اس کالم کے باقاعدہ قارئین کو اپنا مہربان سمجھتا ہوں اور انہیں دھوکے میں رکھنے کے خیال سے بھی گھن آتی ہے۔ ان کو ابھی تک اپنے تئیں دریافت نہیں ہوا تو کھل کے اعتراف کررہا ہوں کہ گزشتہ کئی دنوں سے ملکی سیاست کے بارے میں لکھنے کو ہرگز جی نہیں چاہتا۔ رات سونے سے قبل نہایت خلوص سے کوشش کرتا ہوں کہ کوئی اور موضوع مل جائے۔ نئے موضوعات کی تلاش کے لئے مگر کتابیں پڑھنا ہوتی ہیں جو آنکھوں کی تکلیف کی وجہ سے اب دشوار محسوس ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ صبح اٹھتے ہی لہٰذا پنجابی محاورے والی گدھی کی طرح برگد کے اسی درخت کے تلے آن کھڑا ہوتا ہوں جس سے دوری کی تمنا دل میں کئی دنوں سے مچل رہی ہے۔
بدھ کی صبح اٹھا تو حسب عادت بنجر ہوئے ذہن کی وجہ سے بیزار تھا۔ جمائیاں لیتے ہوئے اخبارات کے پلندے پر سرسری نظر ڈالتے ہوئے "اج کی پکائیے"والی اذیت میں مبتلا رہا۔ دریں اثناء ایک بہت ہی عزیز اور دیرینہ دوست نے واٹس ایپ کے ذریعے ایک گانا بھیج دیا۔ اس کی بدولت لکھنے کو اچھوتا موضوع تو ملا مگر دل میں کئی برسوں سے جمع ہوا دکھ کا غبار بھی اظہار کو تڑپنے لگا۔
جو گانا مجھے ملا وہ ایک جواں سال گلوکار سجاد علی نے گایا ہے۔ چند برس قبل اتفاق سے میں نے اس کا گایا ایک اور گانا بھی سنا تھا۔ وہ کسی "چیف صاحب" کو "بس بھئی بس" کا پیغام دے رہا تھا۔ جانے مجھے کیوں گماں ہوا کہ یہ پیغام کئی برسوں سے لندن میں مقیم اس جماعت کے سربراہ کے لئے تھا جو پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے شہر کراچی کو یرغمال بنائے ہوئے تھا۔ اپنی اس توجیہہ کا مگر اظہار نہیں کیا۔ سجاد علی اور اس کے فن کو بھی بعدازاں بھلادیا۔
کرونا کی وبا سے قبل 2019ء میں لیکن بھارت میں مودی سرکار کے خلاف شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کی بحالی کی تحریک چلی تو سوشل میڈیا کی بدولت اس تحریک میں متحرک ہوئی ایک اداکارہ کی وڈیو بھی ٹویٹر پر وائرل ہوئی۔ وہ کیمرے کے سامنے اکیلی کھڑی غالباََ کسی سفر کی تیاری کرتے ہوئے ایک گانے پر جذبات سے بھرپور انداز میں پرفارم کررہی تھی۔"میں ڈوب رہا ہوں ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں " اس گانے کے ابتدائی بول تھے۔ گانے والے کی آواز میں صوفیانہ گداز والا درد تھا۔
یہ درد مگر شکست خوردگی کا اظہار بھی نہ تھا۔ اسی نغمے کا ایک شعر بلکہ بضد تھا کہ "چپ چاپ سہی مصلحتاً وقت کے ہاتھوں -مجبور سہی وقت سے ہارا تو نہیں ہوں۔"مذکورہ شعر کی وجہ سے بھارتی اداکارہ نام جس کا غالباََ سوارا بھاسکر ہے فطری انداز میں مودی سرکار کے خلاف شہری آزادیوں کی تحریک کے ساتھ دل وجاں سے کھڑی ہوئی نظر آئی۔ یہ وڈیو دیکھنے کے بعد انٹرنیٹ سے رجوع کیا تو دریافت ہوا کہ مذکورہ گانا بھی سجاد علی نے گارکھا ہے۔
بدھ کی صبح اس فن کار کا جو وڈیو ملا اس کا عنوان "راوی" ہے۔ وہ بظاہر کسی خوشحال ملک میں روشنیوں سے دمکتی اور فلک کو چومتی عمارتوں کے ساتھ بہتے دریا یا نہر کے کنارے چلتا ہوا گنگنارہا ہے۔ بھرپور زندگی کی علامت بنے بہتے پانی کو دیکھتے ہوئے اس کے دل میں خواہش بیدار ہوتی ہے کہ اگر یہاں سے راوی گزررہا ہوتا تو حیاتی "پنج آبی" بن جاتی۔ پنجابی کے بجائے "پنج آبی" کا استعمال چونکادینے کی حد تک تخلیقی ہے۔ ذرا غور کریں تو یہ پاکستانی پنجاب کا نوحہ بھی ہے جو راوی اور ستلج سے محروم ہوجانے کے باوجود آج بھی خود کو پانچ دریائوں کا خطہ کہلوانے پر مصر ہے۔ سجاد علی اسی نغمے میں ایک اور مصرعہ کے ذریعے مذکورہ گماں کو عاجزی اور درد مندی سے جھٹلاتے ہوئے ہمیں یاد دلانے کی کوشش کررہا ہے کہ "جے راوی وچ پانی کوئی نئیں -تے اپنی کہانی کوئی نئیں "۔
راوی کھودینے کے بعد میرے شہر لاہور کی "کہانی" نہایت تیزی سے ختم ہورہی ہے۔ وہاں کے باسیوں کی بے پناہ اکثریت کو مگر اس کا ہرگز احساس نہیں ہے۔"کہانی ختم" ہوجانے کا شدید ترین احساس مجھے آج سے تقریباََ دس برس قبل ہوا جب اسلام آباد سے اپنے آبائی شہر جانے کے لئے میں نے موٹروے کے بجائے جی ٹی روڈ کا انتخاب کیا۔ شاہدرہ سے راوی کے پل تک پہنچا تو فضا میں مردار خورپرندوں کے غول منڈلارہے تھے۔
پل کے ساتھ ساتھ بچوں کا ایک ہجوم بھی کھڑا تھا۔ ان کے ہاتھوں میں خون سے لتھڑے گوشت کے ٹکڑوں والے پلاسٹک کے تھیلے تھے۔ راہ گیر ان سے گوشت خرید کر دریا کی جانب اچھال رہے تھے۔ میں خوف سے مفلوج ہوگیا۔ بہت دیر تک گاڑی کھڑی کئے اس ہولناک منظر کو ہکا بکا ہوا دیکھتا رہاجو کسی زمانے میں "زندہ دلوں " کا شہر کہلاتے لاہور کو مردار خور پرندوں کی آماجگاہ بناکر پیش کررہا تھا۔ اس واقعہ کے بعد سے مجھے آج تک شاہدرہ سے راوی کا پل پار کرتے ہوئے لاہور میں داخلے کی ہمت نہیں ہوئی ہے۔
گزشتہ کئی برسوں سے لاہوریوں کی محفل میں بیٹھتا ہوں تو اکثر جھلاکر یہ سوال اٹھانے کو مجبور ہوجاتا ہوں کہ وہ لندن کو دریائے ٹیمز کے بغیر ذہن میں لانے کا تصور کرسکتے ہیں۔ پیرس کی پہچان بھی دریائے سین ہے اور نیویارک کی شناخت ہڈسن۔ راوی کھودینے کے باوجود لاہور مگر اب بھی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ جو نئی بستیاں آباد ہورہی ہیں وہاں پانی کے حصول کے لئے اکثر تین سوفٹ سے زیادہ بور کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
اس کی وجہ سے زیر زمین پانی بھی تیزی سے ختم ہورہا ہے۔ مجھے اب تک مگر کوئی صاحب علم یا بااختیار حکمران سنجیدگی سے اس امر پر غور کرتا نظر نہیں آیا کہ راوی سے محروم ہوجانے کے بعد زیر زمین پانی کے حصول کے لئے سفاکانہ بورنگ کا یہ عمل جاری رہا تو چند دہائیوں کے بعد وحشیانہ انداز میں مسلسل پھیلتا لاہور اپنی ضرورت کا پانی کہاں سے حاصل کرے گا۔ پانی کی قلت نے مغلوں کو ایک بار آگرہ بھلاکر دلی کو شاہ جہاں آباد کی صورت بسانے کو مجبور کیا تھا۔
محمد بن تغلق نام کا ایک اورسلطان بھی تھا۔ اس نے بھی اپنا دارالحکومت 1327دلی سے جنوبی ہند منتقل کرنے کی کوشش کی تھی۔ ریاستی جبر کے بھرپور استعمال کے ذریعے دلی میں آباد لوگوں کو نقل مکانی کے لئے مجبور کیا گیا۔ نیا شہر مگر آباد نہ ہوپایا کیونکہ وہاں پانی فقط محدود مقدار ہی میں میسر تھا۔ سوال اٹھتا ہے کہ لاہور کا زیر زمین پانی بھی نایاب ہوگیا تو یہاں کے مکین کس شہر کا رخ کریں گے۔ میں تو یقینا وہ کڑا وقت آنے تک مرکھپ جائوں گا۔
میرے بعد کی نسلوں کا مگر کیا ہوگا۔ شاید ان میں بھی کوئی میر تقی میر پیدا ہوجائے جو دلی کے بجائے "لاہور جو ایک شہر تھا، " کا نوحہ لکھنے کو مجبور محسوس کرے۔ سجاد علی نے البتہ "جے ایتھوں کدی راوی لنگھ جاوے حیاتی پنج آبی بن جاوے" اور "جے راوی وچ پانی کوئی نئیں تے اپنی کہانی کوئی نئیں " گاتے ہوئے مستقبل کا نقشہ کھینچ دیا ہے۔ لاہوریوں کو کاش اس نوحے پر غور کی فرصت مل جائے۔