یہ بات اب کھل کر سامنے آرہی ہے کہ عمران خان صاحب اپنے لانگ مارچ کے اختتامی دنوں کو ان دنوں کے قریب لانا چاہ رہے ہیں جب ہمارے ہاں اہم ترین "تعیناتی" کی بابت حتمی فیصلہ ہونا ہے۔ اس تناظر میں ان کے ذہن میں ایک نام بھی ہے جسے وہ ہر صورت اس مقام پر فائز ہوا دیکھنا نہیں چاہ رہے۔ پیر کی شام منڈی بہاؤالدین میں موجود حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ممکنہ تعیناتی کو اعلیٰ عدالتوں کے روبرو رکھ کر متنازعہ بنانے کے ارادے کا اظہار بھی کردیا ہے۔ محاورے والی "ناک" کو اگرچہ ہاتھ گھماکر پکڑا ہے۔
نظر بظاہر وہ اس امر پر حیرت کا اظہار کررہے تھے کہ وزیر اعظم شہباز شریف متوقع تعیناتی کے لئے ایک "بھگوڑے اور مجرم" سے "مشاورت" کے طلب گار ہوئے۔ یوں ان کی دانست میں اس قانون کی مبینہ طورپر خلاف ورزی ہوئی جو منتخب وزیر اعظم کو اہم ریاستی فیصلے "خفیہ" رکھنے کا پابند بناتی ہے۔ مذکورہ قانون کے ذکر نے خواجہ آصف صاحب جیسے دبنگ وزیر کو بھی مدافعانہ رویہ اپنانے کو مجبور کردیا۔ مصر رہے کہ گزشتہ ہفتے لندن میں مقیم سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ہوئی ملاقاتوں کے دوران تعیناتی کا مسئلہ زیر بحث ہی نہیں آیا۔
جس تعیناتی کا ذکر ہورہا ہے اس کی متوقع تاریخ کے قریب ہماری سیاسی تاریخ میں 1990ءکی دہائی سے ضرورت سے زیادہ ہلچل شروع ہوجاتی ہے۔ اگست 1991ءمیں جنرل اسلم بیگ کو ریٹائر ہونا تھا۔ اپنی ریٹائرمنٹ کے قریب مگر وہ ایسے بیانات دینا شروع ہوگئے جو یہ تاثر پھیلاتے رہے کہ سیاسی اور عسکری قیادت صدام حسین کے عراق کے کویت پر ہوئے حملے کے بعد امریکی رویے کی بابت یکسو نہیں۔ ان کے بیانات عین ان دنوں منظر عام پر آئے جب وزیر اعظم نواز شریف مختلف عرب ممالک کے طوفانی دورے کرتے ہوئے کسی "امن فارمولے" کی تلاش میں تھے۔ بیگ صاحب کے بیانات نے کھلبلی مچائی تو حکومت پریشان ہوگئی۔ بالآخر متوقع تاریخ سے تین ماہ قبل ہی جنرل آصف نواز جنجوعہ مرحوم کو بیگ صاحب کا جانشین نامزد کردیا گیا۔ تعیناتی کے حوالے سے مچایا شوروغوغا وقتی طورپر تھم گیا۔ اس ضمن میں ہرتین برس بعد اُبلتی ہلچل کی روایت مگر ختم نہ ہوئی۔
مذکورہ ہلچل کو مہمیز لگانے ہم صحافی بھی اپنی اوقات سے کہیں بڑھ کر حصہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 1980ءکی دہائی سے ہمارے ہاں"دفاعی تجزیہ نگار" نامی صنف بھی ایجاد ہوگئی تھی۔ اس کے نمائندہ صحافی "ان" کے بہت قریب تصور ہوتے تھے۔ میں ان دنوں ہمہ وقت بے چین اور متحرک رپورٹر ہوا کرتا تھا۔ سفارتی تقاریب میں بھی تواتر سے جانا پیشہ ور ذمہ داریوں میں شامل تھا۔ پیشہ وارانہ فرائض کی بدولت شناساؤں کی بھاری بھر کم تعدا د سے ملاقاتیں بھی ہوتی تھیں۔ ان سے گفتگو کے بعد "دفاعی تجزیہ نگاروں" کے مضامین پڑھتا تو اکثر پنجابی محاورے والا "ہاسا" چھوٹ جاتا۔
اپنے صحافتی کیرئیر کے پہلے دن سے مجھے اپنے کام سے کام رکھنے کی عادت ہے۔ کسی اور کے "چھابے" میں ہاتھ نہیں ڈالتا۔ عسکری امور اور بیرکوں کی ثقافت سے میں قطعاًناآشنا ہوں۔ فقط سیاسی امور پر رپورٹنگ تک محدود رہتے ہوئے مجھے جون 1991ءکے آغاز میں ٹھوس اشارے ملنا شروع ہوگئے تھے کہ جنرل بیگ صاحب کا "جانشین" نامزد ہونے والا ہے۔ صحافیانہ تجسس نے "اشاروں" کو حقیقی مواد فراہم کردیا تو "دی نیشن" میں اس کی بابت ایک کالم میں ذکر بھی کردیا۔ میری دی "خبر" بالآخر درست ثابت ہوگئی تو بہت داد ملی۔ اس داد نے مگر مجھے خود کو "دفاعی تجزیہ نگار" ثابت کرنے کو نہیں اُکسایا۔ سیاسی اور خارجہ امور پر ہی توجہ مرکوز رکھی۔ اس کے بعد بھی جب تعیناتی کے سوال پر افواہوں اور قیاس آرائیوں کا طوفان اٹھتا ہے تو اس میں"میلا(میرا) بھی تو ہے" والا حصہ ڈالنے سے اجتناب برتتا ہوں۔
بارہا اس کالم میں یاد دلاتا رہتا ہوں کہ ہمارے ہاں ایک "تحریری" آئین موجود ہے۔ اس کی ہر شق پر سیدھے سبھاؤ عمل ہو تو قیاس آرائیوں کی گنجائش ڈھونڈنا ناممکن ہوجائے گا۔ آئین کو ہمارے ہاں مگر موم کی ناک بنادیا گیا ہے۔ اس کی بدولت تعیناتی جیسا حساس ترین موضوع بھی تھڑوں پر ہوئی گفتگو کی طرح زیر بحث آنا شروع ہوجاتا ہے۔ جب نام نہاد "معتبر اور جید"اخبارات بھی اس میں اپنا حصہ ڈالنا شروع ہوجائیں تو دنیا کو یہ پیغام جاتا ہے کہ "تعیناتی" کا سوال سیاسی اور عسکری قیادت کے مابین بدگمانیوں کو جنم دے رہا ہے۔ یہ پیغام ہمارے سیاسی استحکام کو ہچکولوں کی زد میں آیا دکھاتا ہے۔ ایسی فضا میں عالمی معیشت کے نگہبان ادارے اور برادر ملک بھی "کون بنے گا کروڑ پتی" کے انتظار میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
واضح انداز میں لکھے "تحریری" آئین کے ہوتے ہوئے ایسی فضا کاپیدا ہونا پریشان ہی نہیں شرمسار کردینے والا عمل بھی ہے۔ اس کے تدارک کے لئے لازمی ہے کہ متوقع تعیناتی کو ضدی بچوں کی طرح "وقت آنے پر طے کردیا جائے گا" کا ورد کرتے ہوئے ٹالنے کے بجائے وزیر اعظم آئین کے آرٹیکل 243کے تحت میسر اختیار کو بروئے کار لانے کے عمل کا آغاز کریں۔ وزارت دفاع سے متعلقہ "سمری" کی درخواست کریں۔ "سمری" وصول ہونے کے بعد اپنی ترجیح کا اعلان کردیں اور آگے بڑھیں۔
مزید تاخیر قیاس آرائیوں کو "سازشی مواد" فراہم کرتی رہے گی۔ سوشل میڈیا کی بدولت پھیلائے ہیجان کی علت میں مبتلا ہوئے اذہان ان قیاس آرائیوں سے اپنی پسند کے نتائج نکالتے ہوئے معاملے کو مزید الجھائیں گے۔ قیاس آرائی کا چسکہ یقینا انسانی فطرت میں شامل ہے۔ اس کی تمنا کرتے ہوئے مگر یہ بھی یاد رکھیں کہ وطن عزیز اس وقت سیاسی ہی نہیں شدید معاشی بحران کی زد میں بھی ہے۔
اس بحران کو سندھ اور بلوچستان میں ہوئی ریکارڈ ساز بارشوں کی وجہ سے امڈے سیلاب نے گھمبیر تر بنادیا ہے۔ عالمی بینک بھی اعتراف کررہا ہے کہ حالیہ سیلاب 80سے 90لاکھ پاکستانیوں کو خط غربت کے نیچے پھینک دے گا۔ غریب ہمارا پہلے ہی غریب تر ہورہا ہے۔ ان کی تعداد میں تقریباََ ایک کروڑ افراد کے اضافے کی خبر سے ہمارے دل دہل جانا چاہیے تھے۔ ہم مگر تعیناتی کے حوالے سے "اندر" کی خبر ڈھونڈنے میں مصروف ہیں۔