گزشتہ دو دنوں سے کئی دوست اور شناسا دیانت دارانہ حیرت سے استفسار کئے جارہے ہیں کہ عمران حکومت نے جمعرات کے دن قومی اسمبلی کی ایک ہی نشست سے منی بجٹ کے علاوہ دیگر پندرہ قوانین بھی کیسے منظور کروالئے۔ وہ اس گماں میں مبتلا تھے کہ "ہمارے نمائندے" اذیت ناک مہنگائی کے رواں موسم میں شوکت ترین صاحب کو مزید 377ارب روپے کے ٹیکس لگانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کوبھی ایسی "خودمختاری" فراہم نہیں کی جائے گی جو اسے ہمارے ریاست سے بالاتر "ایسٹ انڈیا کمپنی"بنادے گی۔ جس کی امید نہیں تھی وہ مگر ہوچکا ہے۔ صبر سے اسے برداشت کرنا ہوگا۔
دوستوں اور شناسائوں کی گفتگو سنتے ہوئے نہایت احترام سے فقط یاددلاتا رہا کہ اس کالم میں ایک مرتبہ بھی میں نے یہ امید دلانے کی ہرگز کوشش نہیں کی کہ شوکت ترین صاحب کا تیار کردہ منی بجٹ قومی اسمبلی میں بیٹھے ہمارے مبینہ نمائندے جرأت وحقارت سے رد کردیں گے۔ میں تو بلکہ التجا کرتا رہا کہ اراکین اسمبلی خواہ وہ حکومتی بنچوں پر بیٹھے ہوں یا اپوزیشن کی نشستوں پر بنیادی طورپر ہماری اشرافیہ ہی کے نمائندے ہیں۔ مہنگائی ان کا بنیادی مسئلہ نہیں۔ یہ فقط میرے اور آپ جیسے محدود اور کم آمدنی والے پاکستانیوں ہی کی زندگی اجیرن بناتی ہے۔ سیاسی اعتبار سے انگریزی محاورے کی "بگ پکچر" کو دیکھنا بھی لازمی تھا۔
اقبالؔ کے لب پہ جو تمنا دعا کی صورت آئی تھی اس میں "نیک جوراہ ہو"پر چلنے کی خواہش کا اظہار بھی ہے۔ ہماری ریاست کے دائمی اداروں نے بہت سوچ بچار کے بعد وہ راہ 2011ء میں دریافت کرلی تھی۔ اس راہ کو میڈیا پر حاوی ذہن سازوں نے شدومد سے مزید اجاگر کیا۔ طے یہ ہوا کہ اقتدار میں باریاں لینے والے موروثی سیاستدان ناقابل علاج حد تک نااہل اور بدعنوان ہیں۔ ان سے نجات حاصل کرنے کے بعد وطن عزیز کو کسی ایمان دار دیدہ ور کی قیادت میں آگے بڑھنا ہوگا۔ عمران خان صاحب کی صورت "تھا جس کا انتظار" والے دیدہ ور بھی نمودار ہوگئے۔ اگست 2018ء میں بالآخر وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوگئے۔ ان کی قیادت میں بہت محنت سے تیار کئے بندوبست کو برقرار رہنا ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی ہے فقط خواہشات پر مبنی کہانیاں ہیں۔ ان کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔
حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موج کی گفتگو کو اطمینان سے سنیں تو آپ کو خبر مل جائے گی کہ پاکستان اب غریب ملک نہیں رہا۔ گزشتہ برس ہمارے ہاں کئی فصلوں نے ریکارڈ بناتی پیداوار دی ہے۔ اس کی بدولت جو خوش حالی آئی اس کا ٹھوس اظہار نئی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی ریکارڈ بناتی تعداد سے ہورہا ہے۔ مہنگے ریستورانوں میں بیٹھنے کی جگہ حاصل کرنے کے لئے گھنٹوں انتظار کرنا ہوتا ہے۔ مری جیسے مقامات پر برف باری کا آغاز ہو تو لاکھوں کی تعداد میں ہمارے لوگ گاڑیوں میں پورے خاندان کو لاد کر وہاں پہنچنے کو بے چین ہوجاتے ہیں۔ خوش حال رعایا سے دنیا کی ہر ریاست زیادہ سے زیادہ ٹیکس بھی وصول کرنا چاہتی ہے تانکہ انہیں غیر ملکی اور ملکی دشمنوں سے بچاسکے۔ ان کے لئے صحت عامہ اور تعلیم کے نظام کو مؤثر تر بنائے۔
رعایا سے اس کی بساط کے مطابق ٹیکس جمع کرنے کی حقیقت اگرچہ ہم از خود دریافت نہ کر پائے۔ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے -آئی ایم ایف- میں بیٹھے نابغوں نے ہمیں اسے تسلیم کرنے کو مجبور کیا۔ 2019ء سے ہم نے مذکورہ ادارے کے ساتھ ایک معاہدہ بھی کررکھا ہے۔ اس کی بدولت مختلف اقساط میں ہمیں ستمبر2022ء تک چھ ارب ڈالر ملنا ہیں۔ اس رقم کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے منی بجٹ کے ذریعے مزید ٹیکس جمع کرنا اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کو خودمختاری فراہم کرنا لازمی تھا۔
عمران حکومت اگر یہ وعدے ایفا نہ کرپاتی تو حکومت نہیں بلکہ ریاستِ پاکستان عالمی اداروں کے روبرو اپنی ساکھ کھودیتی۔ اسے اپنے خرچے کے لئے کھلے بازار سے قرض لینے میں شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ اس تناظر میں جس نوعیت کی دشواریاں سامنے آسکتی ہیں ان کا بخوبی اندازہ ان شرائط کو بغور دیکھنے کے بعد لگایا جاسکتا ہے جو ہمارے برادر ملک سعودی عرب نے حال ہی ہمیں کچھ رقم فراہم کرتے ہوئے لگائی ہیں۔ مذکورہ بالا تناظر میں ہماری ریاست کے دائمی اداروں کے لئے لازمی تھا کہ وہ عمران حکومت کو منی بجٹ منظور کروانے میں دل وجان سے معاونت فراہم کریں۔ انہوں نے اپنا فرض بخیروخوبی نبھایا۔ فون کھڑکے۔ بندے پورے ہوگئے اور جمعرات کے دن ایک ہی نشست میں وہ تمام قوانین منظور کروالئے گئے جو پاکستان کے استحکام اور ترقی کے لئے ضروری تصور کئے گئے تھے۔
دوستوں اور شناسائوں کی حیرت کا اصل سبب درحقیقت وہ گماں ہے جو ہمارے کئی معتبر تصور ہوتے ذہن ساز اپنے یوٹیوب چینلوں، ٹی وی پروگراموں اور کالموں کے ذریعے گزشتہ کئی ہفتوں سے پھیلارہے تھے۔ گزشتہ برس کے اکتوبر کا آغاز ہوتے ہی ایک اہم ریاستی ادارے کے سربراہ کی تعیناتی کا سوال کھڑا ہوا۔ وزیر اعظم صاحب اس ضمن میں کچھ اڑی دکھاتے محسوس ہوئے۔ ذہن سازوں نے اس کی وجہ سے "ایک پیج پھٹ جانے" کی نوید سنانا شروع کردی۔ اس کی بنیاد پر یہ بھی فرض کرلیا گیا کہ "سرپرستی" سے محروم ہوئی عمران حکومت اپنے تئیں منی بجٹ منظور نہیں کرواپائے گی۔ اِن ہائوس تبدیلی کی باتیں بھی اسی گماں کی بنیاد پر پھیلائی گئیں۔
راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے مگر ایک صاحب بصیرت ہیں۔"نیک جوراہ ہے" 1980ء ہی کی دہائی سے دریافت کرچکے ہیں۔"سرپرستی" سے محروم ہوجانے والی یاوہ گوئی سے بیزار ہوکرکیمروں کے روبرو آئے اور دھڑلے سے اصرار کیا کہ عمران حکومت کو "دستِ شفقت"ابھی تک میسر ہے۔ اس امر پر زور دیتے ہوئے انہوں نے ہم جاہل رعایا کو یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی کہ ادارے کم از کم 20سال تک پھیلے منصوبے سوچتے اور لاگو کرتے ہیں۔ اکتوبر2021ء سے دلشاد ہوئے ذہن سازوں نے مگر ان کی گفتگو کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ گزشتہ جمعرات کے دن راولپنڈی کی لال حویلی سے اٹھے صاحب بصیرت بالآخر درست ثابت ہوئے۔
جمعرات کے روز حکومت کو نصیب ہوئی کامرانی کے بعد وہ ایک بار پھر کیمروں کے روبرو آئے۔ نہایت حقارت سے انہوں نے متنبہ کردیا ہے کہ "چاروں شریف" جس دستِ شفقت کی تلاش میں ہیں وہ ان کا گلابھی دبوچ سکتا ہے۔ نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شریف اور مریم نواز صاحبہ کی سیاست میں اب گنجائش نہیں رہی۔"دستِ شفقت" نے ان کے دعوے کی تردید کرنا مناسب تصور نہیں کیا۔ خود کو لہٰذا طویل مدت کے لئے عمران خان کی قیادت میں قائم ہوئے بندوبست کے تحت رہنے کی تیاری کیجئے۔