اپنے سیاسی مخالف کی ذہانت کو برسرعام نہ سہی خلوت میں تسلیم کرلیناایک معقول رویہ ہے۔ اسے اپنالیں تو جوابی بیانیہ تشکیل دینے میں بھی آسانی بہم ہوجاتی ہے۔ ہماری اپوزیشن جماعتیں انتہائی سیانے اور تجربہ کار لوگوں سے بھری ہوئی ہیں۔ عمران حکومت کے فنِ بیانیہ سازی کا مگر دیانت داری سے اعتراف نہیں کر پائیں۔ تنہائی میں بیٹھ کر انہیں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ عمران خان صاحب کی جانب سے ہوا ہر فیصلہ "تاریخی" اور جرأت مندانہ" کیوں قرار پاتا ہے۔ عمران حکومت اگست 2018میں برسراقتدار آئی تھی۔ بتدریج اس کی فیصلہ سازی کا حتمی اختیار غیر منتخب مشیروں اور معاونین خصوصی کو منتقل ہونا شروع ہوگیا۔ 2011سے یہ بات طے شدہ تصور ہوتی رہی کہ تحریک انصاف برسراقتدار آئی تو اسد عمر اس کے وزیر خزانہ ہوں گے۔ وہ مگر اس منصب پر ایک برس بھی مکمل نہ کر پائے۔ 2019کا بجٹ تیار کرنے کے لئے ڈاکٹر حفیظ شیخ سے رجوع کرنا پڑا۔
پیٹرولیم وگیس کا محکمہ پہلے غلام سرور خان اور بعدازاں عمر ایوب خان کے سپرد ہوا۔ ان شعبوں میں فیصلہ سازی مگر ندیم بابر صاحب کے کامل اختیار میں رہی۔"قوم کی لوٹی ہوئی دولت" کا سراغ لگانے کے لئے جنرل مشرف کے زمانے سے "احتساب بیورو" نامی ایک انتہائی خودمختار ادارہ بھی کام کررہا ہے۔ اس کی رہ نمائی کے لئے مگر شہزاد اکبر صاحب کو بطور مشیر تعینات کرنا پڑا۔ عامر کیانی کئی دہائیوں سے تحریک انصاف کی تنظیم سازی کے اہم کرداروں میں سے ایک شمار ہوتے تھے۔ وہ مگر وزیر صحت کا منصب زیادہ عرصہ سنبھال نہیں پائے۔ اس محکمے کو بھی ڈاکٹر ظفر مرزا کے حوالے کرنا پڑا۔ پارلیمان سے لئے وزراء کے مقابلے میں غیر منتخب مشیروں اور معاونینِ خصوصی کا ذکر ہوتا ہے تو برطانیہ سے آئے زلفی بخاری صاحب "ہاتھی کا پائوں " قرار پاتے ہیں۔ عمران حکومت کی کلیدی پالیسی سازی کا بغور جائزہ لیں تو گماں ہوتا ہے کہ بتدریج ہمارے ہاں پارلیمانی نظام کے بجائے صدارتی نظام کے تحت چلائے بندوبست کو اپنایا جارہا ہے۔ یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ عوام کے منتخب کردہ اراکین اسمبلی جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرتی "انتظامی صلاحیتوں "سے یکسر محروم ہیں۔
"نیا پاکستان" بنانے کے لئے ضروری ہے کہ "ٹیکنوکریٹ" کہلاتے "ماہرین" کی ذہانت سے رجوع کیا جائے۔ وہ جن شعبوں میں حتمی اختیار استعمال کررہے ہیں ان کی بابت پارلیمان میں سوال اٹھیں تو ان کے جواب فراہم کرنا ان "ماہرین" کی ذمہ داری نہیں۔ 2018سے بہت ہی ذمہ دار ہوئے میڈیا کے ٹاک شوز میں بھی حکومتی پالیسیوں کا دفاع کرنے سے یہ "صاحب لوگ" کتراتے ہیں۔ ان سے حسد فطری ردعمل تھا۔ اس کا اظہار بھی ان وزراء کی جانب سے ہونا شروع ہوا جو تخت یا تختہ والے انتخابی معرکوں کی بدولت پارلیمان میں آئے تھے۔ ان کی شہ پر میڈیا میں سوالات اٹھنا شروع ہوئے کہ انتخابی اکھاڑے میں اُترنے سے قبل ہر سیاست دان کو اپنے اثاثوں کی تفصیلات باقاعدہ مرتب ہوئے سوالات کے جواب میں تحریری طورپر مہیا کرنا ہوتی ہیں۔ ان تفصیلات کو الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ عوام کے روبرورکھتی ہے۔ انہیں ہر برس Updateبھی کرنا ہوتا ہے۔ غیر منتخب مشیروں اور معاونین خصوصی مذکورہ مشقت سے مبرارہے۔ تقاضہ ہوا کہ عام رکن اسمبلی کی طرح وہ بھی اپنے اثاثوں کو منظرعام پر لائیں۔ کئی مہینوں کے انتظار کے بعد بالآخر مطلوبہ تفصیلات گزشتہ ہفتے کی شام منظرِ عام پر آگئیں۔ تحریک انصاف کے متحرک ترجمانوں نے اس قدم کو "تاریخی اور جرأت مندانہ" ٹھہراتے ہوئے دادوتحسین کے ڈھول بجانا شروع کردئیے۔
صحافت ہماری Ratingsکی محتاج ہوچکی ہے۔ مجھ جیسے قلم گھسیٹ بھی سوشل میڈیا پر Likesاور Sharesکی ہوس میں مبتلا رہتے ہیں۔ یہ ہوس "تنازعہ" کی منتظر رہتی ہے۔ نہلے پہ دہلا جیسے مباحث کی محتاج ہوتی ہے۔ ڈاکٹر شہباز گل جیسے ماہرین ابلاغ کو ایسے مباحثوں سے کھیلنا خوب آتا ہے۔ مراد سعید اسمبلی میں کھڑے ہوں تو رونق لگادیتے ہیں۔ فواد چودھری صاحب نے خود کو میڈیا میں زندہ رکھنے کے لئے ایسی روش اپنارکھی ہے جسے فن ابلاغ کے ہنرمند Forward Narrative Buildingپکارتے ہیں۔ فواد صاحب نے رویتِ ہلال جیسے "حساس "موضوعات پر پیش قدمی سے اپنا سفر شروع کیا۔"وکھرا" انداز اپناتے ہوئے ان لوگوں کے دل بھی موہ لئے جو خود کو "لبرل" وغیرہ پکارتے ہیں۔ ایسے افراد کی اکثریت تحریک انصاف کی مداح نہیں۔ فواد چودھری صاحب کا ذکرہو تو بلے بلے پکاراٹھتی ہے۔ صحافت کا اصل فریضہ مگر بنیادی حقائق پر توجہ مرکوز رکھنا ہوتا ہے۔ یہ حقائق بہت سادہ اور روزمرہّ کا حصہ ہوتے ہیں۔"اثاثوں " کا ذکر ہو تو مجھ جیسے تن خواہ دار بھی جن کی آمدنی پر واجب ٹیکس دفتر والے پیشگی ہی کاٹ لیتے ہیں ہر برس کسی "ماہر" کو مناسب فیس ادا کرنے کے بعد اپنے Tax Returnsاور اثاثہ جات کی تفصیلات ایف بی آر کے حوالے کرتے ہیں۔ پاکستان کا ہر وہ شہری جو ٹیکس ادا کرنے کے قابل شمار ہوتا ہے یہ Returnsجمع کروانے کا قانونی طورپر ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
گزشتہ ہفتے کی شام غیر منتخب مشیروں اور معاونین کی شہرت، مستقل رہائش اور اثاثہ جات کی تفصیلات منظر عام پر آگئیں۔ اس حوالے سے دادوتحسین کے ڈھول بھی بج گئے۔ اپنے گھر میں محصور ہوئے مجھ جیسے ریٹائر رپورٹر کو لیکن کسی حکومتی ترجمان نے اب تک سادہ ترین الفاظ میں یہ نہیں بتایا کہ غیر منتخب مشیروں اور معاونین میں سے کونسے افراد ہیں جو بیرون ملک اپنے پرکشش دھندے چھوڑ کر وطن کی خدمت کے لئے عمران حکومت میں شامل ہونے کے بعد سے FBRکو اپنے اثاثوں کی تفصیلات باقاعدگی سے فراہم کرتے رہے ہیں۔ اراکین پارلیمان کے جو اثاثے الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کے ذریعے میرے اور آپ جیسے عام شہری کی آگہی کے لئے میسر ہیں ان کی اہمیت اپنی جگہ مسلم۔ ان اثاثوں کی بابت سوالات اٹھانے کا حق واختیار مگر ہمارے پاس نہیں۔ FBRہی اپنے ہاں جمع ہوئے اثاثوں کے بارے میں نام نہاد "منی ٹریل" پر مبنی سوالات اٹھاسکتا ہے۔ اس پہلو کی جانب ہم صحافیوں نے لیکن توجہ نہیں دی۔ کم ازکم میں نے تو فقط طلعت حسین ہی کو اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے انہیں اٹھاتے ہوئے دیکھا۔ بعدازاں شاہ زیب خانزادہ نے اپنے شو میں زلفی بخاری صاحب سے اس ضمن میں گفتگو کی۔ مناسب یہی ہوگا کہ FBRایک باقاعدہ بیان کے ذریعے اس ضمن میں وضاحت فراہم کردے۔
ایسا نہ ہوا تو یقین مانیں کبھی نہ کبھی چند غیر منتخب مشیروں اور معاونینِ خصوصی کا "پانامہ" بھی یقینا ہوجائے گا۔"وراثت" میں ملے اثاثوں کے بارے میں ویسے ہی سوالات اٹھیں گے جو ان دنوں جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ سے پوچھے جارہے ہیں۔ کامل حقائق سے آگہی کا حق واختیار ہماری "سب پر بالادست"پارلیمان بھی بروئے کار لاسکتی ہے۔ اس پارلیمان کے دو ایوان ہیں۔ سینٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیاں بھی ہیں۔ یہ تمام وزارتوں اور حکومتی محکموں پر کڑی نگاہ رکھنے کی ذمہ دار تصور ہوتی ہیں۔ ان دونوں ایوانوں میں سے کسی ایک کی "فنانس کمیٹی" ایف بی آر کو طلب کرکے مذکورہ سوال کے تشفی بخش جوابات حاصل کرسکتی ہیں۔ وگرنہ جب بھی کبھی ضرورت پڑی تو اس ضمن میں نیب ہی کو متحرک ہونا پڑے گا۔