دس دن گزر چکے ہیں۔ ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا نے اس دوران اپنی تمام تر توانائیاں یہ طے کرنے میں خرچ کردیں کہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ اسمبلیاں کب ٹوٹیں گی اور اس کے نتیجے میں ملک بھر میں قومی اسمبلی کے لئے انتخابات بھی وقت سے پہلے ہوجائیں گے یا نہیں۔ اضطراب اور ہیجان کے اس ماحول میں فریاد کرتا رہا کہ مذکورہ اسمبلیوں کی تحلیل ایک دشوار عمل ہے۔ اس کے بارے میں چٹ منگی پٹ بیاہ والا رویہ اختیار نہ کیا جائے۔ ویسے بھی پاکستان اس وقت سنگین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ خدارا اس بحران پر توجہ مرکوز رکھیں۔ وگرنہ ہماری اشرافیہ کے کسی بھی فریق کے لئے معاملات سنبھالنا ممکن نہیں رہے گا۔ ریٹنگز، کلکس (Clicks)اور زیادہ سے زیادہ Sharesکی ہوس مگر معیشت جیسے خشک مضامین پر توجہ دینے کی مہلت میسر نہیں کرتی۔ اس سے جڑے چند مسائل جب سیلابی پانی کی طرح سرسے بلند ہونا شروع ہوجاتے ہیں تب ہی ہمیں"خبر"ملتی ہے۔
مثال کے طورپر میری ہفتے کی رات فیصل آباد، سرگودھا اور چکوال کے چند کاروباری دوستوں سے ٹیلی فون پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ یاد رہے ان میں سے کوئی ایک بھی پولٹری فارم کے دھندے سے وابستہ نہیں ہے۔ ان سب نے مگر اپنے اپنے تئیں مجھے خبردار کیا کہ ان کے علاقوں میں پولٹری کے کاروبار بہت تیزی سے بند ہورہے ہیں۔ کئی افراد جنہوں نے اس کاروبار کے فروغ کو ذہن میں رکھتے ہوئے لاکھوں روپوں کی سرمایہ کاری کے ساتھ "شیڈز" وغیرہ تعمیر کئے ہیں سمجھ نہیں پارہے کہ وہ تیز ی سے خالی ہوتے اپنے شیڈز کا اب کیا کریں۔
ان سے گفتگو کے بعد مجھے یاد آیا کہ چند روز قبل پولٹری سے وابستہ افراد نے اخبارات میں اپنے مسائل اجاگر کرنے کو بڑے بڑے اشتہارات چھپوائے تھے۔ ان سب کی مشترکہ فریاد غالباََ "پولٹری" کو تباہ ہونے سے بچائے جانا تھی۔ شہری متوسط طبقے کا کامل نمائندہ ہوتے ہوئے میں نے مذکورہ اشتہارات کے متن پر کماحقہ توجہ ہی نہیں دی۔ بطور صحافی جبکہ میرا فرض تھا کہ پیشہ وارانہ تجسس کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کے جزئیات پر غور کرتااور ان کے ذریعے اٹھائے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کرتا۔ میری بے حسی کو منصفانہ ٹھہرانے کی بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ میری صنعت سے وابستہ ہر شخص مجھ سے ایک ہی سوال پوچھ رہا تھا اور وہ یہ کہ چودھری پرویز الٰہی کے ہوتے ہوئے عمران خان صاحب پنجاب اسمبلی تحلیل کر پائیں گے یا نہیں۔ بعدازاں چودھری مونس الٰہی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں سابق آرمی چیف کی پنجاب کے حوالے سے جنرل باجوہ کی ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے پنجابی محاورے والا "نیاکٹا" کھول دیا اور اب ڈاکٹر ماریہ ذوالفقار سے گفتگو کرتے ہوئے چودھری پرویز الٰہی صاحب نے الیکشن "جب ہوں گے" کہتے ہوئے قیاس آرائیوں کے ایک اور طوفان کو مہمیز لگادی ہے۔ مجھے امید ہے شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک ہمارے ذہن ساز "جب" کی مناسب تشریح فرمادیں گے۔
بہرحال پولٹری کے نظر بظاہر تباہ ہوتے دھندے کی جانب لوٹتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ان دنوں پولٹری کے جانور کا وزن تیزی سے بڑھانے کے لئے دواشیا کلیدی شمار ہوتی ہیں۔ سویابین اور کینولا۔ سویابین سے تیل بھی نکالا جاتا ہے جسے ہم کھانا پکانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ سویابین سے تیل نکالنے کے بعد جو"پھوک" بچتا ہے اسے پولٹری فیڈ میں شامل کیا جاتا ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ یہ طاقت ور پروٹین سے مالا مال ہوتے ہوئے پولٹری کے جانور کا وزن تیزی سے بڑھاتا ہے۔ عموماََ اس کے استعمال سے پالا جانور چند ہی دنوں میں دو سے زیادہ کلو کا ہوجاتا ہے۔ اس کے بغیر تیار ہوئی فیڈ کا زیادہ اور کئی دنوں تک استعمال بھی اس جانور کا ڈیڑھ سے زیادہ کلو وزن بڑھانے میں کامیاب نہیں ہوتا۔
پاکستان اپنی سویابین کی ضروریات غیر ممالک سے خرید کر پوری کرتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ پاکستان کی زراعتی پیداوارکو مزید منافع بخش بنانے کے لئے میرے ایک بینکار دوست کئی ماہ قبل نہایت خلوص سے یہ کوشش کررہے تھے کہ وطن عزیز میں گنے جیسی پانی کو ضرورت سے زیادہ استعمال کرنے والی فصل کے بجائے ہمارے بینکوں کو کاشتکاروں کے لئے سویابین اُگانے کی ترغیب دینے کی کوشش کی جائے۔ اس تناظر میں مناسب تحقیق کے بعد انہوں نے گنے کی فصل سے جڑے چند زرعی رقبوں کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے ذریعے نشاندہی بھی کردی تھی۔
سویابین مگر ان دنوں پولٹری فارم چلانے والوں کو بآسانی مہیا نہیں ہورہا۔ معیشت سے نابلد ہوتے ہوئے میں نے فرض کرلیا کہ غالباََ پاکستان میں ڈالر کے بحران کو نگاہ میں رکھتے ہوئے وفاقی حکومت سویابین کی درآمد کی اجازت دینے میں تاخیر سے کام لے رہی ہے۔ مجھ سے گفتگو کرنے والوں نے تاہم یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہماری ضرورت کے مطابق سویابین کی معقول تعداد پاکستان پہنچ چکی ہے۔ اس سے پھوک نکالنے والے عمل کے بارے میں لیکن چند "طبی اعتراضات" اٹھائے جارہے ہیں۔ ان اعتراضات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مطلوبہ "پھوک" پولٹری فیڈ تیار کرنے والوں کو فراہم نہیں ہورہا۔ سویابین کے پھوک کے بغیر جو فیڈ تیار ہورہی ہے اس کی قیمت میں ویسے بھی اضافہ ہوچکا ہے۔ پولٹری کے جانور تیار کرنے والوں کا یہ دعویٰ ہے کہ مہنگی ہونے کے باوجود یہ فیڈ جانور کا وزن ڈیڑھ سے زیادہ کلو تک نہیں بڑھا پاتی۔ یوں ان کے منافع میں لاگت کے اضافے کے باوجود تیزی سے کمی آرہی ہے۔ دنیا کے ہر دھندے کی طرح پولٹری کا کاروبار کرنے والے افراد بھی زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے طلب گار ہوتے ہیں۔ انہیں یہ میسر آرہا ہو تو وہ اپنے کاروبار بند کرنا نہیں چاہیں گے۔ ان میں بلکہ مزید اضافے کی کوشش کریں گے۔ یہ کالم لکھتے ہوئے مجھے امید ہے کہ پولٹری کے دھندے سے آگاہ افراد میری رہ نمائی فرمائیں گے۔ اپنے فیڈ بیک کے ذریعے میرے علم میں اضافہ کریں گے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ کاروباری دھندوں پر جبلی طورپر کڑی نگاہ رکھنے والے موجودہ حکومت میں وزیر اعظم شہباز شریف سمیت کئی وزراءبھی پولٹری کی صنعت میں ابھرتے بحران سے کامل آگاہ ہوں گے۔ کاش ان کی جانب سے بھی کوئی تسلی بخش جواب فراہم ہوسکے۔