عمران خان صاحب کا دعویٰ ہے کہ فقط ایک ٹی وی چینل اور اس سے وابستہ صحافیوں کے علاوہ وطن عزیز کے دیگر صحافتی ادارے "کرائے کے ٹٹو" اور "ضمیر فروش" ہیں۔ میرے ساتھ اگرچہ 13اگست کی رات واقعہ یہ ہوا کہ ایک صحافی دوست کے ہاں کھانے کی دعوت تھی۔ موصوف ایک ٹی وی چینل میں اہم ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔ پیشہ وارانہ مجبوری کی وجہ سے ان کے مہمان خانے میں بھی ایک بڑی سکرین نصب ہے جس پر بیک وقت کم از کم چھ ٹی وی چینل دیکھے جاسکتے ہیں۔ عمران خان صاحب کا لاہور کے جلسہ عام سے خطاب ان تمام چینلوں پر براہِ راست دکھایا جارہا تھا۔ اس کی بدولت میں نے بھی مذکورہ خطاب کو آغاز سے انجام تک بہت غور سے سنا ہے۔
فقدان راحت سے گھبرا کر بسااوقات زندگی میں اپنا ضمیر بیچنے کی کوشش بھی کررکھی ہے۔ خریدارمگر ڈھونڈ نہیں پایا۔ اس ضمن میں جماندرو ناکارہ ثابت ہوا۔ عمران خان صاحب کا موقف اس کے باوجود نہایت خلوص سے خود سمجھنا اور اپنے قارئین تک پہنچانا چاہتا ہوں۔ 13اگست کی رات انہوں نے لیکن جو طولانی خطاب فرمایا ہے وہ مجھ کوڑھ مغز کو ہرگز سمجھا نہیں پایا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو وہ کون سی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے "حقیقی آزادی" سے متعارف کروائیں گے۔ ان کی تقریر رواں برس کے اپریل سے ان کی جانب سے اختیار کردہ جارحانہ پالیسی کا بلکہ "اگلا قدم" اٹھاتی بھی سنائی نہیں دی۔ کئی مقامات جبکہ "وضاحتی" سنائی دئے۔
ثابت قدمی سیاست میں اگرچہ کام نہیں آتی۔ ایک قدم آگے بڑھنے کے بعد دو قدم پیچھے کی جانب بھی لینا پڑتے ہیں۔ پلٹ کر جھپٹنا ہی سیاسی عمل کا موثر ترین حربہ ہے۔ عمران خان صاحب کے فرمودات البتہ موجودہ حالات میں سنجیدہ بحث کا تقاضہ نہیں کرتے۔ اہم ترین حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے کمال مہارت سے روایتی اور سوشل میڈیا کو جارحانہ انداز میں استعمال کرتے ہوئے اپنے حامیوں کو پرجوش بنارکھاہے۔ میرے بچپن سے "یوم آزادی" سے متعلق تقاریب پر عموماََ ریاست کا اجارہ ہوا کرتاتھا۔ ٹی وی متعارف ہوا تو یہ اجارہ توانا تر دکھنا شروع ہوگیا۔ عمران خان صاحب نے اب کے برس وہ اجارہ چھین لیا۔ لاہور میں ان کی جانب سے منعقد ہوا جلسہ ہی 13اگست کی شام سے روایتی اور سوشل میڈیا پر چھایا رہا۔
کرکٹ میں ایک ترکیب Well Leftکہلاتی ہے۔ بلے باز اسے استعمال کرتے ہوئے کسی "خطرناک" گیند سے پنگالینے کی کوشش نہیں کرتا۔ سیاست کا طالب علم ہوتے ہوئے مجھے گماں تھا کہ حکومت یوم آزادی کی جانب بڑھتی رات کے دوران عمران خان صاحب کے اجارہ کی بابت وہی رویہ اختیار کرے گی۔ وزیر اعظم صاحب کو مگر نجانے کیا سوجھا کہ 13اگست کی رات سوا نوبجے قوم سے براہِ راست خطاب فرمادیا۔ ان کے نورتن مشیروں نے غالباََ سوچا ہوگا کہ عمران خان صاحب کے طولانی خطاب سے قبل نشر ہوئی وزیراعظم کی تقریر تحریک انصاف کی سجائی تقریب کو Over Shadowکردے گی۔ ایسا مگر ہو نہیں پایا۔
وزیر اعظم کا خطاب لاہور میں عمران خان صاحب کی جانب سے لگائی رونق کے مقابلے میں بلکہ پھسپھسا محسوس ہوا۔ ان کی تقریر محض "سرکاری کھاتہ" ہی سنائی دی۔ ٹی وی کی گرائمر بھی پوری طرح استعمال نہ کرپائی۔ وزیر اعظم کے خطاب کا آغاز "ٹاپ شاٹ" سے ہوا۔ مقصد اس کا غالباََ بیک گراؤنڈ میں لگی قائد اعظم کی تصویر کو بھی نمایاں کرنا تھا۔ یہ شاٹ مگر جس انداز میں لیا گیا اس نے دیکھنے والے کو یہ تاثر دیا کہ وزیر اعظم گو یا کسی گڑھے میں بیٹھے قوم سے مخاطب ہیں۔ لائٹنگ بھی کافی غیر معیاری تھی۔ جشن آزادی کی مناسبت سے سکرین کو پر رونق بنانے کے بجائے "سنجیدگی" کی خواہش نے اسے "سوگوار" بنادیا۔ اس خطاب میں کوئی ایسا نکتہ بھی نہیں تھا جو مجھے آج کا کالم اسے زیر بحث لانے تک محدود رکھنے کو مجبور کردیتا۔
وزیر اعظم کے خطاب کے برعکس عمران خان صاحب کی تقریر میں کافی نکات تھے جن سے اگر آپ اتفاق نہ کریں تو "ضمیر فروشی" کی عادت ان کے جوابی نکات ڈھونڈنے کو اُکساتی ہے۔ 13اگست کی رات ہوئی تقریر کو صبح اُٹھ کو ذہن میں لانے کے بعد مجھے گماں ہوا کہ عمران خان صاحب فوری انتخاب کی توقع بھلابیٹھے ہیں۔ اس سے قبل ان کی جارحانہ حکمت عملی شدت سے خواہش مند تھی کہ رواں برس کے اکتوبر تک نئے انتخاب ہوجائیں۔ ان کے حامیوں کو کامل اعتماد تھا کہ اس ماہ میں ہوئے انتخاب عمران خان صاحب کو قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت دلوادیں گے۔ اس کی بدولت و ہ ہماری تاریخ کے طاقت ور ترین وزیر اعظم بن جانے کے بعد آئین اور قوانین میں ایسی بنیادی تبدیلیاں متعارف کرواسکیں گے جو سیاست پر قابض ہوئے "چور اور لٹیروں" کے کڑے احتساب کو تیز ترانداز میں یقینی بنائیں گے۔
عمران خان صاحب اور ان کے 125حامیوں نے قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفے دے رکھے ہیں۔ سپیکر راجہ پرویز اشرف نے نجانے کونسی منطق لگاتے ہوئے ان میں سے فقط گیارہ استعفوں کو منظور کیا ہے۔ اس کی وجہ سے براہِ راست انتخاب کے لئے جو9نشستیں خالی ہوئی ہیں خان صاحب ان تمام نشستوں پر خود کو امیدوار بنابیٹھے ہیں۔ یوں توجہ فوری انتخاب کے بجائے "ضمنی انتخابات" کی جانب مڑگئی ہے۔
عمران خان صاحب یہ تمام نشستیں اگربھاری اکثریت سے جیت بھی جائیں تو پیغام یہ اجاگر ہوگا کہ وہ اس وقت پاکستان کے مقبول ترین سیاست دان ہیں۔ مذکورہ پیغام مگر پنجاب اسمبلی کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں خالی کروائی 20نشستوں کے ضمنی انتخابات کی بدولت پہلے ہی بھرپور انداز میں پہنچ چکا ہے۔ اسے دہرانے سے تحریک انصاف کو کیا حاصل ہوگا میرا کند ذہن اسے سمجھنے سے قطعاََ قاصر ہے۔