پاکستان کی آبادی 23کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ صنعتی اعتبار سے مگر ہم نسبتاََ پسماندہ ہیں۔ کارخانوں کی چمنیوں سے نکلا دھواں دُنیا بھر میں فضا اور ماحول کو جس بے دردی سے تباہ کررہا ہے اس میں ہمارا حصہ ایک فی صد سے بھی کم ہے۔ جدید صنعتی ممالک کی پھیلائی غارت گری مگر ہمارے گلیشئر تباہ کررہی ہے۔ یہ چلن جاری رہا تو آئندہ دس برسوں کے دوران پاکستان میں شدید تر سیلاب آتے رہیں گے۔ نوبت بالآخر ہمارے دریاؤں کے خشک ہونے تک پہنچ سکتی ہے۔ جس کے بعد ہماری زمین غذائی اجناس پیدا کرنے کے قابل ہی نہیں رہے گی۔ ہمارے لئے لہٰذالازمی ہے کہ مسلسل اس امر کی جانب دہائی مچاتے ہوئے دُنیا کی توجہ حاصل کریں۔
عالمی سطح کی توجہ کے حصول کے لئے مگر ہمارے ہاں ایسے دانشور اور لکھاریوں کی ضرورت ہے جنہیں دُنیا اپنے کام کی وجہ سے پہچانتی ہو۔ اس جانب غور کیا تو مجھے ایسے افراد کی نشاندہی میں دل دہلادینے کی حد تک ناکامی کا احساس ہوا۔ گزشتہ کئی برسوں سے ہماری شناخت ایک ایسے ملک کی حیثیت سے ہورہی ہے جو فقط اپنی ایٹمی طاقت کو جدید تر بنانے کی لگن میں مبتلا ہے۔ اس کے علاوہ ہم "جنونی جہادی" بھی تصور کئے جاتے ہیں جن سے نام نہاد "مہذب دنیا" کو خوف محسوس کرنا چاہیے۔
جنرل مشرف 1999ءمیں اقتدار پر قابض ہوئے تو پاکستان کی شناخت ایک "روشن خیال ملک" کی حیثیت سے کروانا چاہی۔ ان کی خواہش کو ذہن میں رکھتے ہوئے کئی اداکاروں نے پاکستان کا "سافٹ امیج" دنیا میں پھیلانے کے لئے چند فلم سازوں کے ساتھ مل کر سرکاری سرپرستی میں خوب دولت کمائی۔ جوفلمیں مگر اس نیت سے تیار ہوئیں دنیا ان سے قطعاََ غافل رہی۔ چند دیوانوں نے اپنے تئیں لوگوں سے قرض لے کر اعلیٰ معیار کی جو دستاویزی یا فیچر فلمیں بنائیں وہ پاکستان میں چلیں تو الزام لگا کہ ایسی تخلیقی کاوشیں پاکستان کو "بدنام" کررہی ہیں۔ اپنی جند بچانے کے چکر میں امکانات سے بھرپور تخلیقی اذہان بنجر ہونا شروع ہوگئے۔
سرمایہ دارانہ نظام یقینا بہت سفاک ہے۔ یہ حقیقت تسلیم کرنے کو بھی آ مادہ نہیں کہ منافع خوری کی ہوس میں دریا خشک اور جنگل ختم ہورہے ہیں۔ اس کے باوجود دنیا بھر میں کئی دردمند اشخاص نہایت لگن سے ہوئی تحقیق کی بدولت جمع کئے اعدادوشمار کی بنیادپربنی نوع انسان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں ثابت قدمی سے خبردار کئے چلے جارہے ہیں۔ ان کی لگن نے لوگوں میں جو شعور اجاگر کیا وہ امریکہ اور یورپ کی حکومتوں اور سیاستدانوں کو مجبور کررہا ہے کہ بڑے صنعت کاروں پر "کاربن ٹیکس"عائد کرے۔ اس کی وجہ سے منافع خور ماحول دوست متبادل ڈھونڈنے کو مجبور ہوجاتیں۔ صنعتی ممالک کی پھیلائی آلودگی کی وجہ سے پاکستان جس انداز سے تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے دنیا اس سے بھی غافل نہیں۔ سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ ہمارا ماحولیات کے حوالے سے "بیانیہ" کس انداز میں مزید توانا بنایا جاسکتا ہے۔
اس پہلو پر غور کیا تو یاد آیا کہ چند دن قبل برطانیہ کے اخبار "گارجین" سے گفتگو کرتے ہوئے ہمارے جواں سال سینیٹر مصطفےٰ نواز کھوکھر نے فضائی آلودگی کے ہاتھوں پاکستان میں پھیلی تباہی کی بات کی تھی۔ ان کی گفتگو سے متاثر ہوکر "گارجین"اخبار کے مدیروں نے سینیٹر مصطفےٰ کھوکھر کو اس موضوع پر تفصیلی مضمون لکھنے کی دعوت دی۔ سینیٹر صاحب نے بہت محنت سے ایک موثر مضمون لکھا جسے مذکورہ اخبار نے نمایاں انداز میں شائع کیا۔
مرتضیٰ بھٹو کی دُختر فاطمہ بھٹو اپنے ناولوں کی وجہ سے عالمی ادب کے قارئین کے لئے ایک معروف نام بن چکی ہےں۔ پاکستان کی وہ واحد لکھاری ہیں جن سے "نیویارک ٹائمز" نے پاکستان میں آئے حالیہ سیلاب کی بابت ایک مضمون لکھوایا اور اسے صفحہ اوّل پر شائع کیا۔ مصطفےٰ کھوکھر اور فاطمہ بھٹو کے لکھے مضامین ہی تاہم دنیا کی توجہ کے حصول کے لئے کافی نہیں۔ ماحولیات کی ان دنوں جو وفاقی وزیر ہیں ان کی سیاست سے ہمیں شاید اختلاف ہوسکتا ہے۔ محترمہ شیری رحمن مگر ان صحافیوں میں نمایاں ترین رہیں جنہوں نے آج سے کم از کم دو دہائیاں قبل بطور مدیر لکھاریوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں پر تفصیلی مضامین لکھنے کو راغب کیا۔ مجھے امید ہے کہ اپنے تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ آج کے انسٹا گرام، ٹک ٹاک، فیس بک اور ٹویٹر سے رغبت کے دور میں نوجوان تخلیق کاروں کی ایک ایسی ٹیم تیار کرسکتی ہیں جو فضائی آلودگی کی وجہ سے ہم پر نازل ہوئی مصیبتوں کے بارے میں دنیا کو مسلسل آگاہ رکھے۔
دنیا کے کئی ممالک میں ایسے ماہرین موجود ہیں جو نہایت دردمندی سے ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نازل ہوئی مصیبتوں کا تدارک ڈھونڈ رہے ہیں۔ ایسے دردمند افراد کی نشاندہی کے بعد ان سے روابط استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان ایسے رضا کاروں کے لئے بارآور تجربہ گاہ ثابت ہوسکتا ہے۔ انہیں اس جانب راغب کرنے کے لئے مگر اس امر کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ وہ ہمارے ہاں آئیں تو ہم انہیں"جاسوس" تصور نہ کریں۔ اپنی روایتی میزبانی سے ان کے دل جیتنے کی کوشش کریں۔
گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے ہاں بارشیں معمول کے برعکس ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ فرض کیا یہ نیا "معمول " بن گیا توہمارے ہاں کئی صدیوں سے رائج ربیع اور خریف کہلاتا سیزن بھی معدوم ہوسکتا ہے۔ ماحولیاتی امور کے جید محقق ہی اس ضمن میں حتمی رائے دے سکتے ہیں۔ ہمیں ان سے رجوع کرنا ہوگا۔ ہمارے ہاں رواں برس کے مارچ میں معمول کے برعکس جو گرمی رہی اس نے گندم کے دانوں کو سکھادیا۔ چین کے چند بڑے صوبوں میں بھی ایسا ہی عالم رہا۔ اس کا سب سے بڑا دریا کئی مقامات پر معمول کی بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے سوکھ چکا ہے۔ اس کی وجہ سے دریاؤں کے ذریعے تجارت نہیں ہوپارہی۔ بہتے پانی سے بجلی تیار کرنے والے ڈیم بھی کام نہیں کررہے اور کئی شہروں میں اس کی وجہ سے لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ چین میں زراعت کے موضوع پر کافی تحقیق کی جارہی ہے۔ پاکستان کا دیرینہ دوست ہوتے ہوئے وہ اپنے ہاں ہوئی تحقیق کے نتائج ہمارے ساتھ شیئر کرسکتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی زرعی تحقیق کے نام پر کئی ادارے 1960ءکی دہائی سے کام کررہے ہیں۔ مجھے ہرگز خبر نہیں کہ ان سے وابستہ کتنے افراد ممکنہ غذائی بحران کے تدارک کے ضمن میں تحقیق پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ یہ موضوع ہنگامی بنیادوں پر کامل توجہ کا طلب گار ہے۔