سوشل میڈیا نے ہمیں "چٹ منگنی پٹ بیاہ" کا عادی بنادیا ہے۔ شدید تنائو کے عالم میں کہیں کوئی چنگاری بھڑکتی ہے تو ہم فکرمندی کے بجائے تماش بینوں والے اشتیاق کے ساتھ "بنکاک کے شعلے" مارکہ فلم کا انتظار کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔
امریکی ڈرون طیاروں کے ذریعے عراق میں قاسم سلیمانی کا قتل یقینا ایک سنگین واقعہ ہے۔ اس قتل کے بعد مگر یہ فرض کرلینا بھی بچگانہ تھا کہ ایران اپنے اساطیری اہمیت رکھنے والے کمانڈر کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لئے اپنے ہمسایہ ممالک پر عجلت میں مہلک میزائلوں کی بارش برسادے گا۔ امریکہ اس کا حساب چکانے کے لئے ایران کو 2020 کا افغانستان اور عراق بنادے گا۔
"جھٹکے" والے تخت یا تختہ کے منتظر اذہان یہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ اصل مصیبت طویل المدتی تنائو ہوتا ہے۔ فیصلہ کن جنگ کے بغیر جاری رکھا یہ تنائو اپنی زد میں آئے ممالک کے لاکھوں لوگوں کو کئی برسوں تک معاشی مشکلات اور عدم تحفظ کا نشانہ بنائے رکھتا ہے۔ ایران کی ہمسائیگی کی وجہ سے پاکستان پورے خلوص کے ساتھ غیر جانب دار رہتے ہوئے بھی مسلسل تنائو کی قیمت ادا کرتا ہے۔
1980 کی دہائی یاد کریں تو عراق اور ایران کے مابین مسلسل آٹھ برس تک برپا رہی جنگ کی بدولت ہمارے ہاں خاص طورپر کراچی اور جھنگ میں خوفناک فرقہ وارانہ کشیدگی کا عذاب نازل ہوا۔ اس کے نتیجے میں ملک بھر میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ ملا۔ انتہاپسندوں کو افغانستان میں جاری "جہاد" نے مزید وحشیانہ بنادیا۔ 1980 کی دہائی میں بھڑکی آگ کو نائن الیون کے بعد ہوئے واقعات نے مزید خونخوار بنادیا۔ بالآخر 2008 کے بعد سے کم از کم دس برس تک ریاست پاکستان کو طویل فوجی آپریشنز کے ذریعے امن وامان بحال کرنے کی جنگ لڑنا پڑی۔ سیاسی اعتبار سے مستحکم اور معاشی حوالوں سے توانا ملک نظر آنے کے لئے ہمیں اب بھی کئی برس درکار ہیں۔ قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد مشرق وسطیٰ میں تنائو اور کشیدگی کی جو نئی لہر اُبھری ہے اس پر غور کرتے ہوئے دل دہل جاتا ہے۔ ہمارے ریگولر اور سوشل میڈیا کو اگرچہ ٹک ٹاک وڈیوزکے منظر عام پر آنے کی بدولت میسر ہوئی چسکہ فروشی سے فرصت ہی نہیں مل رہی۔ فواد چودھری صاحب نے بھی اپنے جثے کے مطابق اس تماشے میں اپنا حصہ ڈال دیا ہے۔
قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ایرانی قیادت نے میزائلوں کے بٹن دبانے کے بجائے "تحمل" کا مظاہرہ کیا ہے۔ بجائے فوری ردعمل دکھانے کے اپنے "قومی غصے" کی شدت کو بھرپورانداز میں دکھانے کی کوشش کی۔ قاسم سلیمانی کا جسدِ خاکی ایک بڑے جلوس کی صورت ایران کے شہر اہواز میں لایا گیا۔ اس شہر میں نسلی اعتبار سے خود کو "عرب" کہلاتے افراد بے پناہ تعداد میں موجود ہیں۔ مغربی میڈیا میں عموماََ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ شہر ایران حکومت کے "باغیوں " کا اہم ترین مرکز ہے۔
قاسم سلیمانی کا جسد خاکی مگر جب جلوس کی صورت اس شہر پہنچا تو اس کے "دیدار" کے لئے تقریباََ پورا شہر سڑکوں پر امڈ آیا۔ ایک ریکارڈ تاریخی ہجوم کے ساتھ سلیمانی کا تابوت اس شہر سے مشہد لے جایا گیا۔ ابلاغ کے جدید ترین تقاضوں اور وسائل کو کمال مہارت سے سمجھتے اور استعمال کرتے ہوئے ایرانی قیادت نے دُنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ سلیمانی کی ہلاکت ایک فرد کی ہلاکت نہیں۔ اس پر ہوا حملہ ایرانیوں کی بے پناہ ا کثریت نے اپنی قومی حمیت پرفرعونی رعونت کے تحت ہوئی جارحیت شمار کیا ہے۔ آنے والی کئی نسلوں تک ایرانی اسے بھول نہیں پائیں گے۔ ٹرمپ کو ایران پر براہِ راست حملہ کرنے سے قبل لہذا سو بار سوچنا ہوگا۔
سلیمانی کے سوگ میں سڑکوں پر امڈے جذبات کے بھرپور اظہار کے ساتھ ایران نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ وہ اب یورینیم کو ایٹم بم کے استعمال کے قابل بنانے والے تجربات کا آغاز کردے گا۔ اوبامہ حکومت کے دوران چین، روس اور یورپی ممالک کے ساتھ ہوئے اس معاہدے کی پاس داری نہیں کرے گا جس کے ذریعے اس نے اپنے ایٹمی پروگرام کو CAP کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
دریں اثناء عراق کے وزیر اعظم نے اپنی قومی اسمبلی کو ایک خط لکھ دیا۔ اس خط کی بدولت اس اسمبلی نے ایک قرار داد منظور کی ہے جس میں عراق حکومت سے یہ "سفارش" کی گئی ہے وہ امریکی افواج کو اپنے ملک سے باہر نکالے۔ جس اجلاس میں یہ قرارداد منظور ہوئی اس میں عراق کے کرد اور سنی حلقوں کے نمائندے شریک نہیں تھے۔ عراق کا وزیر اعظم لہذا اپنے ملک سے امریکی افواج کے انخلاء کے ضمن میں "قومی اتفاق رائے (National Consensus)" دکھانے میں ناکام رہا۔
مذکورہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عراق کے وزیر اعظم نے سیاست دانہ مہارت سے یہ دعویٰ بھی کیا کہ امریکہ نے اس سے ایران کے ساتھ "ثالثی" کی کوئی راہ نکالنے کی درخواست کی تھی۔ سعودی عرب نے بھی ایسی ہی خواہش کا اظہار کیا۔ سلیمانی درحقیقت عراق اس سے ملاقات کرنے آیا تھا۔ اس ملاقات کے دوران توقع تھی کہ سلیمانی ایران کی جانب سے "ثالثی" کے ضمن میں کوئی "مثبت" پیغام دے گا۔ امریکی طیاروں نے مگر اسے یہ پیغام دینے سے قبل ہی ہلاک کردیا۔
واشنگٹن کے کئی معتبر "تھنک ٹینک" کئی مہینوں سے یہ دعویٰ کررہے تھے کہ لسانی اور مسلکی تفریق کو بھلاتے ہوئے عراقی عوام کی اکثریت اپنے ملک کو ایران کا "غلام" تصور کررہی ہے۔ ان "مفکرین" کی سوچ پر انحصار کرتے ہوئے امریکہ کی Deep State کو یہ گماں تھا کہ سلیمانی جیسے طاقت ور کمانڈرکی ہلاکت عراقی عوام کی اکثریت کو ایران کے خلاف "مزاحمت" دکھانے کے لئے مزید پُرجوش بنادے گی۔ عراق کے کرد اور سنی حلقے بھی مگر عمومی طورپر پورے معاملے سے لاتعلق رہے۔
عراق کے عوام کو مزید "خوفزدہ" کرنے کے لئے امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ چونکہ عراق میں اس کے سفارت کاروں اور فوجیوں کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں اس لئے "دنیا کی واحد سپرطاقت " ہوتے ہوئے بھی اب وہ اپنے عسکری "وسائل" داعش کا خاتمہ کرنے پر مرکوز نہیں کر پائے گا۔
مسلکی اور نسلی اختلافات کو نظرانداز کرتے ہوئے عراق کے عام لوگوں کی اکثریت کو بنیادی فکر اب یہ لاحق ہوگئی ہے کہ ان کا ملک امریکہ اور ایران کے مابین کئی برسوں سے جاری چپقلش کو حتمی صورت دینے کے لئے ایک بھرپور جنگ کا میدان بنایا جارہا ہے۔ وہ خود کو ایک خوفناک Proxy War کی زد میں آئے محسوس کررہے ہیں۔ خوف سے گھروں میں دبک گئے ہیں۔
ایران پر براہِ راست حملے کے بجائے امریکہ نے اگر خود کو جارحانہ Posturing تک ہی محدود رکھا۔ عراق ہی کو Proxy جنگ کی آماجگاہ بنانے کی کوشش کی تو اس Proxy جنگ کے تباہ کن اثرات سے سعودی عرب بھی محفوظ نہیں رہ پائے گا۔ متحدہ عرب امارات کو بھی اس حوالے سے سو طرح کے اندیشہ ہائے دور ودراز لاحق ہیں۔ روس، چین اور کئی یورپی ممالک کی معاونت سے اب Restraint یا تحمل کی دہائی مچائی جارہی ہے۔ تحمل کی اس دہائی کی بدولت یہ امکانات نمودار ہورہے ہیں کہ ایران کی "قومی حمیت" پر لگائے سنگین ترین زخم کے ازالے کی سفارت کاری کے ذریعے کوئی صورت نکل آئے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے لئے مگر اب لچک دکھانے کی گنجائش موجود نہیں رہی۔ اپنی پارلیمان میں امریکی صدر کو مواخذے کی تحریک کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس برس نومبر میں نیا صدارتی انتخاب بھی ہونا ہے۔ ان حالات میں ٹرمپ "بکری" نظر آنا برداشت نہیں کرسکتا۔ وہ جارحانہ Posturing برقرار رکھنے کو مجبور ہے۔ ہاتھ سے لگائی گرہوں کو دانتوں سے کھولنے والا معاملہ ہوچکا ہے۔
امریکہ اور ایران کے مابین فوری طور پر کسی تخت یا تختہ والی براہِ راست جنگ کے لئے تماش بینوں کی طرح منتظر رہنے کے بجائے ہمیں اصل فکر یہ ہونا چاہیے کہ سلیمانی کی ہلاکت کے بعد نمودار ہوا تنائو طویل المدتی ہوگا۔ یہ تنائو ا ٓنے والے کئی ہفتوں تک عالمی منڈیوں کو پریشان رکھے گا۔ تیل کی فراہمی اور اس کی قیمت کے بارے میں شدید ترین خدشات نمودار ہوتے رہیں گے۔
پاکستان کے معاشی حالات پہلے ہی دُگرگوں ہیں۔ بھارت میں مودی سرکار کی انتہاپسندی کے خلاف جو مزاحمت ابھری ہے اس سے توجہ ہٹانے کے لئے ہمارا ازلی دشمن پاکستان کے خلاف جنگ کی فضا بنانے کو اتاولہ ہورہا ہے۔ افغانستان کا مسئلہ بھی اپنی جگہ برقرار ہے۔ ایران کے ساتھ جو نئی کشیدگی اُبھری ہے اس کے ہوتے ہوئے ٹرمپ کے لئے یہ ممکن نظر نہیں آرہا کہ وہ طالبان کو مطمئن کرنے کے لئے افغانستان سے اپنی فوجوں کے انخلاء کے کسی ٹائم ٹیبل کا انتظار کرے۔ میری بات کو سمجھنا ہو تو خدارا افغانستان کا نقشہ غور سے دیکھیں۔ قندھار سے ہرات کو جانے والا راستہ دیکھیں اور یہ ذہن میں رکھیں کہ ہرات کے بعد ایران کا تاریخی شہر مشہد آتا ہے۔
امریکہ نے افغانستان میں جو فوجی اڈے بنارکھے ہیں وہ ایران پر بھی کڑی نگاہ رکھتے ہیں۔ ایران کے ساتھ شدید تنائو کے درمیان امریکہ ان اڈوں سے ہاتھ دھونے کے بجائے انہیں عسکری اعتبار سے جدید تر اور توانا ترین بنانے کی کوشش کرے گا۔ پاکستان ہر حوالے سے ایک مشکل ترین دور میں داخل ہورہا ہے۔ اس کی سنگینی کا ادرا ک کریں۔ ٹک ٹاک کی وڈیوز سے لطف اٹھانے تک محدود نہ رہیں