عمر کے آخری حصے میں داخل ہوجانے کے بعد مجھ ایسے صحافی "سینئر تجزیہ کار" بن جاتے ہیں۔ ہماری اکثریت اپنے جونیئرز کو کسی خاطر میں نہیں لاتی۔ اس زعم میں مبتلا ر ہتی ہے کہ ہماری نسل نے بہت مشقت اور لگن کے بعد تھوڑا نام کمایا تھا۔ ہمارے جونیئر ویسی مشقت سے گریز کرتے ہیں۔ سارا دن سوشل میڈیا پر نگاہ رکھتے ہوئے "چوندی چوندی" اچک لیتے ہیں۔ ان کی اکثریت حکمرانوں، اپوزیشن جماعتوں اور ریاستی اداروں کی جانب سے واٹس ایپ کے ذریعے فراہم کردہ "ٹکرز" سے ہی اپنی "خبر" بنالیتی ہے۔
ذاتی طورپر میں اس سوچ سے متفق نہیں ہوں۔ کئی طبی وجوہات کی بنا پر گھر تک محدود ہونے سے قبل میں پارلیمان کے ہر اجلاس کی کارروائی دیکھنے کے لئے گاڑی چلاکر قومی اسمبلی اور سینٹ جاتا رہا ہوں۔ خبر کی تلاش میں مجھے وہاں کئی نوجوان ویسے ہی مشقت اور لگن کا بوجھ اٹھاتے نظر آتے ہیں جو میری جوانی کا مقدر رہی تھیں۔ بدقسمتی سے ان نوجوانوں کی اکثریت آج بھی اخبارات کے لئے کام کرتی ہے۔ بے تحاشہ معاشی مشکلات کے گرداب میں پھنسے ہونے کے باوجود وہ گمنام رہتے ہوئے بھی ہمت نہیں ہارے ہیں۔ ربّ کریم سے ان کے لئے مزید توانائی کی فریاد کرتا ہوں۔
نہایت لگن سے خبر کی تلاش کے حوالے سے گزشتہ چند برسوں سے شہباز رانا بھی بہت مشہور ہوا ہے۔ اپنے اخبار کے لئے لکھنے کے علاوہ اب ایک ٹی وی شو کا میزبان بھی ہے۔ خود کو اس نے معاشی معاملات کو ساد ہ ترین زبان میں لوگوں کے روبرو لانے کی عادت اپنارکھی ہے۔ سنسنی پھیلانے سے وہ ہمیشہ گریز کرتا ہے۔ عمران حکومت کے دنوں سے مگر مالیاتی امور کے ذمہ دار اس سے خارکھاتے ہیں۔ انٹیلی جنس بیورو کو اکثر یہ حکم ملتا ہے کہ اس کے "ذرائع" کا سراغ لگایا جائے۔ چند سرکاری افسروں کو اس کی وجہ سے اپنے وزراءسے طعنے بھی سننا پڑتے ہیں۔ کئی برسوں تک میں نے ایسی ہی صورت حال کا سامنا کیا ہے۔ حکومتیں سمجھ ہی نہیں سکتیں کہ "جاسوسی" کے جدید ترین آلات وہتھکنڈے بھی "خبر" ڈھونڈنے کو بے چین رپورٹر کے تجسس کا توڑ نہیں۔
بہرحال منگل کی صبح یہ کالم لکھنے سے قبل گھر میں آئے اخبارات کے پلندے پر سرسری نگاہ ڈالی تو شہباز رانا کی دی ایک "خبر" کو تفصیل سے پڑھنے کو مجبور ہوا۔ اس کا دعویٰ ہے کہ پیر کے روز شہباز شریف صاحب کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا تھا۔ مذکورہ اجلاس کے دوران وزیر اعظم کوئی ایسی حکمت عملی ڈھونڈنا چاہ رہے تھے جس کی بدولت موٹرسائیکل اور رکشہ چلانے والوں کو نسبتاََ سستے داموں پیٹرول فراہم کرنا ممکن ہوسکے۔ آسان ترین مگر فطری ترکیب یہ ہی نظر آئی کہ بڑی گاڑیاں استعمال کرنے والوں کے لئے پیٹرول کی قیمت میں مزید اضافہ کردیا جائے۔ مجوزہ اضافے سے جو "اضافی رقم" حکومت کو ملے اسے موٹرسائیکل اور رکشہ استعمال کرنے والوں کے لئے نسبتاََ سستے داموں پیٹرول فراہم کرنے کے لئے استعمال کیا جائے۔
مذکورہ "خبر" لکھتے ہوئے شہباز رانا کو یہ خدشہ بھی لاحق رہا کہ آئی ایم ایف غالباََ مذکورہ تجویز پر اعتراض نہ کرے۔ عمران خان صاحب کی تحریک انصاف مگر اسے مسلم لیگ (نون) کی جانب سے "ووٹ خریدنے" والا حربہ قرار دے سکتی ہے۔ عدالتوں کے روبرو یہ سوال بھی اٹھایا جاسکتا ہے کہ موٹرسائیکل اور رکشہ چلانے والوں کو "سیاسی مقا صد" کے لئے نسبتاََ سستے داموں پیٹرول کیوں بیچاجائے۔ ہمارا آئین جبکہ شہریوں کے مابین "مساوات" کا تقاضہ کرتا ہے۔
فرض کیا شہباز شریف کے روبرو جو تجویز رکھی گئی ہے وزیر اعظم اگر اس پر عملدرآمد کو ڈٹ گئے تو تحریک انصاف غالباََ وہی الزام لگائے گی جو شہباز رانا کے ذہن میں آیا ہے۔ عدالتوں کا ان دنوں رویہ بھی مجھ قنوطی کو یہ سوچنے کو اکساتا ہے کہ "وہ کیا لکھیں گے جواب میں"۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے تحریری آئین میں وعدہ ہوئی "مساوات" کے بارے میں سوچتا ہوں تو پنجابی محاورے والا "ہاسا(قہقہہ)" نکل جاتا ہے۔
شہباز رانا کی خبر پڑھتے ہوئے گزشتہ برس کے اپریل کے وہ دن بھی یاد آگئے جب عمران حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کرنے کے بعد شہباز حکومت برسراقتدار آئی تھی۔ یہ کالم گواہ ہے کہ میں تسلسل سے مذکورہ تحریک اعتماد پیش کرنے کے خلاف تھا۔ وہ کامیاب ہوگئی تو تواتر سے اصرار کرتا رہا کہ فوری طورپر نئے انتخاب کی جانب بڑھاجائے۔ حکومت مل جانے کے بعد سیاستدان مگر "سب اچھا ہوجائے گا" والے وہم میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ انہیں یہ گماں لاحق ہوجاتا ہے کہ ان کے "زرخیز" ذہن مشکل ترین مسائل کا حل ڈھونڈ سکتے ہیں۔
مفتاح اسماعیل ان دنوں وزیر خزانہ تھے۔ ان کے "اعزاز" میں کھانے کی چند دعوتیں ہوئیں۔ پرانے واسطوں کی وجہ سے میں گوشہ نشین بھی ان میں سے کچھ دعوتوں میں مدعو ہوا۔ مفتاح اسماعیل دیانت داری سے فکر مند تھے کہ پیٹرول کے نرخ ہر صورت بڑھانا پڑیں گے۔ وہ نہ بڑھے تو پا کستان کو دیوالیہ سے روکنا ناممکن ہوجائے گا۔ اصولی طورپر موصوف کی سوچ درست تھی۔ دنیا سے مہنگا تیل خرید کر سرکاری خزانے سے ادا ہوئی امدادی رقم کے ذریعے عوام کو نسبتاََ سستے داموں تیل بیچنا معاشی خودکشی کے مترادف ہے۔ ہمارے ایک "برادر" ملک کے سربراہ نے شہباز شریف صاحب کے ساتھ ہوئی ایک ملاقات کے دوران اس کی بابت انتہائی سفارتی اور مہذب زبان میں ذکر بھی کیا تھا۔ بہت مہارت سے اس جانب توجہ دلائی کہ تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود ان کے ہاں پیٹرول کی جو قیمت صارفین سے وصول کی جاتی ہے وہ تیل نکالنے اور اسے پیٹرول پمپ تک پہنچانے کا "خرچہ"ہر صورت وصول کرتی ہے۔ اس کے علاوہ پیٹرول پمپ کے مالک کے لئے "مناسب منافع" بھی یقینی بنایا جاتا ہے۔
منطقی اعتبارسے درست نظر آتی حقیقت کا بھی تاہم ٹھوس تناظر میں جائزہ لینالازمی ہوتا ہے۔ پاکستان کی فی کس آمدنی اس ضمن میں کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ محدود آمدنی کا حامل ہوتے ہوئے میں اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرسکتا کہ ہمارے ہاں 25سے 30ہزار روپے ماہوار کمانے والے بے تحاشہ افراد نے موٹرسائیکل خریدرکھے ہیں۔ ان کی اکثریت "قسطوں" پر خریدی جاتی ہے۔ رکشہ چلانے والا بھی عموماََ یہ راستہ اختیار کرتا ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ اگر 25سے 30ہزار روپے ماہوار کمانے والا اپنی موٹرسائیکل کی قسط ادا کرنے کے بعد اسے چلانے کے لئے پیٹرول بھی ان ہی داموں پر خریدے گا جو قیمتی گاڑیوں کے مالک ادا کرتے ہیں تو اس کے پاس بجلی کا بل ادا کرنے کے بعد اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلانے کے لئے کتنے پیسے بچیں گے؟ ایسے افراد کی اکثریت کرائے پر لئے کمروں میں رہتی ہے۔ اس پہلو کو بھی ذہن میں رکھیں تو موٹرسائیکل والا اپنے بچوں کو بالآخر درختوں سے اتارے پتے کھلانے ہی کو مجبور ہوجائے گا۔
جو دعوتیں ہورہی تھیں ان کے دوران میرے سمیت کئی نیک دل ساتھیوں نے مذکورہ سوالات مفتاح اسماعیل اور چند وزراءکے روبرو تواتر سے اٹھائے۔ چند دن گزرجانے کے بعد ہمیں"حوصلہ" دیا گیا کہ موٹرسائیکل اور رکشہ چلانے والوں کو نسبتاََ سستے داموں پر تیل فراہم کرنے کے راستے بہت خلوص سے ڈھونڈے جارہے ہیں۔ دل خوش فہم نے مذکورہ وعدے پر اعتبار کیا۔ گیارہ ماہ تاہم گزرچکے ہیں۔ آ ج بھی موٹرسائیکل اور رکشہ چلانے والا پیٹرول کی وہی قیت ادا کررہا ہے جو لاکھوں روپے روز کمانے والا پیٹرول پمپ پر ادا کررہا ہے۔ "مساوات" کا جھانسہ برقرار ہے۔ یہ "مساوات" مگر انتہائی سفاکانہ اور غریب کش ہے۔ ہمیں اس "مساوات" سے نجات کی ترکیب ہر صورت دریافت کرنا ہوگی۔