کالم کے آغاز ہی میں کھل کر بیان کرنا ہوگا کہ میری محترمہ کلثوم نواز شریف صاحبہ سے ان کے انتقال تک کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ قدیم لاہور کا باسی ہوتے ہوئے اگرچہ میں ان کے والد اور خاندانی پسِ منظر سے تھوڑی شناسائی کا حامل ہوں۔ وہ نواز شریف کی اہلیہ تھیں اورنواز شریف اور ان کی جماعت کو میں نے کئی دہائیوں تک سرمایہ دارانہ نظام کا کٹر حامی شمار کیا جنہیں ضیاءالحق نے اپنے لگائے مارشل لاءکے دوران سرکاری سرپرستی میں پیپلز پارٹی اور جمہوریت کی جدوجہد میں مصروف کارکنوں کے مقابلے میں کھڑا کیا تھا۔ نواز شریف خاندان سے "لفافے" لے کر "صحافی ہونے کا ڈھونگ "رچانے والوں میں عاشقان عمران خان اگرچہ مجھے بھی جنونی تکرار سے شامل رکھتے ہیں۔ محض اس خواہش کا اظہار ہی کرسکتا ہوں کہ وہ درست ہوتے اور میری زندگی کو کچھ مالی آسانیاں بہم ہوجاتیں۔
کوئی ذاتی تعلق نہ ہونے کے باوجود محترمہ کلثوم نواز صاحبہ اپنی برسی کے دن مجھے شدت سے یاد آتی رہیں۔ جنرل مشرف کے 1999ئمیں اقتدار پر قابض ہوجانے کے بعد نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے کئی پھنے خان رہ نما گھروں میں خوف سے دبک کر بیٹھ گئے تھے۔ شکست خوردگی کے احساس سے سیاسی طورپر مفلوج اس دور میں مرحومہ ایک گھریلو عورت ہوتے ہوئے بھی سڑک پر نکل آئیں۔ عوامی رابطے سے روکنے کی خاطر ان دنوں پنجاب حکومت کے اعجاز شاہ صاحب کے ذاتی حکم پر انہیں سربازار اس گاڑی کو کرین سے باندھ کر فضا میں لٹکائے رکھا گیا جس میں بیٹھ کر وہ کارکنوں تک پہنچنا چاہ رہی تھیں۔
مجھے گماں ہے کہ محترمہ کلثوم نواز شریف کی جرات مندانہ پیش قدمی نے بالآخر نواز شریف کی سعودی عرب جلاوطنی کے فیصلے کی راہ ہموار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ جلاوطنی کے ایام میں وہ دوبارہ گوشہ نشین ہوگئیں اور 2008ئمیں نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد کبھی منظر عام پر نہیں آئیں۔ یہ چلن انہوں نے 2013ئسے 2017ئکے دوران بھی برقرارر کھا جب ان کے شوہر وطن عزیز کے تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم کی حیثیت سے اسلام آباد میں قیام پذیر تھے۔
اپریل 2016ئمیں تاہم پانامہ ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں نواز شریف اقامہ کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے ہاتھوں عوامی عہدے کے لئے تاحیات نااہل قرار ٹھہرادئے گئے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں لاہور سے قومی اسمبلی کی جو نشست خالی ہوئی محترمہ کلثوم نواز صاحبہ اسے پُرکرنے کو میدان میں اُترآئیں۔ انتخابی مہم ابھی باقاعدہ شروع ہی نہیں ہوئی تھی کہ کلثوم نواز صاحبہ ایک پراسرار بیماری کی زد میں آگئیں۔ علاج کی خاطر انہیں ہنگامی طورپر لندن لے جانا پڑا۔ اس حقیقت کو شریف خاندان کے سیاسی دشمنوں نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔
کہانی یہ چلائی گئی کہ لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے ان کی بیماری کا "ڈرامہ رچایا جارہا ہے"۔ دعویٰ یہ بھی ہوا کہ وہ لندن کے کسی "معروف" اور "باقاعدہ" ہسپتا ل میں زیر علاج نہیں۔ کلینک" کے نام پر درحقیقت ایک "ریسٹ ہاؤس" ہے۔ شریفوں نے شاید اسے خرید بھی رکھا ہے۔ "انتخابی مہم" سے "جند چھڑانے" کے لئے محترمہ کلثوم نواز وہاں"بیماری کے بہانے چھپی" ہوئی ہیں۔ مذکورہ الزام کو "دستاویزی ثبوت" فراہم کرنے کے جنون میں برطانیہ میں مقیم تحریک انصاف کے کئی پُرجوش کار کن اس عمارت میں گھسنے کی کوشش کرتے۔ ان کی کاوشوں کو ہمارے کئی ٹی وی چینل سنسنی خیز انداز میں رپورٹ کرتے۔
ٹاک شوز میں بھی ہمارے کئی حق گو اور جید اینکر ان کاوشوں کی بنیاد پر مسلم لیگ (نون) کی نمائندگی کرنے والے مہمانوں کو شرمسار کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے۔ محترمہ کلثوم نواز شریف صاحبہ کی بیماری کو "ڈرامہ" ثابت کرنے کے لئے ٹی وی سکرینوں اور سوشل میڈیا پر جوشوروغل مچ رہا تھا وہ یہ حقیقت عیاں کرنے کو کافی تھا کہ اندھی نفرت وعقیدت ہمیں سفاک بنارہی ہے۔
ہماری معاشرتی اقدار اس کی وجہ سے تباہ ہورہی ہیں۔ بیماری اور موت بھی اب سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے استعمال ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ لوگوں کی خانگی زندگی اور پرائیویسی کا احترام باقی نہیں رہا۔ ہم مگر اس معاشرتی زوال کے بارے میں قطعاََ لاتعلق رہے۔ بالآخر انہیں بستر مرگ پر چھوڑ کر نواز شریف اپنی دُختر سمیت گرفتار ہونے لاہور پہنچ گئے۔ وہ دونوں جیل سے ان کے جنازے میں پیرول کی بدولت رہا ہو کر شرکت کے قابل ہوئے۔
نواز شریف کے سگے بھائی اور محترمہ کلثوم نواز صاحبہ کے دیور ان دنوں اتحادی حکومت کے سربراہ ہیں۔ سنا ہے کہ مسلم لیگ (نون) کے نام سے ایک جماعت بھی کام کررہی ہے۔ اتحادی حکومت کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ مسلم لیگ (نون) مگر کسی اور شہر نہ سہی کم از کم لاہور کے ایک بڑے ہال میں محترمہ کلثوم نواز شریف صاحبہ کی برسی کے دن کسی ایسی تقریب کا اہتمام کرسکتی تھی جہاں انہیں کماحقہ انداز میں یاد کیا جاتا۔ ایسا مگر ہوا نہیں اور میں یہ کالم لکھنے کو مجبور ہوا۔
محترمہ کلثوم نواز شریف کی برسی کے روز نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ نے جو حیران کن بے اعتنائی دکھائی ہے وہ اس جماعت کے فکری اور سیاسی زوال کا ٹھوس اظہار ہے۔ اس کی جانب سے اپنائی بے اعتنائی کا تقابل تحریک انصاف کے اس جارحانہ رویے سے ہر صورت کرنا ہوگا جو اپنے ایک نسبتاََ نچلی سطح کے کارکن شہباز گل کے ساتھ ہوئے رویے کی بابت اختیار کئے ہوئے ہے۔ تحریک انصاف بضد ہے کہ حالیہ حراست کے دوران گل صاحب کے ساتھ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا "بدترین تشدد ہوا"۔
تحریک انصاف کا کوئی عام کارکن نہیں بلکہ عمران خان صاحب بذاتِ خود اس کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچ گئے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو انہیں توہینِ عدالت کے الزام میں طلب کرنا پڑا۔ انجام اس مقدمے کا جوبھی ہو تحریک انصاف کا ہر کارکن اس کی بدولت یہ محسوس کررہا ہے کہ اس کی جماعت ریاستی جبر کے خلاف جاری جدوجہد میں اسے تنہا نہیں چھوڑے گی۔ مسلم لیگ (نون) اس کے برعکس کلثوم نواز شریف کے ساتھ ہوئے سلوک کو اقتدار میں لوٹنے کے بعد "حکمرانی" کے نشے میں بھلابیٹھی ہے۔
اس پہلو پر اگر نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت کا کوئی ایک اوررہ نما غور نہ بھی کرے تو کم از کم محترمہ مریم نواز صاحبہ کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ وہ نواز شریف کے علاوہ کلثوم نواز صاحبہ کی بھی دُختر ہیں۔ خود ایک ماں ہوتے ہوئے بھی انہیں اس لاتعلقی کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے جو ان کی جماعت نے ان کی والدہ کی برسی کے دن اپنایا ہے۔ اس کے سوا کچھ اور لکھنے کو دل آ مادہ نہیں ہورہا۔