اپنی تمام عمر صحافت کی نذر کردینے والوں کی اکثریت کو عمران خان صاحب اور ان کی جماعت عرصہ ہوا "لفافہ" ثابت کرچکے ہیں۔ اگست 2018 میں اقتدارسنبھالنے کے بعد عمران حکومت نے ٹی وی سکرینوں کو "لفافوں" سے آزاد کروالیا۔ مبینہ طورپر "ملک دشمن" بیانیے کو فروغ دینے والوں کی فراغت بھی ہوگئی۔ بات مگر اب تک بن نہیں پائی ہے۔ یہ شکوہ اپنی جگہ برقرار ہے کہ عمران حکومت کے بارے میں "منفی" خبریں پھیلائی جارہی ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری اور کسادبازاری کا ذکر کرتے ہوئے عوام کو یاد نہیں دلایا جاتا کہ ان سب مسائل کا اصل سبب "چوروں اور لٹیروں" کی وہ حکومتیں ہیں جو 2008 سے 2018 تک وطن عزیز پر مسلط رہیں۔ عمران خان صاحب باہمت آدمی ہیں۔ دشمنوں کے آگے سرنگوں ہونے کو تیار نہیں ہوتے۔"جوابی وار" کی راہ ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ جدید دور کے تقاضوں سے خوب واقف ہیں۔ انہیں کامل اعتماد ہے کہ سوشل میڈیا بہت تیزی سے ساکھ اور اعتبار سے محروم ہوئے ریگولر میڈیا کی جگہ لے رہا ہے۔
حال ہی میں یوٹیوب پر چھائے محبانِ وطن اور آزاد منش یوٹیوبرز سے انہوں نے ایک خصوصی ملاقات کی۔ انہیں مزید شدت سے عمران حکومت کے دفاع کو قائل کیا۔ مذکورہ ملاقات کے اثرات اب نمایاں طورپر محسوس ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ آزاد منش اور باصفا یوٹیوبرز کی بدولت بتدریج یہ پیغام مل رہا ہے کہ عمران خان صاحب نے بہت برداشت دکھادی۔ وہ ملائیشیاء کے ڈاکٹر مہاتیر محمد کو پاکستان کے "دوست" کہلاتے ممالک کو گویا ٹھینگا دکھاتے ہوئے اس مہینے کے آغاز میں مل چکے ہیں۔ ڈٹ کر اب ہر وہ بات کہیں گے کہ جو ان کی دانست میں پاکستان کے حقیقی مفاد میں کہنا ہی نہیں بلکہ کرنا بھی ضروری ہے۔ ملائیشیاء کے دوروزرہ دورے کے بعد وزیر اعظم پاکستان آزادکشمیر پہنچ گئے۔ کشمیریوں سے یک جہتی کا اظہار کرنے والے 5 فروری کے روز انہوں نے وہاں کی قومی اسمبلی سے خطاب فرمایا۔ اُمید باندھی جارہی تھی کہ ان کا خطاب فقط کشمیر کے موضوع پر مرکوز رہے گا۔ میری بدقسمتی کہ آزادکشمیر اسمبلی کے اجلاس سے ان کا خطاب براہِ راست دیکھ نہیں پایا۔ چند گھریلو کام نبٹانے میں مصروف رہا۔ بدھ کی رات خود کو Update کرنے کے لئے سوشل میڈیا سے بتیاں بجھانے سے قبل رجوع کرنا ضروری سمجھا۔ چند یوٹیوبرز کو سننا بھی اس ضمن میں لازمی تھا۔ ان ہی کی بدولت پیغام مجھے یہ ملا کہ پاکستان کے وزیر اعظم کو اپنے ایوان میں خوش آمدید کہتے ہوئے آزاد کشمیر کے وزیر اعظم نے محض کشمیر کے موضوع پر فوکس کرنے کے بجائے عمران خان صاحب سے نواز شریف اور آصف علی زرداری کے لئے غالباََ قومی یکجہتی کے بہانے NRO بھی مانگ لیا۔ خان صاحب راجہ فاروق حیدر کی فریاد سن کر ناراض ہوگئے۔ انہیں واضح الفاظ میں یاد دلایا کہ "قوم کی دولت" لوٹنے والے "چوروں اور لٹیروں " کو ہرگز معاف نہیں کیا جاسکتا۔ فرطِ جذبات میں ایک شعر بھی سنایا جو "سربکف" ہوئے شخص کو "کسی بلا" سے حتمی جنگ کو تیار دکھاتا ہے۔
اپنے روایتی میڈیا کے "لفافوں" کی بنیاد پر بنائے بیانیے کے بارے میں شرمندگی محسوس کرتے ہوئے میں ان دنوں باصفا یوٹیوبرز کے تجزیے بہت غور سے سنتا ہوں۔ 5 فروری کے روز آزادکشمیر کی اسمبلی سے عمران خان صاحب کے خطاب کی جو توجیحات میں نے باصفا یوٹیوبرز کے ذریعے حاصل کیں انہوں نے مجھے یہ پیغام دیا کہ پاکستان پرکئی برسوں سے مسلط ہوئے مختلف النوع "مافیاز" عمران حکومت پر دبائو بڑھارہے ہیں کہ وہ "چوروں اور لٹیروں" پرہاتھ ہولا رکھیں۔"چوروں اورلٹیروں" کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے عمران حکومت کو لیکن بنیادی طورپر نواز شریف اور آصف علی زرداری کو "عبرت کا نشان" بنانا تھا۔ احتساب عدالت سے "سزا یافتہ" نواز شریف کی صحت مگر جیل میں تشویش ناک صورتحال اختیار کر گئی۔ سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹروں پر مشتمل ایک بورڈ نے سفارش کی کہ انہیں علاج کے لئے بیرون ملک بھیجنا ضروری ہے۔ عدالت نے مذکورہ رپورٹ کی بنیاد پر اپنے روبروپیش ہوئی استدعا کو منظور کرلیا۔ وفاقی کابینہ نے بھی اس ضمن میں انسانی ہمدردی دکھائی۔ نواز شریف بیرون ملک تشریف لے گئے۔ ان کی معاونت کو شہباز شریف بھی گزشتہ کئی ہفتوں سے وہیں مقیم ہیں۔ شنید ہے کہ غیر ملکی ماہرین نواز شریف صاحب کی صحت کو سنبھالنے کے لئے ایک پیچیدہ آپریشن پر اصرار کررہے ہیں۔ نواز شریف مگر بضد ہیں کہ مجوز ہ آپریشن کے دوران ان کی دُختر مریم نواز شریف بھی ان کے قریب موجود ہو۔
عمران خان صاحب اور ان کی کابینہ کے متحرک ترین اراکین مگر یہ سوچتے ہیں کہ اگر مریم نواز صاحبہ لندن چلی گئیں تو تحریک انصاف کا 22 سالوں میں مسلسل دہرایا احتساب والا بیانیہ اپنی وقعت کھودے گا۔ اپنے مداحوں کی نگاہ میں عمران خان صاحب کرپشن کے خلاف جنگ کو فراموش کرتے نظر آئیں گے۔ تحریک انصاف کے بنیادی بیانیے کی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لئے لہذا ضروری ہے کہ مریم نواز کو ہر صورت لندن جانے سے روکا جائے۔ میری ناقص رائے میں اگرچہ مریم نواز صاحبہ کو کئی حوالوں سے "زرِضمانت" کی حیثیت میں پاکستان ہی تک محدود رکھنا احتساب کے عمل کی ساکھ اور توانائی کو بحال نہیں کر پائے گا۔ نواز شریف یقینا ایک بہت ہی ہائی پروفائل سیاست دان ہیں۔ ان کے ساتھ برتا رویہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ مریم نواز کی اس تناظر میں بیرون ملک جانے کی استدعا بھی اسی باعث میڈیا کی توجہ حاصل کررہی ہے۔ مریم نواز کی خاموشی اور اُن کوپاکستان میں رکھتے ہوئے بھی لیکن احتساب کے عمل میں توانائی اب برقرار رکھی ہی نہیں جاسکتی۔ اس عمل کے آغاز ہی میں دو اہم ترین افسران شکنجے میں جکڑے گئے تھے۔ میڈیا کے ذریعے ہمیں قائل کردیا گیا تھا کہ فواد حسن فواد اور احد چیمہ "طوطوں" کی طرح شریف خاندان کی مبینہ لوٹ مار کی داستانیں سنانا شروع ہوگئے ہیں۔ تقریباََ ڈیڑھ سال تک پھیلی ان افسران کی حراست وتفتیش مگر مطلوبہ نتائج مہیا نہ کرپائی۔ یہ دونوں بالآخر ضمانتوں پر رہا ہوچکے ہیں۔
آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ بھی ان دنوں ضمانتوں کی بدولت رہائی پاچکے ہیں۔ حال ہی میں ایک سابق وزیراعظم-راجہ پرویز اشرف-کرپشن کی وجہ سے بنائے ایک مقدمے سے بری ہوئے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی بدستور جیل میں ہیں۔ ان کے "ساتھی ملزم" مفتاح اسماعیل مگر ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی اسی کیس میں ضمانت کی درخواست دائر کرنے کو تیار نہیں ہورہے تھے۔ نواز شریف صاحب نے انہیں اس امر پر قائل کیا۔ دیکھتے ہیں کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ عرصہ ہوا شاعر مشرق ہمیں سمجھاچکے کہ "ثبات" فقط "تغیر" ہی کو نصیب ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے بنائے بیانیوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوتا ہے۔"چوروں اور لٹیروں" کے خلاف عمران خان صاحب نے 22 برسوں تک جو بیانیہ پھیلایا بالآخر انہیں اگست 2018 میں وزارتِ عظمیٰ کے منصب تک پہنچانے کا باعث ہوا۔ عوام کی بے پناہ اکثریت نے کئی مہینوں تک انتظار کیا کہ عمرا ن حکومت "قوم کی لوٹی ہوئی دولت" کو کس انداز میں ریاستی خزانے میں واپس لاتی ہے۔ اس ضمن میں خاطر خواہ کامیابی مگر دیکھنا نصیب نہیں ہوئی۔ اس حقیقت کے باوجود کہ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی اپنے سرکردہ رہ نمائوں کی گرفتاری کے خلاف کسی بھی نوعیت کا احتجاجی ماحول پیدا نہ کرپائیں۔
قومی اسمبلی میں چند روز کے لئے شورشرابہ ضرورہوا۔ ہنگامے کی بنیاد مگر گرفتار شدہ اراکین اسمبلی کی "پروڈکشن آرڈر" کے ذریعے ایوان میں موجودگی ہی رہی۔ اپوزیشن جماعتیں عمران حکومت کو جھکانے یا کمزور کرنے میں قطعاََ ناکام نظر آرہی ہیں۔ ان کے خلاف "سربکف" ہونے کی اب میری دانست میں ضرورت ہی نہیں رہی۔ اس کالم میں اُکتا دینے کی حد کو چھوتی تکرار کے ساتھ فریاد کرتا رہا ہوں کہ پاکستان کا بنیادی مسئلہ اس وقت کساد بازاری، مہنگائی اور بے روزگاری ہیں۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا جیسے معتبر اور سیاسی اعتبار سے غیر جانب دار تصور ہوتے ماہرین معیشت ٹھوس اعدادوشمار کی بدولت مسلسل یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ پاکستان میں گزشتہ مالی سال کے دوران 12 لاکھ افراد بے روزگار ہوئے۔ اس برس ان کی تعداد میں دس لاکھ افراد کا اضافہ ہوگا۔ عمران حکومت کے ابتدائی دوبرسوں کے دوران گویا 22 لاکھ افراد روزگار سے محروم ہوجائیں گے۔ بے روزگار ہوئے ان لاکھوں افراد اور ان کے گھرانوں کو "بلائوں" سے برسرپیکار ہونے کے لئے "سربکف" ہوئے حکمران ہرگز مطمئن نہیں کرسکتے۔ عمران حکومت کو اب ان دیکھی "بلائوں" کے خلاف نہیں مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف ایک بھرپور جنگ لڑنے کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ لڑئے بغیر مریم نواز صاحبہ کو پاکستان تک ہی محدود رکھنا سیاسی اعتبار سے بالآخر کسی کام نہیں آئے گا۔