فقط عاشقان عمران خان ہی نہیں بلکہ وہ صحافی بھی جو ہیجانی تقسیم کے اس دور میں خود کو "غیر جانبدار" ثابت کرنے کو مضطرب رہتے ہیں متفقہ طورپر یہ طے کرچکے ہیں کہ آئندہ انتخابات جب بھی ہوئے عمران خان صاحب ان کی بدولت دو تہائی اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم کے منصب پر لوٹ آئیں گے۔ ان کی گج وج کے ساتھ اقتدار میں واپسی کا سفر آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے یعنی پنجاب سے ہوگا۔ وہاں کی اسمبلی تحلیل ہوچکی ہے۔ ہمارا آئین متقاضی ہے کہ کسی بھی اسمبلی کی تحلیل کے بعد "نوے دنوں کے اندر" اس کی بحالی کے لئے انتخاب یقینی بنائے جائیں۔ عمران مخالف جماعتیں مذکورہ تقاضے کو غچہ دینے کے لئے ہر ممکن حربہ استعمال کررہی ہیں۔
ان جماعتوں کو مزید خوفزدہ کرنے کو سروے کے طوماربھی ہیں۔ عوامی رائے جانچنے کے سائنسی انداز میں دعوے دار کئی ادارے بتارہے ہیں کہ تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدواروں میں سے کم از کم 230بآسانی پنجاب کے لئے منتخب ہوجائیں گے۔ مسلم لیگ (نون) کو مذکورہ سرویز میں سے کوئی ایک بھی پچاس سے زیادہ نشستیں دینے کو آمادہ نہیں۔ یوں اس تاثر کی مسلسل تصدیق ہورہی ہے کہ مسلم لیگ (نون) انتخابات سے راہ فرار ڈھونڈنے کے راستے تلاش کررہی ہے۔ اسے لگام ڈالنے کو سپریم کورٹ لہٰذا ازخود متحرک ہوا۔
میری دانست میں 4/3یا 3/2کے "فیصلے" میں الجھنا وقت کا بچگانہ زیاں ہے۔ "فیصلہ " وہی ہوتا ہے جسے چیف جسٹس حتمی تصورکریں۔ اس تناظر میں غور کریں تو سپریم کورٹ فی الوقت "بحیثیت ادارہ" رواں برس کی 14مئی کو پنجاب اسمبلی کے لئے انتخابات کروانے کا حکم صادر کرچکا ہے۔ اس فیصلے پر عملدرآمد سے گریز کے لئے جو جواز تراشے گئے ان کے توڑ کے لئے بھی عزت مآب چیف جسٹس صاحب ازخود متحرک ہوئے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کوحکم دیا کہ وہ مذکورہ انتخاب یقینی بنانے کے لئے الیکشن کمیشن کو 21ارب روپے فراہم کرے۔ یہ کالم لکھنے سے قبل خبر آئی ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے مطلوبہ رقم کا بندوبست کرلیا ہے۔ وہ مگر الیکشن کمیشن کے کھاتے میں ابھی تک جمع نہیں ہوئی۔ سٹیٹ بینک سے رقم الیکشن کمیشن کے اکائونٹ میں ٹرانسفر یا منتقل کرنے کے لئے وزارت خزانہ کے حکم کا انتظار ہے جو ہچکچاہٹ برتی جارہی ہے اس کی وجہ قومی اسمبلی کا وہ فیصلہ ہے جس نے الیکشن کمیشن کی جانب سے مانگی رقم مہیا کرنے سے "انکار" کردیا تھا۔
نصابی اعتبار سے جائزہ لیں تو دنیا بھر کے جمہوری ممالک میں عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوئی قومی اسمبلی کی "منظوری" کے بغیر کوئی بھی حکومت ایک ٹکا بھی خرچ نہیں کرسکتی۔ "ہنگامی صورتحال" میں تاہم کسی مالیاتی سال کے لئے منظور ہوئے بجٹ کو نظرانداز کرتے ہوئے کسی ادارے کو "اضافی رقم" فراہم کرنے کی روایات بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ اس تناظر میں جو رقم خرچ ہوتی ہیں انہیں آئندہ سال کے لئے تیار ہوئے بجٹ کی قومی اسمبلی سے منظوری کے عمل کے دوران "سپلیمنٹری(اضافی)گرانٹ(رقوم)" پکارتے ہوئے منظور کروالیا جاتا ہے۔ اب کی بار مگر قومی اسمبلی نے آئندہ بجٹ کا انتظار نہیں کیا۔ جو رقم الیکشن کمیشن کو درکار تھی اسے سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود حکومت نے "مالیاتی بل" کے ذریعے فراہم کرنا چاہا۔ جو دستاویز اس ضمن میں تیار ہوئی قومی اسمبلی نے مگر اس کی منظوری نہیں دی۔ "مالیاتی بل" مسترد ہونے کے بعد سٹیٹ بینک اگر سپریم کورٹ کے اطمینان کے لئے الیکشن کمیشن کو 21ارب روپے منتقل کردے تو نصابی اعتبارسے یہ عمل "بے ضابطہ" ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ سپریم کورٹ کو اب 14مئی کے دن پنجاب اسمبلی کے انتخابات یقینی بنانے کے لئے مزید متحرک ہونا پڑے گا۔ دیکھتے ہیں قطرے کے گوہر ہونے تک کونسے حیران کن معاملات رونما ہوں گے۔
آج کے کالم کا آغاز ویسے بھی میں نے عمران خان صاحب کی دو تہائی اکثریت کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے منصب پر واپسی کے ذکر سے کیا تھا۔ فیلڈ میں جانے کی توانائی سے محروم ہوا مجھ ایسا رپورٹر سرویز کی بدولت دکھائے نقشوں کی تصدیق یا تردید کے قابل نہیں رہا۔ صحافیانہ تجسس مگر اب بھی سیاسی منظر نامے پر رونما ہوتے واقعات کا گہری نظر سے جائزہ لینے کو اُکساتا ہے۔ آزادکشمیر میں نئے وزیر اعظم کی "تلاش" ان دنوں صحافیانہ تجسس کی انگیخت کا اصل سبب ہے۔
آزادکشمیر میں عمران حکومت کے دوران ہوئے انتخابی عمل نے سردار تنویر الیاس نامی کاروباری اعتبار سے نہایت کامیاب اور مالدار شخص کو مشہور کیا۔ وہ "اچانک" سیاسی اکھاڑے میں اترے۔ باغ سے آزادکشمیر اسمبلی کی ایک نشست سے منتخب ہوئے۔ ان کے انتخاب کے بعد امید بندھی کہ موصوف کا اگلا پڑائوآزادکشمیر کی وزارت عظمیٰ کا دفتر ہوگا۔ ابتداََ مگر عمران خان نے "ہما" قیوم نیازی کے سربٹھادی۔ وہ مگر زیادہ عرصہ چل نہیں پائے۔ بالآخر سردار تنویر اپنی "منزل"تک پہنچ گئے۔ انہیں مگر وہاں کی اعلیٰ ترین عدالتوں نے وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لئے "نااہل" ٹھہرادیا ہے۔ "توہین عدالت" کے الزام کے تحت فارغ اور نااہل ہوئے سردار صاحب کی جگہ اب نیاوزیر اعظم درکار ہے۔
نظر بظاہر اس ضمن میں کنفیوژن کی گنجائش موجود ہی نہیں تھی۔ تحریک انصاف کو وہاں کی اسمبلی میں بھی مناسب اکثریت میسر ہے۔ تحریک انصاف کے قائد اپنی جماعت سے منتخب ہوئے کسی بھی رکن اسمبلی کو نامزد کردیتے تو وہ بآسانی نیا وزیر اعظم منتخب ہوجاتا۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔ تحریک انصاف میں"پھوٹ" نمودارہوگئی۔ بیرسٹرسلطان کو مذکورہ پھوٹ کا ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔ موصوف ان دنوں آزادکشمیر کے "صدر ریاست" ہیں۔ اقتدار کے کھیل کے پرانے اور کائیاں کھلاڑی بھی ہیں۔ وہ یقینا یہ ا مید باندھ کر ہی تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہوں گے کہ رکن اسمبلی منتخب ہونے کے بعد عمران خان صاحب انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھادیں گے۔ وہ مگر نظرانداز ہوئے اور "صدر ریاست" بناکر"کھڈے لین" لگادئے گئے۔ اب "حساب برابر" کرتے نظر آرہے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ عمران خان صاحب کے بجائے "صدر ریاست" نئے وزیر اعظم کی "نامزدگی" کریں۔ اپنی خواہش کی تکمیل کے لئے انہوں نے آزادکشمیر اسمبلی میں عددی اعتبار سے تحریک انصاف کے بعد دوسری بڑی جماعت یعنی پیپلز پارٹی کی حمایت بھی حاصل کرلی۔ "بندے" اس کے باوجود مگر "پورے" نہیں ہورہے تھے۔ مجبوری میں نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ سے رجوع کرنا پڑا۔ اس جماعت کی "مقامی" قیادت سلطان محمود کے نامزد کردہ شخص کی "غیر مشروط" حمایت کو رضا مند ہوگئی۔ مذکورہ رضا مندی نے میری اطلاع کے مطابق نواز شریف کو حیران کیا۔ حقائق کا "کھوج" لگانے انہوں نے دو افراد کو اتوار کی دوپہر مظفر آباد روانہ کیا۔ مجھے ہرگز خبر نہیں کہ نواز شریف کے بھیجے لوگوں کے ساتھ مقامی قیادت نے کیارویہ اختیار کیا۔ مسلم لیگ(نون) کی جانب سے البتہ اب سلطان محمود کی معاونت "غیر مشروط" نظر نہیں آرہی۔
آز ادکشمیر کی وزارت عظمیٰ کے حوالے سے بالآخر جونتیجہ برآمد ہوگا وہ میرا درد سر نہیں۔ وسوسوں بھرے دل ودماغ میں لیکن ایک یہ سوال گونج رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان صاحب کی پاکستان کی وزرت عظمیٰ کے منصب پر گج وج کے واپسی اگر اتنی ہی "یقینی" ہے تو بیرسٹرسلطان محمود جیسے کائیاں اور تجربہ کار کھلاڑی مذکورہ امکان سے بے نیاز اور ایک حوالے سے "باغیانہ" رویہ کیوں اختیار کئے ہوئے ہیں۔