کئی برسوں سے "لفافہ" اور دیگر الزامات کا مسلسل نشانہ بنے رہنے کے باوجود مجھ ایسے "ردی کی ٹوکری میں پھینکے" صحافی تحریک انصاف کے رہ نماؤں کو ہاتھ باندھ کر سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ ہماری ریاست کے دائمی ادارے بہت بے رحم ہوتے ہیں۔ برطانوی سامراج نے انہیں دہائیوں تک پھیلی "تربیت" کے ذریعے عوام کو غلام رکھنا ہی سکھایا ہے۔ اگست 1947میں نصیب ہوئی آزادی بھی ان کا رویہ بدل نہیں پائی۔ امریکہ نے کمیونسٹ نظام کو تباہ کرنے کے نام پر بلکہ 1950کی دہائی سے "تخریب کار" تصور ہوتے اذہان کو قابو میں رکھنے کے لئے ان ہی اداروں کو جدید ترین تکنیکی اور نفسیاتی حربوں سے آشنا کرواتے ہوئے توانا تر بنادیا ہے۔ اسی باعث ہمیشہ مشورہ دیا کہ "اتنا بے سمت نہ چل، لوٹ کے گھر جانا ہے"۔ تحریک انصاف کے قائد اور ان کے جاں نثار مگر ہوا کے گھوڑے پرسوار رہے۔
انہیں"چڑھ جا بیٹا سولی پر۔۔ " اُکسانے کو ہمارے ہاں جدید اصطلاحات کے استعمال سے مرعوب کرنے والی زبان بولنے اور لکھنے والے "دانشور" بھی سینہ پھلاکر رونما ہوگئے۔ اعدادوشمار کے "ماہرانہ تجزیے" سے ہم جاہلوں کو سمجھانا شروع کردیا کہ پاکستان کی تقریباََ 60فی صد آبادی 18سے 35سال کے درمیان والی بریکٹ پر مشتمل ہے۔ اسے Youth Bulgeپکارا گیا۔ اطلاع یہ بھی فراہم کردی گئی کہ یہ نسل روایتی میڈیا پر اعتبار نہیں کرتی۔ اس سے منسلک صحافیوں کی اکثریت کو "بکاؤ" تصور کرتی ہے۔ نوجوان اب اپنے ہاتھوں میں موجود موبائل فونز کی بدولت اپنے تئیں برسرزمین واقعات کو رپورٹ کرتے ہوئے ٹویٹر، فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور یوٹیوب کے ذریعے "اصل خبر" لوگوں تک پہنچادیتے ہیں۔ ان کی کاوشیں"نئی سوچ" پھیلارہی ہیں۔ "نظام کہنہ" کے غلام ہوئے مجھ ایسے صحافی اس سوچ کی توانائی سمجھنے سے قطعاََ قاصر ہیں۔
"وقت" کو "انقلاب" کے لئے تیار ہوا دکھاتے دانشوروں کی تکرار نے مجھے چند کالم لکھنے کو مجبور کیا۔ ان کے ذریعے نہایت خلوص سے دریافت کرنا چاہا کہ برما اور مصر جیسے ممالک میں پاکستان کے حقائق سے ملتے جلتے حالات کے باوجود Youth Bulgeکوئی جلوہ کیوں نہیں دکھاپایا ہے۔ "نظام کہنہ" آج بھی کامل سفاکی سے وہاں کے عوام کو بے بس رعایا کیوں بنائے ہوئے ہے۔ جو سوالات اٹھائے جاتے ان کے جواب آج تک نہیں ملے۔ ہماری ریاست مگر اب "کھانے والے دانت" استعمال کرنا شروع ہوگئی ہے۔ عمران خان صاحب کے چہیتے چیف آف سٹاف جناب شہباز گِل کے ساتھ گزشتہ کئی دنوں سے جو سلوک ہورہا ہے "ابھی تو پارٹی۔۔ " کا عندیہ دے رہا ہے۔
گوشہ نشین اور اس کالم تک محدود صحافی ہونے کی وجہ سے میں گِل صاحب کے عتاب سے محفوظ رہا ہوں۔ جن صحافیوں کو وہ لیکن اپنے تئیں تحریک انصاف کا "تگڑاویری"گردانتے تھے مسلسل گِل صاحب کی حقارت بھری زبان کا نشانہ رہے۔ "تم سے تو"میں تبدیل ہوتی تکرار بالآخر دشنام طرازی میں بدلنا شروع ہوگئی۔ شہباز گِل صاحب بھی اس گماں میں مبتلا رہے کہ انگریزی محاورے کے مطابق کچھ بھی کہہ دینے کے باوجود "He Can Get Away It"۔ بھول گئے کہ ہمارے ہاں کچھ "ممنوعہ علاقے" بھی ہیں اور "جس کو ہودین ودل عزیز" وہاں داخل ہونے کی کوشش ہی نہ کرے۔ چند روز قبل اپنی جماعت کے حامیوں میں مقبول ترین ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے جوش خطابت میں چند ایسے کلمات ادا کر بیٹھے جن سے عمران خان صاحب بھی بالآخر لاتعلقی کا اظہار کرنے کو مجبور ہوئے۔ جارحانہ اندازِ خطابت کے عادی تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید صاحب نے بھی بدھ کی شام ایوان بالا کے اجلاس کے دوران ان کے ادا کردہ کلمات کو قابل گرفت سمجھا۔ گِل صاحب کی مشکلات اس کے باوجود کم ہوتی نظر نہیں آرہیں۔
حکومت سے کہیں زیادہ ہماری ریاست کے طاقت ور ادارے یہ ثابت کرنے کو بے چین ہیں کہ ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز گِل صاحب نے جو کچھ کہا "برجستہ" نہیں تھا۔ انہوں نے درحقیقت اپنی قیادت کے ایما پر سوچ سمجھ کر تیار کیا ہوا ایک بیان پڑھا تھا۔ اس کے ذریعے "بغاوت کی سازش" ہوئی۔ گِل صاحب کی گرفتاری کے بعد مبینہ "سازش" کی کڑیاں جوڑتے ہوئے اس میں ملوث ہر کردار کو اب قابل تعزیر بنانا مقصود ہے۔ جو عمل شروع ہوا ہے محض مذمتی بیانات سے گھبرا کر اچانک ترک نہیں کیا جائے گا۔
1950کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی ہمارے ہاں"سازش" کے تذکرے شروع ہوگئے تھے۔ فیض احمدفیض جیسے نرم گو شاعر اس کی وجہ سے "روزن زندان" لکھتے ہوئے اپنے محبوب کی "مانگ ستاروں سے بھرگئی ہوگی" کے خواب دیکھتے ہوئے کئی برسوں تک محبوس رہے۔ اس دہائی سے متعارف ہوئے ریاستی چلن میں بنیادی تبدیلی مگر کبھی رونما نہ ہوپائی۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں کارکن "ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے" کی عملی مثال ہی بنتے رہے۔ بالآخر ہمارا ایک دیوانہ شاعر پکاراُٹھنے کو مجبور ہوا کہ "ہمارے درد کا جالب مداوا ہو نہیں سکتا۔۔ "
تحریک انصاف کے متوالے تاہم اب بھی بضد ہیں کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ ہماری تاریخ میں"پہلی بار" دیکھنے کو ملا ہے۔ یہ دعویٰ درحقیقت ان کی جانب سے "حق گوئی" پر کامل اجارہ کا رعونت بھرا اظہار ہے۔ بھول رہے ہیں کہ عمران خان صاحب کے دورِ اقتدار میں بھی چند"چراغ" ایسی ہی تند ہوا کی زد میں رہے جو ان دنوں گِل صاحب کی توانائی"گُل" کرنے کو تلے بیٹھی ہے۔ شہباز گِل صاحب سمیت حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موج نے تند ہوا کی زد میں آئے ان "چراغوں" کا بے رحمی سے تمسخراڑایا تھا۔ آج جو لوگ شہباز گِل صاحب کو آفت کی گھڑی میں گرفتار دیکھنے کے بعد پھکڑپن سے ماضی کی داستانیں یاد دلارہے ہیں اپنی جانب سے محض "حساب ہی برابر کررہے ہیں"۔ کاش ہم اندھی نفرت وعقیدت بھلاکر چند بنیادی حقائق پر توجہ مبذول کرپاتے۔