ٹرمپ نے چند ٹویٹس لکھے۔ شام کے مسائل سے ان کے ذریعے خود کو لاتعلق بنالیا۔ ترکی کی افواج اب 5سال سے خانہ جنگی کا شکار ہوئے شام کے شمال مشرقی شہروں میں داخل ہوگئی ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں وہاں سے عام افراد اپنے گھروں کو چھوڑ کر پناہ کی تلاش میں نامعلوم منزلوں کی جانب بھاگ رہے ہیں۔ انسانی المیوں کی کئی داستانیں جنم لے رہی ہیں۔ "عالمی ضمیر"ان کے بارے میں ہرگز پریشان نظر نہیں آرہا۔ دُنیا کے تقریباََ ہر ملک کو اس کی اپنی مشکلا ت نے پریشان کررکھا ہے۔ یورپ میں جرمنی اور فرانس جیسے طاقت ور ترین ممالک بھی انتشار وخلفشار کا شکار ہیں۔ برطانیہ کو یورپی یونین سے علیحدگی کی اذیت سے نجات کی راہ نظر نہیں آرہی۔
دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد چند بنیادی اصولوں پرمبنی ایک "عالمی نظام" قائم ہوا تھا۔ اس کی بدولت انسانی جان کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے بنیادی انسانی حقوق اور آزادیٔ رائے وغیرہ کے احترام کی روایات متعارف ہوئیں۔ بتدریج یہ روایات اب معدومیت کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ منافقانہ ہی سہی مگر ان "اصولوں " پرمبنی "عالمی نظام" کی کمزوری نے مودی سرکار کو بھی یہ حوصلہ بخشا کہ وہ 80 لاکھ کشمیریوں کو دیگر انسانوں سے موبائل فونز اور انٹرنیٹ کے ذریعے رابطے کی ان تمام سہولیات سے محروم کردے جو دُنیا کے پسماندہ ترین علاقوں میں بھی میسر ہیں۔ مقبوضہ کشمیر دورِ حاضر کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل ہوچکا ہے۔ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ اس کے بارے میں دُنیا تو کیا کشمیر کو برسوں سے اپنی "شہ رگ" قرار دینے والے بھی زیادہ پریشان نظر نہیں آرہے۔
مولانا فضل الرحمن کا اعلان کردہ لانگ مارچ زیر بحث ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہوئی "تقریر" کے چرچے ہیں۔ چین کا ایک اور دورہ بھی ہوگیا ہے۔ ایک اور پھیرا اب سعودی عرب کا بھی لگایا جائے گا۔ دریں اثناء میرے اور آپ جیسے تن خواہ داروں کو اطلاع یہ دی گئی ہے کہ ہمارے گھروں کو فراہم ہوئی بجلی کے فی یونٹ نرخ میں ایک روپے 78 پیسے کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ مذکورہ اضافے کی اطلاع فقط ایک پریس ریلیز کے ذریعے دی جاتی ہے۔ اس اضافے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی اس کی تفصیلات بتانے کیلئے حکومت پر کوئی دبائو نہیں۔ میڈیا کے لئے اہم ترین بلکہ یہ دریافت کرنا ہے کہ نون کے لاحقے والی مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی مولانا کے دھرنے میں دل وجان سے شریک ہوں گی یا نہیں۔ حکومتی ترجمان دریں اثناء "آکے دکھاں تے سہی" والی تڑیاں لگانے میں مصروف ہیں۔ ٹی وی سکرینوں پر اس حوالے سے تماشہ جاری ہے۔
تماشے کی لذت میں کسی کو احساس ہی نہیں کہ پاکستان کا جدید ترین اور صاف ستھرا شہر مشہور ہوئے اسلام آباد میں ڈینگی کا خوف کیا قیامت دکھارہا ہے۔ کسی اور کو دوش کیوں دوں۔ ذاتی طورپر مجھے اس وباء کی اہمیت کا احساس آج سے دو ہفتے قبل ہوجانا چاہیے تھا۔ میرے ڈرائیور کی بچی درد کی اذیت سے ہارکر ہر ی پور کے ایک گائوں سے اسلا م آباد آگئی۔ راولپنڈی کے ایک سرکاری ہسپتال میں اس کے ٹیسٹ ہوئے تو پیٹ میں پتھری کی نشان دہی ہوئی۔ اسے نکالنے کے لئے آپریشن کی تاریخ بھی دے دی گئی۔ یہ آپریشن مگر ہو نہیں پایا کیونکہ ہسپتال کے ہر بستر پر ڈینگی کے مارے دو سے زیادہ مریض لیٹے ہوئے تھے۔
ملازموں کو میں، میری بیوی اور بچے اپنے گھر کے اراکین کی طرح سمجھتے ہیں۔ ڈرائیور کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے میں نے اور میری بیوی نے اپنے خرچے سے رقم نکالی۔ اس کی بچی کا آپریشن ایک پرائیویٹ ہسپتال سے کروادیا اور مطمئن ہوگئے۔
میرے اندر موجود صحافی اگر اب بھی زندہ ہوتا تو ڈرائیور کی مصیبت جان کر راولپنڈی اور اسلام آباد کے ہسپتالوں کا چکرلگاتا۔ تھوڑی تحقیق کے بعد آپ کو اس کالم کے ذریعے یہ اطلاع دیتا کہ سرکاری ہسپتالوں میں اوسطاََ کتنے لوگ ڈینگی بخار کی تصدیق کے لئے روزانہ آرہے ہیں۔ اس تعداد میں سے کتنے فی صد اس مرض میں مبتلا پائے گئے۔ ان میں سے کتنے فی صد کو ہسپتال میں داخل کرنا پڑا۔ داخل کئے مریضوں میں سے کتنے فی صد بالآخر اس بخار کی وجہ سے لقمہ اجل بن گئے۔ اپنے گھر تک محدود ہوا میں ٹرمپ کے ٹویٹس کے بارے میں دانشوری بگھارتا رہا۔ مولانا فضل الرحمن کے اعلان کردہ لانگ مارچ کے بارے میں بھی اپنے "گرانقدر" خیالات پیش کرتا رہا۔
انسانی جان کو لاحق خطرات نے مجھے آج سے چاردن پہلے بھی متحرک نہیں کیا۔ ہمارے خانساماں اور برسوں کے ملازم کی دس سالہ بچی کو کئی روز سے تیز بخار تھا۔ میری بیوی اصرار کرتی رہی کہ وہ ڈینگی میں مبتلا بھی ہوسکتی ہے۔ خانساماں مگر ٹوٹکوں سے شفاء ڈھونڈتارہا۔ بالآخر اس پر تقریباََ چیختے ہوئے میں نے اسے اپنے ڈرائیور سمیت اسلام آباد کے پمز ہسپتال بھیجا۔ اسے ڈاکٹر سے تشخص کی خاطر جو ٹوکن ملا اس کا نمبر 610 تھا۔ اسے معلوم یہ بھی ہوا کہ ابھی تک فقط 200 مریض بھگتائے گئے ہیں۔ اس کی باری شاید دو یا تین بجے آئے گی۔ وہ گھر لوٹ آیا کیونکہ بقول اس کے اسے ہمارے لئے لنچ تیار کرنا تھا۔ اپنی جیب سے رقم دے کر میں نے اسے ایک پرائیویٹ لیبارٹری میں بھجوادیا۔ شام کو جو رزلٹ آیا اس میں ڈینگی کے اثرات نمایاں تھے۔ پمز کی ایمرجنسی میں بھیجا۔ اب کی بار اسے ٹوکن نمبر61 ملاچند گھنٹوں میں تشخص ہوگئی۔ بچی ڈینگی کی زد میں تھی لیکن اسے ہسپتال میں رکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ بارڈر لائن کیس تھا۔ دوا اور احتیاط سے بچت ہوسکتی تھی۔ شکر کا سانس لے کر میں ٹویٹر دیکھنے میں مصروف ہوگیا۔
اگر میں پیشہ صحافت سے اب بھی مخلص ہوتا تو کم از کم پمز کا چکر ہی لگالیتا۔ اس کی بدولت ایک Sample Survey ہوجاتا۔ یہ خبر مل جاتی کہ صرف ایک ہسپتال میں اوسطاََ کتنے افراد ڈینگی کے خوف کی وجہ سے تشخیص کی خاطر ٹوکن لے کر اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں۔ اس سروے کے بعد تحقیق یہ بھی ہونی چاہیے تھی کہ اسلام آباد جیسے "صاف ستھرے" شہر میں ڈینگی کی وباء کیسے نمودار ہوگئی۔ اس کے تدارک کے لئے ضلعی انتظامیہ نے کون سے ہنگامی اقدامات اٹھائے ہیں۔
اسلام آباد سے قومی اسمبلی کی تینوں نشستوں پر جولائی 2018 کے انتخاب میں تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ اسد عمر جیسے قدآور رہ نما دوسری بار منتخب ہوئے۔ وہ ایک پڑھے لکھے، متحرک اور انتہائی بااثر آدمی ہیں۔ میڈیا میں لیکن وہ جس شہر سے منتخب ہوئے ہیں وہاں پھیلی وباء کے بارے میں فکر مند نظر نہیں آئے۔ خبر ہمیں بلکہ یہ مل رہی ہے کہ عمران خان صاحب ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کے لئے ایک بار پھر انہیں اپنی کابینہ میں اہم ترین وزارت دینا چاہ رہے ہیں۔ وزیر اعظم بھی ڈینگی کے بارے میں زیادہ متفکر نظر نہیں آئے۔ اسلام آباد میں ناداروں کے لئے لنگر کا افتتاح کیا۔ "ریاستِ مدینہ" کے قیام کے لئے وقت اور صبر کا تقاضہ کیا اور چین روانہ ہوگئے۔ وہاں کے سرمایہ داروں سے خطاب کرتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا کہ کاش ان کے پاس بھی چینی صدر جیسے اختیارات ہوتے اور وہ کم از کم 500 پاکستانیوں کو جیل بھیج کر وطنِ عزیز سے کرپشن کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کردیتے۔
500 پاکستانیوں کو جیل بھیجنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم صاحب یہ حقیقت فراموش کرگئے کہ ان کے دورئہ چین سے چند ہی روز قبل ہمارے ملک کے اہم سیٹھوں اور صنعت کاروں سے ان کی اہم ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد فیصلہ یہ ہوا کہ نیب کسی سیٹھ کو اب فوراََ گرفتار نہیں کرے گی۔ اس کے خلاف بدعنوانی کے ضمن میں کوئی شکایات موصول ہوئیں تو ان شکایتوں کو صنعت کار برادری کی جانب سے قائم کردہ ایک کمیٹی کے روبرو رکھا جائے گا۔ "برادری" نے مزید تفتیش ضروری سمجھی تو نیب کو کارروائی کے لئے گرین سگنل دے دیا جائے گا۔
تن خواہ دار اور کم آمدنی والے کا نظر بظاہر وطنِ عزیز میں کوئی والی وارث نہیں ہے۔ اسے یہ بتانے کا تردد ہی نہیں ہوگا کہ بجلی کے نرخوں میں دو روپے کے قریب اضافہ کیوں ہوا اور اسلام آباد پر ڈینگی کی وباء کیوں نازل ہوگئی۔ میں خود یہ کالم لکھنے کے بعد ان دونوں معاملات کو بھول جائوں گا۔ ویک اینڈ کے دوران "عالمی امور" پر نگاہ رکھوں گا تانکہ پیر کی صبح جو کالم چھپے اسے سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ Clicks ملیں۔