جمعرات کی صبح اُٹھ کر اخبارات پر سرسری نگاہ ڈالنے اور آج چھپے کالم کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے بعد دیہاڑی لگانے کے لئے قلم اٹھایا ہے تو خبر آئی ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان سے "توسیع" کے ضمن میں فیصلہ دوپہر ایک بجے آئے گا۔ ڈیڈ لائن کی مجبوری کے باعث اس وقت تک انتظار نہیں کرسکتا۔ عدالتی فیصلوں کے بارے میں قیاس آرائی کی مجھ میں ہمت نہیں۔ جبلی طورپر اگرچہ محسوس کررہا ہوں کہ کوئی Win-Win حل مہیا کردیا جائے گا۔"تاریخ" شاید ویسے نہیں بنے گی جیسے ہمارے بہت سے دوست انتہائی بے تابی سے بنتے ہوئے دیکھنا چاہ رہے تھے۔
صدیوں سے شاعری کی زد میں آئی ہماری قوم بھاری بھر کم الفاظ استعمال کرنے کی عادی ہے۔ ہم "عمل" سے"تاریخ" نہیں بناتے۔ فقط توقعات باندھتے ہیں۔ "تانگہ" بسااوقات مگر "کچہری" سے خالی واپس لوٹ آتا ہے۔ اُمید پہ دُنیا مگر قائم رہتی ہے۔
پرشکوہ الفاظ کے استعمال سے اپنی بے عملی کو چھپانے کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے ایک بہت ہی پیارے سینئر یاد آگئے۔ مرحوم پھکڑپن میں لاثانی تھے۔ نام ان کا تھا مسعود اللہ خان۔ MUK کے نام سے جب دل کرے تو ایک کالم لکھ بھی دیا کرتے تھے۔ انگریزی روزنامہ "پاکستان ٹائمز" سے وابستہ رہے۔ بچپن میں انہیں پولیو ہوگیا تھا۔ اسکی وجہ سے دائیں ٹانگ متاثر ہوئی۔ تاحیات انہوں نے مگر اس کے بارے میں کبھی تاسف کا اظہار نہیں کیا۔ خود کو نصیب ہوئی معذوری کو بلکہ اس وجہ سے "خوش بختی" پکارنا شروع ہوگئے کیونکہ جنرل ضیاء کے دور میں آزادیٔ صحافت کے لئے آواز بلند کرنے کی وجہ سے انہیں بھی چار دیگر ساتھیوں سمیت کوڑوں کی سزا سنائی گئی تھی۔ کوڑے مارنے کے لئے "ٹکٹکی" پر لگانے سے قبل مگر ان کا طبی معائنہ ہوا تو ایک نیک دل ڈاکٹر نے ان کی معذوری دیکھتے ہوئے Fitness والی دستاویز پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ خان صاحب کی بچت ہوگئی۔
خان صاحب نے پرشکوہ الفاظ کے استعمال کی بھداُڑاتے کئی فقرے اپنی تحریروں میں لکھے ہیں۔ قدرت اللہ شہاب نے جب فیلڈ مارشل ایوب خان کے لائے "انقلاب" کو فروغ دینے کی خاطر محب وطن ادیبوں کو Writers Guild نامی تنظیم میں اکٹھا کیا کہ MUK نے اسے Writers Guilt پکارا یعنی "ادیبوں کا (اجتماعی)جرم"۔ یہ فقرہ لکھنے کی وجہ سے ان پر سرکاری تحویل میں آئے "پاکستان ٹائمز" میں ثقافتی موضوعات پر کالم لکھنے پر پابندی لگادی گئی تھی۔
خان صاحب کی بیوی اور بچے وزیر آباد رہتے تھے۔ اپنا پیشتروقت وہ دفتری اوقات کے علاوہ لاہور کے شیزان ہوٹل کے اوپر والی منزل میں قائم پرانے پریس کلب میں گزارہ کرتے تھے۔ وہیں کبھی کبھار انہیں وزیر آباد سے بیگم صاحبہ کا فون آجاتا۔ ظاہر ہے کہ اس کے ذریعے روایتی شکوہ ہوتا یاپیسوں کی فرمائش۔ خان صاحب اس فون کے آنے سے گھبراتے تھے۔ بھارتی "دوردرشن" کا آغاز ہوا تو ان کے پاس PTV کے ڈراموں کا توڑ موجود نہیں تھا۔ بھارتی فلموں اور ان کے گانوں سے پاکستانی ناظرین کی توجہ لینے کو مجبور ہوئے۔
پریس کلب کے چھوٹے سے کمرے میں "دوردرشن" پر چلائی فلم کو دیکھنے کے لئے ہمیشہ بڑا ہجوم جمع ہوجاتا۔ ہمارے کئی محبت وطن لکھاری مگر "دوردرشن" سے PTV کی بھرپور توانائی کے دور میں بھی گھبرا گئے۔ دہائی مچانا شروع ہوگئے کہ "دور درشن" کے ذریعے بھارت نے پاکستان پر "ثقافتی حملہ" کردیا ہے۔ بہرحال ایک روز وہاں راجیش کھنہ کی کوئی مشہور فلم چلائی جارہی تھی تو پریس کلب کے ایک ملازم نے خان صاحب کو بلند آواز میں آگاہ کیا کہ وزیر آباد سے فون آیا ہے۔ MUK جھلاگئے۔ انتہائی طیش میں اسے بتایا کہ بیوی کو خبر دو کہ لاہور اس وقت "ثقافتی حملے" کی زد میں ہے۔ ان کے پاس گھریلو باتوں میں وقت ضائع کرنے کی اس وقت فرصت نہیں۔"ثقافتی حملے" سے محفوظ ہوجانے کے بعد وہ خود بیگم صاحبہ کو فون کرلیں گے۔
میرا کالم چھپنے تک "تاریخی" فیصلہ آچکا ہوگا۔ میری خوش نصیبی کہ آئندہ دو دن مجھے کالم نہیں لکھنے۔ تبصرہ آرائی سے لہذا "محفوظ" رہوں گا۔ ایک فرمانبردار شہری کی طرح "جیہڑا جتے اُدہدے نال" ہوجائوں گا۔"مقدر" والے "سکندر" کے روبرو سرنگوں ہوجائوں گا۔
ہمارے ایک بے پناہ شاعر افتخار عارف نے "ہجرت" کے ضمن میں بھی ایک شعر کہہ رکھاہے۔ ایک حوالے سے یہ بھی پرشکوہ الفاظ وتراکیب کے استعمال سے بلندوبانگ دعوئوں کی نفی کرتا ہے۔ افتخار عارف صاحب نے مذکورہ شعر کے ذریعے اس "ہجرت" کی قلعی کھولی تھی جسے لسانی بنیادوں پر اٹھی ایک تنظیم 1980 کی دہائی میں کراچی پر چھانے کا بیانیہ ترتیب دینے کے لئے استعمال کررہی تھی۔
افتخار عارف ان دنوں رزق کی خاطر لندن میں اُردو مرکز چلارہے تھے۔ خود کو "سگِ زمانہ" کہتے ہوئے سوال اٹھادیا" ہم کیا ہماری ہجرت کیا"۔ گزشتہ کئی مہینوں سے میں اس مصرعہ میں تحریف کرتے ہوئے "ہم کیا ہماری صحافت کیا" والا سوال اٹھانے کو مجبور ہورہا ہوں۔ اگرچہ مجھے شدید شبہ ہے کہ "ہجرت" کے بجائے "صحافت" کا استعمال اشعار کے اوزان کا تعین کرنے والے قواعد کی خلاف ورزی ہے۔ پنجابی کے ایک شاعر کو مگر مشاعرہ پڑھتے ہوئے "ہاکیوں والوں " کی حمایت میسر ہوا کرتی تھی۔ اس سے کسی شعر میں وزن گرنے کی بات کہی جاتی تو "رب نیڑے یا گھسن"والا جواب مل جاتا۔
ہماری "صحافت" کی اوقات دیکھنی ہے تو فقط اتنا یاد کرلیں کہ وزیر اعظم صاحب نے اپنے دستخطوں سے 19 اگست 2019 کے روز "اچانک" وزیر اعظم کے زیر استعمال لیٹر پیڈپر "توسیع" کا اعلان کردیا تھا۔ ہم میں سے کسی ایک کو بھی یہ سوال اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ 19 اگست2019 کے روز وزیر اعظم کے لیٹر پیڈ پر یہ تحریر کیوں ثبت ہوئی۔
برطانوی سامراج کے دور سے متعارف ہوئے دفتری قواعد وضوابط کے مطابق "توسیع" کے لئے متعلقہ وزارت یعنی دفاع کے سیکرٹری کی جانب سے ایک "سمری" تیار ہونا تھی۔ یہ "سمری" کابینہ کے روبرو رکھی جاتی۔ وہ اسے منظور کرنے کے بعد صدر مملکت کو بھیج دیتی۔ ایوانِ صدر سے اس کے بعد "توسیع" کا نوٹیفکیشن جاری ہوجاتا۔ اللہ اللہ خیر صلی۔
رزق کی مجبوری کے باعث اپنے ذہن بند کئے ہم قواعد وضوابط کے حوالے سے ایک بنیادی سہو کو لیکن بیان کرنے میں ناکام رہے۔ چند ہی روز قبل سپریم کورٹ آف پاکستان بھی "اچانک" اس کا نوٹس ازخود یا کسی کی جانب سے دائر ہوئی درخواست کی وجہ سے نہ لیتی تو "تاریخ" بنانے والی آنیاں جانیاں بھی دیکھنے کو نہ ملتیں۔
"لفافہ" اور پتھر میں بند ہوئے کیڑوں کی طرح رزق چاٹنے والے مجھ جیسے "صحافیوں " کی محدودات البتہ سمجھی جاسکتی ہیں۔ تحریک انصاف کی انٹرنیٹ پر چھائی "سپا ہ ٹرول" کو لیکن کیا ہواہے؟
عدالتوں سے وہ اتنے خفا کیوں ہوگئے۔ بھول گئے کہ جب نواز شریف کو "سسیلین مافیا" پکارتے ہوئے تاحیات نااہل قرار دیا گیا تھا تو تحریک انصاف ہی وہ جماعت تھی جس نے اسلام آباد میں ایک عظیم الشان جلسے کے ذریعے "یومِ تشکر" منایا تھا۔ نواز شریف کو نااہل قرار دینے والے عزت مآب ججوں کے نام لیکر انہیں "قوم کے ہیرو" ٹھہرایا گیا تھا۔
عدالتوں کی شکوہ کنائی میں مصروف تحریک انصاف کی "سپاہ ٹرول" کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ عمران خان صاحب وطنِ عزیز کے واحد سیاست دان ہیں جنہیں جسٹس ثاقب نثار صاحب نے "صادق اور امین" ہونے کی باقاعدہ سند عطا کرتے ہوئے "تاریخ" بنائی تھی۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے اٹھے بقراطِ عصر کو ثاقب نثار صاحب نے ان کے حلقے میں زیر تعمیر ہسپتال کا "معائنہ" کرتے ہوئے ٹی وی کیمروں کے سامنے منیرؔ نیازی کے شعر والا "معتبر" بنایا تھا۔ اسی عدالت سے اب عمران حکومت کی جانب سے برتی واضح اور مضحکہ خیز "نااہلی" کی بابت واجب سوالات اٹھادئیے گئے تو ان کے معقول جوابات فراہم کرنے پرتوجہ دی جانی چاہیے تھی۔ اپنی حماقتوں سے خدارا اداروں کو بے توقیر بنانے کے بجائے تھوڑی معذرت خواہی اور شرمساری کا اظہار کریں۔