وطنِ عزیز کی بہت ہی آزاد، بے باک اور حق گو ٹی وی سکرینوں پر گزشتہ تین برسوں سے ایک تنظیم کا نام لینا بھی گناہ کبیرہ تصور کیا جاتا تھا۔ مولانا فضل الرحمن اپنے مارچ سمیت لاہور سے اسلام آباد روانہ ہوئے تو مذکورہ تنظیم کی افادیت دریافت ہوگئی۔ اس کے ایک معزز رکن اسمبلی نے مولانا کے مارچ سے ٹی وی سکرینوں پر Distance کا اظہار کردیا۔ مجھ سادہ لوح کو بہت کچھ یاد آیا۔ مائوزے تنگ کا "سرخ جھنڈے سے سرخ جھنڈے کی مخالفت" والا فقرہ اور لینن کا وہ مضمون جو "بائیں بازو کے طفلانہ پن " کا تذکرہ کرتا ہے۔
اسی تناظر میں پشاور کے ا یک دیوانے بھی یاد آگئے۔ نام ان کا تھا یوسف لودھی۔ اپنے خرچے سے انگریزی کا ایک ہفت روزہ نکالتے تھے۔ انتہائی تخلیقی آدمی تھے۔ اپنے جریدے کے لئے کسی مشہور کارٹونسٹ کو باقاعدہ ملازم رکھنا معاشی اعتبار سے برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ خود ہی کارٹون بنانا شروع ہوگئے۔ ان کے بنائے کارٹونوں میں اہم ترین وہ فقرہ (Caption) ہوتا جو ان کے ساتھ لکھا جاتا۔
جنرل ضیاء ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ کر ہمارے ان داتا بن گئے تو انہوں نے خان عبدالولی خان کو رہا کردیا۔ باچا خان کے یہ فرزند نیشنل عوامی پارٹی (NAP) کے سربراہ ہوا کرتے تھے۔ 1970کے انتخابات کے بعد ان کی جماعت کو ان دنوں کے صوبہ سرحد اور بلوچستان میں صوبائی حکومتیں دینا پڑیں۔ بھٹو صاحب نے اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے بعد مگر ان حکومتوں کو فارغ کردیا۔ ولی خان قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہوا کرتے تھے۔ وہ بالآخر گرفتار کرلئے گئے۔ ان کی جماعت کیخلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں ریفرنس بھیجا گیا۔ اس کی وجہ سے نیپ کو ملک دشمن اور غدار ٹھہراکر کالعدم قرار دیا گیا۔ اس کے کئی رہ نمائوں پر ولی خان سمیت حیدر آباد جیل میں غداری کے الزامات کے تحت مقدمات چلائے گئے۔
جنرل ضیاء نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مگر حیدر ا ٓباد ٹربیونل ختم کردیا۔ ولی خان رہا کردئیے گئے۔ اپنی رہائی کے چند روز بعد ان کی جنرل ضیاء سے ملاقات ہوئی۔ یوسف لودھی نے جنہیں ہم پیار سے YL پکارا کرتے تھے اس ملاقات کی بابت ایک کارٹون بنایا۔ اس کا Caption تھا کہ "Wali Khan is now Declared a Patriot until next Order"۔ آسان ترجمہ غالباََ یہ ہوسکتا ہے کہ "اگلے اعلان تک ولی خان کو محب وطن قرار دیا جاتا ہے"۔ اس کارٹون کے تناظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کے مارچ کے خاتمے تک وہ تنظیم جس کا نام لینا بھی ہماری آزاد، بے باک اور حق گو شمار ہوتی ٹی وی سکرینوں پر گناہ کبیرہ تصور ہوتا تھا اب محب وطن نہ سہی کم از کم معتبر قرار دی جاچکی ہے۔ بقول منیر نیازی: "میں شہر میں معتبر اس کی گواہی سے ہوا" وغیرہ وغیرہ۔
مولانا کے مارچ کے بارے میں اس کالم میں تبصرہ آرائی سے میں نے آج بھی گریز کرنا ہے۔ اس ہفتے کا یہ آخری کالم ہے۔ وہ اسلام آباد تشریف لے آئے تو اتوار کی صبح تک پنجابی محاورے والا "کٹی یا کٹا" برآمد ہوچکا ہوگا۔ انتظار کرلینے میں کوئی حرج نہیں۔
مولانا جب میرے شہر لاہور میں موجود تھے تو میرے چند معتبر، بے تحاشہ پڑھے لکھے اور کئی اعتبار سے "لبرلزم" کی علامتیں شمار ہوتے ساتھیوں نے اپنے ٹویٹس کے ذریعے اطمینان کا اظہار کیا کہ لاہوریوں کو بالآخر "عقل" آگئی ہے۔ وہ "مذہبی انتہا پسند مولویوں " کا ساتھ دینے کو آمادہ نہ ہوئے۔ مولانا کے مارچ سے لاتعلقی برتی۔ مطمئن ہوئے احباب کو شاید تسلی دینے کے لئے ان سے بھی زیادہ معتبر اور بے تحاشہ پڑھے لکھے لوگوں نے مگر یاد دلانا ضروری سمجھا کہ "کالجوں کا شہر کہلاتے" لاہور میں جمعیت العلمائے اسلام "تاریخی" اعتبار سے اجنبی رہی ہے۔ یہاں اس کے کوئی Roots نہیں۔
اس دعوے کو ٹویٹر پر دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ میں بھی لاہور کا جم پل ہوں۔ والدمرحوم کا تعلق اندرون موچی دروازے کے چوک نواب صاحب سے تھا۔ والدہ دہلی دروازے کی حویلی الف شاہ کی رہائشی تھیں۔ میں بھی اس شہر میں پیدا ہوا۔ رنگ محل کے مشن ہائی سکول میں میٹرک تک پڑھا۔ بچپن یاد آیا تو بلوغت کی آمد کے ساتھ اپنی آوارہ گردی بھی ذہن میں فلم کی صورت چلنا شروع ہوگئی۔ عصر کے بعد گھر سے منٹو پارک تک پیدل جاتا تھا۔ اسے ان دنوں "مینارِ پاکستان" کہا جاتا ہے۔
مینارِ پاکستان سے باہر نکل کر بائیں ہاتھ مڑیں اور سیدھا چلتے جائیں تو مستی گیٹ کے بعد پرانے دنوں کا "لاری اڈہ" آتا ہے۔ وہاں سے آگے بڑھیں تو چند قدم لینے کے بعد آپ کے دائیں ہاتھ بلندی کی طرف ایک سڑک جاتی ہے۔ اسے سڑک کو "شیرانوالہ دی گھاٹی" کہا جاتا ہے۔ اس پر چڑھیں تو شیرانوالہ دروازہ آتا ہے۔ ہمارے بچپن میں مشہور تھا کہ اس دروازے کو "شیرانوالہ" اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ رنجیت سنگھ نے اس کی کھڑکیوں میں دائیں اور بائیں دوشیر بند کررکھے تھے جو لوگوں پر غراتے رہتے۔ اس دعویٰ کے دستاویزی ثبوت کتابوں میں نظر نہیں آئے مگر میرے بچپن کی Oral History ہے۔ اس کے مستند ہونے کی اہمیت نہیں۔
بہرحال شیرانوالہ دروازے میں داخل ہوتے ہی آپ کے دائیں ہاتھ پر ایک مسجد آتی ہے۔ اس مسجد کو "مسجدِ خدام الدین" کہا جاتا تھا۔ اس کے بالمقابل انجمن حمایت اسلام کا چلایا" اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ گیٹ" تھا۔
جس مسجد کا ذکر ہے اس کے خطیب ہوا کرتے تھے مولانا احمد علی۔ شنید ہے کہ وہ شاید مولانا عبید اللہ سندھی کے داماد بھی تھے۔ مولانا احمد علی لاہور میں پیدا نہیں ہوئے تھے۔ انگریزی سامراج کے خلاف علماء کی چلائی "تحریک ریشمی رومال" میں متحرک رہے تھے۔ انہیں کئی برس جیل میں رکھنے کے بعد لاہور میں رہنے تک محدود کردیا گیا تھا۔ لاہور میں زندگی گزارنے کے سبب وہ بالآخر مولانا احمد علی لاہوری کہلائے۔ انہوں نے فروغ دین کی غرض سے "انجمن خدام الدین" بھی بنارکھی تھی۔ اسی نام سے وہ ایک ہفت روزہ بھی شائع کرتے تھے۔ بارہ دروازوں والے شہر میں ان کا بہت ا حترام تھا۔ وہ جمعرات کو عصر کی نماز کے بعد درس بھی دیا کرتے تھے۔ میرے والدین کا مسلک ان کی سوچ سے قطعاََ مختلف تھا مگر مجھے ان کے درس میں شرکت کی ترغیب دی جاتی۔ میرے والدین کا خیال تھا کہ وہاں شرکت میری فہم دین بڑھائے گی۔ مولانا احمد علی لاہور جمعیت العلمائے اسلام کے بانیوں میں نمایاں ترین بھی تھے۔
جمعیت العلمائے اسلام کا لاہور سے تعلق مولانااحمد علی لاہوری تک ہی محدود نہیں رہا۔ ان کی وفات کے بعد مسجد خدام الدین کے خطیب ہوئے ان کے فرزند۔ مولانا عبیداللہ انوران کا اسم گرامی تھا۔ 1977 کے انتخابات میں انہوں نے نوستاروں والے "پاکستان قومی اتحاد" میں جمعیت العلمائے اسلام نمائندے کے طورپر حصہ لیا۔ پیپلز پا رٹی کے ملک اختر ان کے مدمقابل تھے۔ جس روز پولنگ ہورہی تھی افواہ پھیل گئی کہ ایک پولنگ اسٹیشن پر ملک اختر سٹین گن لہراتے نمودار ہوئے اور انہوں نے وہاں موجود مولانا عبیداللہ انور کے ساتھ مبینہ طورپر بدتمیزی برتی۔ اس افواہ نے بارہ دروازے والے شہر میں غم وغصہ کی لہر پھیلادی۔ اس سوچ کو تقویت ملی کہ پیپلز پارٹی 1977 کے انتخابات کو "بدترین دھاندلی" کے ذریعے ہر صورت جیتنا چاہ رہی ہے۔ لاہور میں ملک اختر والا واقعہ نہ ہوا ہوتا تو شاید "دھاندلی" کے الزامات کی شنوائی نہ ہوتی۔ مولانا احمد علی لاہوری کے فرزند مولانا عبیداللہ انور کے ساتھ ہوئی مبینہ بدتمیزی کی افواہ نے لاہوریوں کو چراغ پا کردیا۔
ان کے غصے کا بھرپور اظہار لوہاری دروازے کے باہر قائم "مسلم مسجد" کے سامنے 9 اپریل 1977 کے دن ہوا۔ احتجاجی جلوس پر وہاں گولی چلی۔ فائرنگ کے نتیجے میں ہوئی ہلاکتوں سے خفا ہوکر وطن عزیز میں "لبرلزم" کی عظیم ترین علامت بیرسٹر اعتزازا حسن نے پیپلز پارٹی سے استعفیٰ کا اعلان کردیا۔ "نوستاروں " کی چلائی تحریک کے حامی ہوگئے۔ ان "نو ستاروں " میں جمعیت العلمائے اسلام بھی شامل تھی۔ مولانا احمد علی لاہوری اس جماعت کے نمایاں ترین بانیوں میں سے ایک تھے اور لاہور میں بھٹو حکومت کے خلاف غصہ ان کے فرزند مولانا عبیداللہ انور کے ساتھ ہوئی مبینہ بدتمیزی کی وجہ سے عوامی غضب کی صورت اختیار کر گیا۔ جمعیت العلمائے اسلام کو لہذا لاہور کیلئے "اجنبی" قرار دینا میری دانست میں ٹھوس تاریخی حوالوں سے زیادتی ہے۔