قومی اسمبلی کا اجلاس ہورہا ہو تو میں سینٹ کی کارروائی کو عموماََ نظرانداز کردیتا ہوں۔ 342 اراکین پر مشتمل ایوان زیریں میں کرونا کے باوجود اراکین مناسب تعداد میں موجود ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بجٹ اجلاس کے دنوں سے علی زیدی اور مراد سعید باہم مل کر پیپلز پارٹی کو عزیر بلوچ جیسے جرائم پیشہ افراد کے "حتمی سرپرست" قرار دے رہے ہیں۔ انہیں للکارنے کو عبدالقادر پٹیل کھڑے ہوجاتے ہیں۔ فریقین کی جانب سے لگائی رونق کے صدقے چسکہ فروشی کا مواد مل جاتا ہے۔
پیر کی صبح البتہ سینٹ کا جو اجلاس ہوا اسے حسبِ عادت نظرانداز کردیتا تو اپنے ساتھ ظلم کرتا۔ مجھے ہرگز سمجھ نہ آتی کہ عمران حکومت بالآخراٹھارویں ترمیم سے چھیڑ چھاڑ کوتیار ہوچکی ہے۔ وفاق اور صوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم کی بابت 2010سے قومی مالیاتی کمیشن کی بدولت جو بندوبست قائم تھا اس سے گریز کے ارادے باندھ لئے گئے ہیں۔
افواہیں تو اسلام آباد میں گزشتہ ایک برس سے گردش کررہی ہیں کہ فقط اٹھارویں ترمیم سے نجات ہی ہدف نہیں۔ یہ خواہش بھی بیدار ہورہی ہے کہ "چوروں اور لٹیروں " کے "نرغے" میں آئے پارلیمانی نظام سے جان چھڑائی جائے۔ دعویٰ ہے کہ "اچھی حکومت" کے قیام کے لئے "ماہرین" کی ضرورت ہوتی ہے۔ غیر ملکی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ "ٹیکنوکریٹ مگر انتخابات میں حصہ نہیں لیتے۔"ذات برادری" کے محتاج انتخابی نظام میں ان کے "میرٹ" کی قدر نہیں ہوتی۔ سادہ لوح ووٹر "بریانی کی پلیٹ" کھاکر انہیں لوگوں کو اسمبلیوں میں بھیج دیتے ہیں جو کئی نسلوں سے اپنے "آبائی حلقوں " کو "راجواڑوں " کی مانند چلارہے ہیں۔
"اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد" کی انتخابی عمل سے دوری کی جو کہانی پھیلائی جاتی ہے ذاتی طورپر میں اس سے متفق نہیں۔ قائد اعظم قانون کے حوالے سے دنیا کے بہترین کالج کے طالب علم رہے۔ انہوں نے عملی اور انتخابی سیاست میں کمال تندی سے حصہ لیا اور پاکستان کے قیام کے ذریعے حقیقی معنوں میں تاریخ بنائی۔ ان کی بے مثال قیادت کے علاوہ میں حسین شہید سہروردی اور ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر کرنے کو بھی مجبور ہوں۔ فی الوقت میں اصل موضوع کی جانب بڑھنا چاہ رہا ہوں۔ فقط یہ حقیقت یاد دلاتے ہوئے اس موضوع پر تفصیلی بحث کسی اور دن کے لئے مؤخر کردیتا ہوں کہ موجودہ اسمبلی میں موجود شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال اور سید نوید قمر امریکہ کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں کے طالب علم رہے ہیں۔ حکومتی وزراء میں حماد اظہر بھی ایسی ہی ایک مثال ہیں۔
علمی بحث میں الجھنے کے بجائے فی الحال میرے اندر موجود رپورٹر کے لئے اہم ترین "خبر" یہ ہے کہ پیر کے روز ہوئے سینٹ کے اجلاس کے دوران عمران حکومت کے اٹھارویں ترمیم کے بارے میں اصل ارادے برسرعام آگئے۔ لطیفہ یہ بھی ہوا کہ اس ترمیم سے چھیڑ چھاڑ کی ابتداء تحریک انصاف کے کسی سینیٹرکے ہاتھوں نہیں ہوئی۔ اس ضمن میں جارحانہ پیش قدمی کا سہرا بیرسٹر محمد علی سیف کے سر بندھا۔
سیف صاحب جنرل مشرف کے دور میں ہمارے سیاسی اُفق پر نمایاں ہوئے تھے۔ نظر بظاہر ان کا کوئی طاقت ور سیاسی پس منظر نہیں تھا۔ اس کے باوجود میڈیا کی توجہ حاصل کرتے ہوئے اپنی جگہ بنائی۔ کمال انہوں نے یہ بھی دکھایا کہ ایک پشتون ہوتے ہوئے بھی ایم کیو ایم کو اس امر پر قائل کیا کہ وہ خود کو "لسانی تنظیم" کے الزام سے بچانے کے لئے انہیں ایوانِ بالا کا رکن بنوائے۔
ان دنوں جو ایم کیو ایم (پاکستان) ہے وہ عمران حکومت کی اتحادی ہے۔ اس کی صفوں سے محمد علی سیف صاحب نے پیر کے روز "ذاتی حیثیت" میں ایک قانون متعارف کروانا چاہا جو محض ایک سادہ قانون نہیں بلکہ آئین میں ترمیم کا طلب گار تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ ہمارے آئین کے آرٹیکل160کی ضمنی شق (3-A)کو ختم کردیا جائے۔ اس شق کے مطابق یہ طے کردیا گیا ہے کہ کسی مالیاتی سال کے دوران صوبوں کے لئے رقوم مختص کرتے وقت اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ گزشتہ برس صوبوں کے لئے جو حصہ مختص کیا گیا تھا اس میں کسی صورت کمی نہیں ہوگی۔ سیف صاحب کا ارادہ تھا کہ اس شق کو ختم کردیا جائے۔
آئینی موشگافیوں سے نابلد افراد کے لئے مذکورہ کاوش"فروعی" شمار ہوگی۔ سینٹ میں اراکین کی تعداد والی منطق کا اطلاق ہو تو سیف صاحب ایک کار بے سود میں وقت ضائع کرتے نظر آئیں گے۔ ہمارے تحریری آئین میں سے کسی شق کو حذف کرنے کے لئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے۔ عمران حکومت کے پاس یہ اکثریت قومی اسمبلی میں بھی موجود نہیں ہے۔ ایوانِ بالا میں اپوزیشن کی تعداد تو ہر حوالے سے بھاری بھر کم ہے۔
محمد علی سیف صاحب جیسے ذہین شخص کو ان حقائق کا کامل ادراک ہے۔ اپنی پیش کردہ ترمیم کے ذریعے وہ درحقیقت یہ فضا بنانا چاہ رہے تھے کہ آئین کی اٹھارویں ترمیم کوئی "آسمانی صحیفہ"نہیں ہے۔ اس میں ترمیم کی گنجائش "عملی بحث" کے بعد ہمہ وقت موجود رہتی ہے۔"جمہوری" لوگ ایسی بحث کے لئے ہمیشہ آمادہ ہوتے ہیں۔ اس امر میں حرج ہی کیا ہے کہ ان کی پیش کردہ ترمیم پر کھلے ذہن سے بحث ہو اور نہایت دیانت داری سے جائزہ لیا جائے کہ دس برس گزرجانے کے بعد صوبے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ملے "خودمختاری" جیسے اختیارات کی بدولت اپنے ہاں "اچھی حکومت" قائم کرپائے یا نہیں۔ قومی مالیاتی کمیشن کے ذریعے انہیں جوگرانقدر رقوم ملیں وہ خلقِ خدا کی بہتری وخوش حالی کے لئے استعمال ہوئی یا نہیں۔ تعلیم اور صحت عامہ جیسے بنیادی انسانی مسائل کے ازالے کے لئے صوبوں نے اٹھارویں ترمیم کے تحت میسر اختیارات کو کس طرح استعمال کیا۔
محمد علی سیف کا اندازِ گفتگو یقینا بہت مدلل تھا۔ ان کے اٹھائے کئی سوالات بھی بہت معقول سنائی دئے۔ وہ مگر اس حقیقت سے غافل رہے کہ ہم ان دنوں بلھے شاہ کے بیان کردہ "شک شبے" کے وقت میں زندہ ہیں۔ 2018کے انتخابات کے بعد سے ہمارے ہاں سیاسی تقسیم گہری اور سنگین ترہورہی ہے۔ پارلیمان میں اپوزیشن کی صفوں میں بیٹھے افراد کو یہ فکر لاحق ہے کہ ان کا ادارہ اختیارات کا منبع نہیں رہا۔"اصل اختیار" کہیں اور چلا گیا ہے۔ عمران حکومت اس ضمن میں کوئی مزاحمت نہیں دکھارہی۔ اختیارات کی مبینہ منتقلی کے حوالے سے بلکہ وہ "غیر جمہوری قوتوں " کی "سہولت کار" بن چکی ہے۔
اسے یہ گماں بھی ہے کہ "اچھی حکومت" کی خاطر بالآخر ہماری "مقتدرقوتیں " ملک میں پارلیمانی نظام کے بجائے "اسلامی صدارتی نظام" متعارف کروانا چاہیں گی۔ یہ نظام قائم ہوگیا تو ظاہر ہے عمران خان صاحب ہی ترکی کے اردوان کی طرح وزیر اعظم کامنصب چھوڑ کر ایوانِ صدر چلے جائیں گے۔ وہاں پہنچنے کے بعد وہ ہر شعبے کے "ماہرین" پر مشتمل ایک کابینہ تشکیل دیں گے جو وطن عزیز کو مختلف النوع "مافیا" کے قبضے سے چھڑانے کے لئے ایک نئے نظام کے قیام کو یقینی بنائے گی۔
اس تناظر میں اپوزیشن والوں کو محمد علی سیف صوبوں کے مالیاتی اختیارات میں "کمی" کو یقینی بنانے کے لئے آئین پر"حملہ آور" ہوتے نظر آئے۔ ان کے حملے کو پسپا کرنے کے لئے دھواں دھار تقاریر ہوئیں۔ سیف صاحب پر ذاتی حملے بھی ہوئے۔ انہیں غیر جمہوری قوتوں کا "ایجنٹ" پکارا گیا۔ اس ضمن میں مولانا فضل الرحمن کے بردارِ اصغر سینیٹر عطاء الرحمن بہت ہی چراغ پا نظر آئے۔ وہ ایک "دینی" جماعت کے نمائندہ ہیں۔ پیر کے روز ان کی تقریر مگر صوبائی خودمختاری کا جارحانہ دفاع تھی۔ سقوطِ ڈھاکہ کی یاد دلاتے ہوئے وہ اصرار کرتے رہے کہ آئین سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے ملک کو ایک بار پھر خلفشار کی جانب نہ دھکیلا جائے۔
وزراء کی بہت کوشش رہی کہ سیف صاحب کی پیش کردہ ترمیم کم از کم سینٹ کی کمیٹی کے حوالے کردی جائے۔ اس کے اجلاس میں سیف صاحب کے اٹھائے سوالات پر کشادہ دلی اور ٹھنڈے ذہن کے ساتھ سنجیدہ غور کی صورت بنے۔ اپوزیشن مگر ٹس سے مس نہ ہوئی۔ اس کے پچیس(25)اراکین نے اپنی نشستوں سے کھڑے ہوکر اس خواہش کو ناکام بنادیا۔ سیف صاحب کی حمایت میں فقط 17اراکین کھڑے ہوئے۔
اپوزیشن بہت شاداں ہے کہ اس نے آئین سے چھیڑ چھاڑ کی "مذموم کوشش " کو ناکام بنادیا۔ میرا وسوسے بھرا دل مگر یہ اصرار کرنے کو مجبور ہے کہ "پارٹی" تو ابھی شروع ہوئی ہے۔ پیر کے روز محمد علی سیف صاحب کی جارحانہ پیش قدمی کی بدولت محاورے والی بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے تحت قائم ہوئے بندوبست پر ٹھوس سوالات اٹھادئے گئے ہیں۔ یہ سوالات بہت سوچ بچار کے بعد اٹھائے گئے ہیں۔ ان کے حل کے لئے کوئی Work Planبھی یقینا بن چکا ہوگا۔ اس پلان کے نمایاں خدوخال کو ڈھونڈنا ہوگا۔