افغانستان میں استعمال ہونے والی فارسی جسے وہاں کے باسی" دری" پکارتے ہیں خوب صورت محاوروں سے مالا مال ہے۔ ان محاوروں کے پیچھے کئی قصے ہیں جو اساطیری کرداروں سے وابستہ ہیں۔ ایسے ہی محاوروں میں ایک "رحمِ ازبک" کی حقیقت عیاں کرتا ہے۔ قصہ اس سے متعلق چنگیز خان سے منسوب ہے۔
مشہور ہے کہ وہ صبح دم ہوا خوری کے لئے اپنے گھوڑے پر بیٹھا تنہا پہاڑوں کی بلندی کو چلاجاتا تھا۔ ایک دن روزمرہّ کی مشق سے لوٹ رہا تھا تو ایک گہری کھائی کے کنارے ایک عورت دہائی مچارہی تھی۔ اس کا شیر خواربچہ کھائی میں گرگیا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اسے خیروعافیت سے کیسے بازیاب کرے۔ چنگیز خان کو "رحم" آگیا۔ اپنے گھوڑے پر بیٹھے ہوئے اس نے نیزے کو بچے کے سینے میں پروکر "بازیاب" کرلیا اور اسے عورت کی طرف اچھالتے ہوئے یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گیا کہ "تونے خواہ مخواہ کا غوغابرپا کررکھا تھا"۔
ہمارے وزیر اعظم "ازبک" نہیں ہیں۔ ان کی شدید محنت ولگن سے بنایا لاہور کا شوکت خانم ہسپتال بلکہ ان کی رحمدلی کی بھرپور علامت ہے۔ پیر کے روز ہزارہ میں ایک افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مگر وہ طیش کے عالم میں گرفتار نظر آئے۔ نواز شریف صاحب کی بیماری کا تذکرہ کیا اور ساتھ ہی یہ انکشاف بھی فرمادیا کہ ان کی کابینہ کی اکثریت "سزا یافتہ مجرم"کو علاج کی خاطر بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کو تیار نہیں تھی لیکن "مجھے رحم آگیا"۔
عمران خان صاحب کا اس ضمن میں "رحم" کا دعوی سنا تو ساڑھے سات ارب روپے والے بانڈ کی شرط یاد آگئی اور "رحم ازبک" والا محاورہ بھی۔ منگل کی صبح اگرچہ نواز شریف صاحب بیرون ملک روانہ ہوگئے۔ ربّ کریم انہیں صحت یاب ہوکر وطن لوٹنے کی سہولت عطا کرے۔
دریں اثناء عمران خان صاحب بھی یہ دریافت کرنا شروع ہوجائیں گے کہ نواز شریف کی بیرون ملک روانگی ان کی حکومت کو "مستحکم" ہوتا دکھائے گی۔ سابق وزیر اعظم کے نام سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ اب "انتظار کرو اور دیکھو" کی کیفیت میں مبتلا رہے گی۔ اس کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکینِ اسمبلی کو رانا ثناء اللہ کے خلاف بنائے کیس کی بدولت خاموشی میں عافیت ڈھونڈنے کا احساس ہوچکا ہے۔ شاہد خاقان عباسی اور خواجہ سعد رفیق بھی جیل جاچکے ہیں۔ شہباز شریف پاکستان میں موجود نہیں ہوں گے۔ ان کی عدم موجودگی قومی اسمبلی کو پُرسکون رکھے گی۔ خواجہ آصف صاحب کی صلح جو مہارت نے نواز شریف کی روانگی سے قبل ہی "معقول" سمجھوتوں کا بندوبست کردیا تھا۔ تحریک انصاف نے رعونت بھری عجلت سے "قوانین" بنائے آرڈیننس واپس لے لئے۔ اس کے عوض اپوزیشن نے قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد واپس لے لی۔ اس تحریک پر خفیہ رائے شماری ہوجاتی تو تحریک انصاف پارلیمانی اکثریت سے محروم نظر آتی۔ ممکنہ بدشگونی کو حکومتی اور اپوزیشن کے سیانوں نے باہم مل کر ٹال دیاہے۔ تحریک انصاف کو حکومتی پالیسیوں کی تشکیل اور ان پر یکسوئی سے عملدرآمد کے لئے مناسب وقت اور ماحول میسر ہوگیا ہے۔ توجہ اب اس ماحول سے بھرپور فائدہ اٹھانے پر مرکوز کرنا ہوگی۔
نواز شریف صاحب کی بیماری کے حوالے سے اپنی کابینہ کے رویے کا ذکرہوتے وزیر اعظم صاحب نے اس کی "اجتماعی بصیرت" کو بھی عیاں کردیا۔ انفرادی اعتبار سے اس بصیرت کی تھوڑی جھلک ہمیں آئی ایم ایف سے عطا ہوئے مشیر خزانہ جناب حفیظ شیخ صاحب کے اس دعویٰ کی بدولت دیکھنے کو ملی تھی جس کے ذریعے انہوں نے اصرار کیا کہ بازار میں ٹماٹر 17 روپے فی کلو دستیاب ہیں۔ ان کے اس دعویٰ پر کابینہ کے اجلاس میں سوالات اُٹھے تو ان کی معاونت کے لئے وزیر ہوا بازی جناب غلام سرور خان نے بھنڈی کی قیمت بھی پانچ روپے کلوٹھہرادی۔ گزشتہ برس کی سردی میں سرور صاحب نے گیزر کے استعمال کو "لگژری" قرار دیا تھا۔ اس "عیاشی" کی انہوں نے وزیر پٹرولیم کی حیثیت میں جو قیمت وصول کی اس کے بارے میں تحریک انصاف کے بے تحاشہ شیدائی بھی بلبلااُٹھے تھے۔
ٹماٹر اور بھنڈی کی جو قیمت حفیظ شیخ اور غلام سرور خان جیسے وزراء طے کررہے ہیں یقین مانیے اسے عمران خان صاحب اور دیگر کئی وزراء نے بہت سنجیدگی سے لیا ہے۔ انتہائی شدت سے یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ کسی "گھنائونی سازش" کے ذریعے روزمرہّ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں "مصنوعی" مگر ناقابل برداشت اضافہ کیا جارہا ہے۔ اذیت دہ "مہنگائی" کا ماحول بناکر حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش۔ افسروں کو حکم ہوا ہے کہ وہ اس "سازش،، کو ناکام بنانے کی مؤثر تراکیب سوچیں۔
انگریزوں کی سدھائی افسر شاہی "Yes Minister" کہنے کی عادی ہے۔ اس کو "ہر موقعہ کی غزل منہ زبانی یاد"، ہوا کرتی ہے۔ "مہنگائی" کے ضمن میں ان کی برسوں سے یہ سوچ رہی ہے کہ نام نہاد "مڈل مین" جنہیں ہم دیسی لوگ "آڑھتی" کہتے ہیں قیمتوں میں "مصنوعی اضافے" کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ "آڑھتیوں " کی جانب سے بڑھائی قیمتوں کا ظالمانہ پہلو یہ بھی ہے کہ ان کی وجہ سے روزمرہّ استعمال کی سبزیاں اُگانے والے کاشت کاروں کو کوئی مالی فائدہ نہیں ہوتا۔ مثال کے طورپر اگر اسے آج سے پانچ سال قبل بھی منڈی میں بھنڈی کو تھوک کی صورت بیچتے ہوئے ایک کلو کے عوض پانچ روپے ملتے تھے تو میں اور آپ اسے اپنے محلے کی دوکان سے 25 روپے فی کلو بھی خریدیں تو "بے چارے" کاشت کار کو ایک کلوکے پانچ روپے ہی ملیں گے۔ اضافی 20 روپے آڑھتی اور دوکاندار آپس میں بانٹ لیں گے۔
حکومت کے بقول "مصنوعی" مہنگائی کے اس سیلاب کو روکنے کے لئے پورے ملک اور خاص کر "وسیم اکرم پلس" کے چلائے پنجاب میں مقامی انتظامیہ کو سخت ہدایات دی گئی ہیں کہ بازاروں میں چھاپے مارے جائیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دنوں میں متعارف ہوئے ایک قانون کو فائلوں کے انبار سے ڈھونڈ کر شدت سے لاگو کرنے کے تماشے رچائے جارہے ہیں۔ ایک سرکاری نرخنامہ ہوتا ہے۔ کوئی دوکانداراس نر خنامے کی خلاف ورزی کرتانظر آئے تو اسے گرفتار کرکے پندرہ دنوں تک جیل بھیجا جاسکتا ہے۔ قید سے بچت بھاری جرمانہ ادا کرتے ہوئے ہوتی ہے۔
شمالی اور وسطی پنجاب کے تقریباََ تین اضلاع سے ذاتی جستجو کی بدولت جمع کی ہوئی معلومات کے مطابق بہت اعتماد سے آپ کو نام لے کر بتاسکتا ہوں کہ کونسے DC یا AC نے کس ضلع میں "کارروائی" دکھانے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر کتنے چھاپوں، گرفتاریوں یا جرمانے کا "کوٹہ" طے کررکھا ہے۔ سکینڈل فروشی مگر میرا شعار نہیں۔ فقط یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ جاتا ہوں کہ "کوٹے" کے مطابق مارے "چھاپے" اس مہنگائی کے تدارک کو یقینی نہیں بناسکتے جسے عمران حکومت کی کابینہ میں مسلسل "مصنوعی" اور "سازش" قرار دیا جارہا ہے۔ بازار بنیادی طورپر طلب اور رسد کی Dynamics کا اظہار ہوتا ہے۔ 2019ء کی افسر شاہی کے مقابلے میں برطانوی سامراج کی براہِ راست چلائی حکومت کو اس کا بخوبی انداز تھا۔ اسی باعث رسد کووافر رکھنے کے لئے راشن ڈپو کا نظام متعارف ہوا تھا۔ "یوٹیلٹی سٹورز" نے اسی روایت کو دہرانے کی کوشش کی تھی۔ وہ مگر ہوس کی خاطر رچائے "کھانچوں " کا شکار ہوگئے۔
"بے چارے کاشت کار" کو مناسب "منافع" دلانے کی غرض سے اسلام آباد کے دفتروں اور ہوٹلوں میں جو سیمینار ہوتے ہیں وہاں بہت ہی مقبول ایک اور تھیوری بھی ہے۔ وہ اس امر پر اصرار کرتی ہے کہ کاشت کار آڑھتی سے رجوع کرنے کے بجائے اپنی پیداوار کو براہِ راست منڈی میں لائے۔ اسے اگر شہروں اور قصبا ت کی معروف منڈیوں میں سرکاری طورپر "چھابے" لگانے کی جگہیں فراہم کردی جائیں تو صارف کواس کی ضرورت والی سبزیاں سستے داموں میسر ہوجائیں گی۔ ان دنوں پنجاب کی انتظامیہ مختلف شہروں اور قصبات میں موجود منڈیوں میں ایسے قطعات اراضی ڈھونڈنے میں مصروف ہے جہاں "کاشت کار" اپنی سبزی لاکر صارف کو براہِ راست سستے داموں فراہم کرے۔
"مڈل مین" کے بغیر چلا ئے اس کاروبار کی تھیوری کانوں کو بہت بھلی لگتی ہے۔ عملی طورپر اس کا اطلاق مگر ممکن نہیں۔ "آڑھتی" صدیوں سے ہمارا مقدر کیوں ہے؟ اس سوال کا تفصیلی جواب دینے کے لئے ایک نہیں کئی کالم لکھنا ہوں گے۔