک انصاف اور اس کے حامیوں کو کامل اعتماد ہے کہ ممکنہ انتخابات انہیں تار یخی کامیابی سے ہم کنار کریں گے۔ 1996ء میں نواز شریف کو آبا دی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے میں ملنے والے "ہیوی مینڈیٹ" والی تاریخ اب کی بار ان کے حق میں دہرائی جائے گی۔
انتخابی عمل سے کئی ہفتے قبل اسلام آباد میں محصور ہوئے مجھ ایسے دیہاڑی دار کے لئے ناممکن ہے کہ مذکورہ امید کی تصدیق یا تردید فراہم کرسکوں۔ طویل صحافتی تجربے نے اگرچہ یہ سکھایا ہے کہ سیاستدانوں کے بیانات پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے ان کی ترجیحات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مستقبل کا جائزہ لینے کی کوشش کرنا چاہیے۔ چودھری پرویز الٰہی سیاسی عمل کے انتہائی تجربہ کار کھلاڑی ہیں۔ انہیں قوی امید تھی کہ 1996ء میں اقتدار میں لوٹنے کے بعد نواز شریف انہیں پنجاب کا وزیر اعلیٰ نامزد کریں گے۔ شریف خاندان نے مگر شہباز شریف کا انتخاب کیا۔ مذکورہ انتخاب نے شریف خاندان اور چودھری برادران کے مابین جو بدگمانیاں پیدا کیں انہوں نے چودھری برادران کو اکتوبر1999ء کے بعد جنرل مشرف کا ساتھ دینے کا جواز فراہم کردیا۔ جنرل مشرف سے گہرے تعلقات استوار کرنے میں ان کے بااعتماد افسر طارق عزیز مرحوم کا کردار کلیدی تھا جن کے والد چودھری ظہور الٰہی کے قریبی دوست تھے اور طارق صاحب بھی ایف سی کالج لاہور میں چودھری شجاعت حسین کے ساتھ ہوسٹل میں کئی بر سوں تک قیام پذیر رہے تھے۔
اقتدار کا کھیل مگر بہت سفاک ہوتا ہے۔ ستمبر2007ء کے بعد عالمی طاقتوں نے جنرل مشرف پر دبائو بڑھانا شروع کردیا کہ وہ "دہشت گردی"کے خلاف برپا جنگ کو عوامی تائید دلانے کے لئے محترمہ بے نظیر بھٹو سے روابط ا ستوار کریں۔ بالآخر دوبئی میں جنرل مشرف اور محترمہ کے مابین ملاقات ہوگئی تو پرویز الٰہی ہکا بکا رہ گئے۔ مذکورہ ملاقات کے چند روز بعد آصف علی زرداری نے سندھ میں عوامی رابطے کی مہم کا آغاز کردیا۔ اس کے نتیجے میں وہاں کے وزیر اعلیٰ سردار ارباب رحیم مفلوج وبے اثر دِکھنا شروع ہوگئے۔ ارباب صاحب کی بے توقیری کو ذہن میں رکھتے ہوئے چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی نے جنرل مشرف کے ساتھ ہنگامی ملاقات کی راہ نکالی۔ اس کے دوران پرویز الٰہی نے واضح الفاظ میں جنرل مشرف کو متنبہ کردیا کہ اگر آصف علی زرداری نے پنجاب میں بھی ایسی ہی مہم کا آغاز کیا تو وہ اسے برداشت نہیں کریں گے۔ قطعی پوزیشن لینے کے بجائے مشرف صاحب خاموش رہے۔ ان کی خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لاہور پولیس نے آصف علی زرداری کو اس طیارے ہی میں پولیس کے ذریعے گرفتار کروا دیا جس میں سوار ہوکر وہ دوبئی سے لاہور ائرپورٹ اُترے تھے۔ آصف علی زرداری اور ان کی جماعت کو اقتدار میں لوٹنے کے لئے مزید کئی ماہ تک انتظارکرنا پڑا۔ سیاست کا جبر یہ بھی ہوا کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد آصف علی زرداری پرویز الٰہی کو نائب وزیر اعظم کا عہدہ دینے کو مجبور ہوئے۔ شریف خاندان اورچودھری برادران کے مابین دوریاں مگر ابھی تک ختم نہیں ہو پائی ہیں۔
اپریل 2017ء سے شریف خاندان کو بے اثر بنانے کے لئے "پراجیکٹ عمران" کا آغاز ہوچکا تھا۔ 2018ء کے انتخابات سے کئی ماہ قبل مجھے چند قریب تر دوستوں سے ملنے کے لئے چکوال جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں کے مقامی سیاستدانوں میں سے "باخبر" افراد نے مجھے یہ اطلاع دے کر حیران کردیا کہ چکوال کے نواحی قصبے تلہ گنگ کے انتخابی میدان کو چودھری برادران کے لئے "خالی" رکھنے کا فیصلہ ہواہے۔ تحریک انصاف وہاں سے اپنے امیدوار کھڑے نہیں کرے گی۔ مجھے ان کے دعویٰ پر اعتبار نہیں آیا۔ بالآخر مگر وہ درست ثابت ہوئے۔ چکوال تلہ گنگ کی قربت کو ذہن میں رکھتے ہوئے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مذکورہ فیصلہ کس طاقت ور شخصیت نے کیا تھا۔
جو تمہید باندھی ہے اس کا مقصد آپ کو بتانا ہے کہ ہر سیاستدان بنیادی طورپر خود غرض ہوتا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی عمران خان صاحب کے ایک اشارے پر پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا فیصلہ کردیں تو اس کے بعد وہ محض ایک طاقت ور فرد رہ جائیں گے۔ نئی انتخابی گیم عمران خان صاحب اور ان کی جماعت کے ہاتھ چلی جائے گی۔ کونسے حلقے میں کس امیدوار کو کھڑا کرنا ہے یہ فیصلہ فقط عمران خان اور ان کی جماعت کرے گی۔ شاید اس ضمن میں وہ چودھری پرویز الٰہی سے منافقانہ مشاورت کی ضرورت بھی محسوس نہیں کریں گے۔ اپنے سیاسی مستقبل کو محفوظ تر بنانے کے لئے چودھری پرویز الٰہی کے لئے شاید لازمی ہوجائے گا کہ وہ اپنی جماعت مسلم لیگ (ق)کو تحریک انصاف میں مدغم کردیں۔
ممکنہ ادغام بھی تاہم اس امر کو یقینی نہیں بنائے گا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں تاریخی اور شاندار دِکھتی کامیابی کے بعد عمران خان چودھری پرویزالٰہی یا ان کے فرزند کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ نامزد کریں۔ سنٹرل پنجاب سے مجھے اس ضمن میں فواد چودھری عمران خان صاحب سے جارحانہ وفاداری کے اظہار کے بعد اس عہدے کے زیادہ قریب نظر آرہے ہیں۔ "سرائیکی وسیب" کو خوش رکھنا مقصود ہوا تو شاہ محمود قریشی اور ان کے فرزند مذکورہ عہدے کے لئے زیادہ موزوں نظر آرہے ہیں۔ عمران خان صاحب کو اگرچہ لوگوں کو حیران کردینے کی عادت بھی ہے۔ فرض کیا شہباز گل کسی حلقے سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے تو وہ بھی عثمان بزدار کی طرح نئے "وسیم ا کرم پلس" بن کر ہم سب کو حیران کرسکتے ہیں۔ میاں اسلم اقبال بھی اس تناظر میں ایک تگڑے امیدوار ہیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ کا پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار خاتون وزیر اعلیٰ کی حیثیت میں اُبھرنا ممکن ہوسکتا ہے۔
جو خیالات میرے جھکی ذہن میں آج کا کالم لکھتے ہوئے اُمڈتے چلے جارہے ہیں ان کی بدولت درخواست محض یہ گزارنا ہے کہ چودھری صاحب اور ان کے فرزند کے تواتر سے دئیے بیانات کو بنیاد بناتے ہوئے مستقبل کا نقشہ سازی سے گریز کیا جا ئے۔