سرکار دربار کا ذکر ہو تو Protocol پر بھی نگاہ رکھنا پڑتی ہے۔ اُردو میں اسے درباری رسومات وروایات کہا جاتا ہے۔ دربار کی ہیبت کو چند رسومات کے ذریعے دکھانے کا چلن آج سے ہزاروں برس قبل ایرانی شہنشاہوں نے متعارف کروایا تھا۔ رومن ایمپائراس کی نقالی میں آخری حدوں تک چلی گئی۔ تاریخ اسلامی میں خلافت ملوکیت میں بدلی تو رومن اور ایرانی رسومات کے ملاپ سے نئے "آداب" برآمد ہوئے۔ دُنیا بھر کی ریاستیں ان کی تقلید کرتی ہیں۔ یہ کالم مگر پروٹوکول جسے ایرانی "تشریفات" کہتے ہیں کی تاریخ بیان کرنے کو نہیں لکھ رہا۔ مجھے حیرت ہوئی ہے کہ سعودی عرب کے متحرک اور طاقت ور ترین ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بدھ کے دن بھارتی وزیر اعظم کے مشیربرائے قومی سلامتی -اجیت دوول-سے دو گھنٹوں تک ملاقات کی۔ یہ بات درست ہے کہ شاہی نظام برقرار رکھتے ہوئے بھی سعودی حکومت غیرملکی مہمانوں کو صحرائی مہمان نوازی سے جڑی بے ساختگی اور گرمجوشی سے خوش آمدید کہتی ہے۔ اجیت دوول مگر اپنے منصب کے اعتبار سے براہِ راست سعودی ولی عہد سے طویل گفتگو کا حق دارنہیں تھا۔ اسے دو گھنٹے دئیے گئے۔ ان دو گھنٹوں میں بھارتی میڈیا کے مطابق کشمیر اور پاکستان زیر بحث رہے۔
سعودی عرب کے علاوہ بھارتی مشیر برائے قومی سلامتی متحدہ عرب امارات بھی گیا۔ وہاں بھی اس کی ملاقات ہمارے برادرملک کے ولی عہد سے طے تھی۔ حکمران خاندان میں لیکن ایک موت کی وجہ سے بالآخر اسے متحدہ عرب امارات کے مشیر برائے قومی سلامتی سے ملنا پڑا۔ اجیت دوول سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں سے ملاقاتوں میں مصروف رہا تو بھارتی وزیر خارجہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا افتتاحی ہفتہ ختم ہوجانے کے باوجود بدستور امریکہ میں موجود ہے۔ تواتر سے وہ چند اہم تھنک ٹینکوں کے اجلاسوں میں شریک ہورہا ہے۔ بااثر کالم نگاروں اور اخبارات کے مدیروں سے ملاقاتیں بھی کررہا ہے۔ کئی مبصرین کوشبہ ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ امریکہ میں فیصلہ سازی اور عوامی رائے بنانے کے حوالے سے اہم لوگوں سے ملاقاتیں فقط اس امر کو یقینی بنانے کے لئے کررہا ہے کہ روس سے اس نے جدید ترین میزائل خریدنے کا جو معاہدہ کیا ہے اسے ہضم کرلیا جائے۔ امریکہ اس سے ناراض ہوکر بھارت کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد نہ کرے۔ بھارتی وزیر خارجہ مگر جہاں بھی گیا وہاں مقبوضہ کشمیر کے تازہ ترین حالات پر تنقیدی سوالات بھی ہوئے۔ نیویارک ٹائمز نے اس حوالے سے ایک جاندار اداریہ بھی لکھ دیا ہے۔ یہ بات عیاں ہورہی ہے کہ مودی سرکارکے لئے مقبوضہ کشمیر پر 5 اگست 2019 کے روز سے مسلط کئے کمیونی کیشن لاک ڈائون کا دفاع کرنا بہت مشکل ثابت ہورہا ہے۔ دُنیا کو سمجھانے کی کوشش ہورہی ہے کہ مودی سرکار "دہشت گردی" کے تدارک کے لئے ا نتہائی اقدامات اٹھانے پر مجبور ہوئی۔ کمیونی کیشن لاک ڈائون کو اب "بتدریج" نرم کرنے کا ارادہ باندھ لیا گیا۔ شیکسپیئر نے "The Rub" کا ذکر کیا تھا۔ ہمارے بلھے شاہ نے "اک نقطے وچ گل مکدی اے" کہا۔ میرا شکی ذہن یہ سوچنے کو مجبور ہورہا ہے کہ مودی سرکار نے کمال مہارت سے پوری دنیا کی توجہ فقط اس اذیت پر مبذول کروائی جو کرفیو اور موبائل فونز کی بندش کی وجہ سے 80لاکھ کشمیریوں کا مقدر بنادی گئی تھی۔ کمیونی کیشن لاک ڈائون پر کامل توجہ نے مسئلہ کشمیر کا سیاق وسباق دھندلادیا۔ اس قضیے کی تاریخی وجوہات ہیں۔ اقوام متحدہ کی اس ضمن میں قرار دادیں بھی ہیں۔ ان کے ذریعے استصواب رائے کا ذکر ہے جو کشمیریوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی رضا سے بھارت یا پاکستان کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کریں۔ وادیٔ کشمیر کو وسیع وعریض جیل میں تبدیل کرنے کے بعد مودی سرکار اب "بتدریج" کمیونی کیشن لاک ڈائون کو نرم کرتے ہوئے خود کو نام نہاد "عالمی برادری" کے روبرو "اچھا" ثابت کرنے کی کوشش کرے گی۔ خود کو "رحمدلی" کی جانب مائل کرتے ہوئے امریکہ، سعودی عرب اور متحدہ امارات سے اب یہ "درخواست" ہوگی کہ وہ پاکستان پر اپنے اثرورسوخ کو بھرپورانداز میں بروئے کار لاتے ہوئے اس امر کو یقینی بنائیں کہ کرفیو اٹھنے اور موبائل فونز کھل جانے کے بعد "پاکستان کے ایماء پر" مقبوضہ کشمیر میں "دہشت گردی" کے واقعات نہیں ہوں گے۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کو گویا تسلیم کرلیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر کی دو حصوں میں تقسیم بھی مان لی جائے۔ بھارتی حکومت کو اب یہ "سہولت" بھی فراہم کی جائے کہ وہ جموں وکشمیر کی "صوبائی اسمبلی" کے قیام کے لئے انتخابات کروانے کا عمل شروع کرے۔ لداخ کو فی الحال براہِ راست دہلی کے زیر نگران Union Territory تصور کیا جائے۔ دنیا کی توجہ کمیونی کیشن لاک ڈائون تک محدود رکھتے ہوئے گویا مسئلہ کشمیر کے تاریخی تناظر کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈائون کے "بتدریج" خاتمے کے بعد وہاں امن وامان برقرار رکھنے کی ذمہ دار بھی مکارانہ انداز میں پاکستان کے کاندھوں پر ڈالنے کی کوشش ہورہی۔ جو "گیم" میں تصور کررہا ہوں بہت گہری ہے۔ پاکستانی میڈیا میں اس کا ادراک مجھے لیکن نظر نہیں آیا۔ ہم تو یہ طے کرنے میں مصروف ہیں کہ محترمہ فردوس عاشق اعوان صاحبہ وزارتِ اطلاعات کی مدارالمہام برقرار رہ سکیں گی یا نہیں۔ مولانا فضل ا لرحمن اکتوبر میں اپنے فدائین کے لشکرسمیت اسلا م آباد تشریف لائیں گے یا نہیں۔ شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری انہیں "مذہبی کارڈ" استعمال کرنے سے روکنے میں کس حد تک کامیاب رہیں گے۔ نواز شریف صاحب کو ڈیل یا ڈھیل نصیب ہوگی یا نہیں۔ کئی بار التجا کرچکا ہوں کہ یہ تمام باتیں اپنی جگہ مزیدار اور تھوڑا اہم ہونے کے باوجود بنیادی طورپر "فروعی" ہیں۔ پاکستان کے اندرونی حالات کے ضمن میں اس وقت اہم ترین مسئلہ بازار پرچھائی مندی ہے۔ بجلی اور گیس کے مسلسل بڑھتے ہوئے نرخ ہیں۔ فیکٹریوں کی بندش سے بے روزگاری کا فروغ ہے۔ تن خواہ داروں کی مسلسل کم ہوتی آمدنی ہے۔ اس جانب ہماری "منتخب" سرکار اور پارلیمان میں بہت آن سے موجود اپوزیشن رہ نما مناسب توجہ نہ دے پائے تو کاروباری افراد کو آرمی چیف کے روبرو دہائی مچانا پڑی۔ خارجہ امور کے ضمن میں ہماری کامل توجہ فقط کشمیر، کشمیر اور کشمیر پر مرکوز رہنا چاہیے تھی۔ واشنگٹن نے مگر زلمے خلیل زاد کو اسلام آباد بھیج دیا ہے۔ وہ یہاں آیا تو ملاغنی برادر کی قیادت میں طالبان کا وفد بھی ہمارے حکمرانوں سے ملاقات کرنے آگیا۔ مجھے شدید شبہ لاحق ہے کہ ہمیں سمجھانے کی کوشش ہورہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر پرمسلط ہوا کمیونی کیشن لاک ڈائون "بتدریج" ختم ہونے کو ہے۔ 80 لاکھ کشمیریوں پر مسلط ہوئی اذیت کا ازالہ فراہم کرنے کی راہ نکالی جارہی ہے۔ پاکستان اب اپنی توجہ مسئلہ افغانستان کا حل ڈھونڈنے پرمرکوز کردے۔ کشمیر نہیں بلکہ افغانستان کو ہمارے کلیدی مسئلہ بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔ اس ماہ کے آخری ہفتے میں FATF کا اہم ترین اجلاس بھی ہونا ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ ہمیں کچھ عرصے کے لئے "گرے" لسٹ ہی میں رکھا جائے گا۔ پاکستان پر اس کے ذریعے دبائو برقرار رہا تو اپنی اقتصادی مجبوریوں کی بناء پر ہم شاید "کشمیر نہیں افغانستان" کو فی الوقت اپنے لئے کلیدی مسئلہ تصور کرنے کو مجبور ہوجائیں گے۔ "Do More" کے تقاضے لہذا جاری رہیں گے۔ اس کے عوض ٹھوس اقتصادی اعتبار سے ہمیں "کیا " ملے گا اس کا ذکر تک نہیں ہورہا۔ ٹی وی سکرینوں پر لگی رنگ بازی سے ذرا فرصت ملے تب ہی اس پہلو پر توجہ دے سکیں گے۔