میرے وہ صحافی دوست درست ثابت ہوئے جو مصدقہ ذرائع اور متحرک روابط کی بنیاد پر مجھے سمجھاتے رہے کہ پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج کی وجہ سے شہباز شریف وزارت عظمیٰ سے ازخود مستعفی نہیں ہوں گے۔ پی ڈی ایم نامی اتحاد میں شامل جماعتوں کا منگل کے روز ایک اہم اجلاس ہوا۔ اس کے اختتام پر "ڈٹے" رہنے کا فیصلہ واضح انداز میں نظر آرہا ہے۔ جو فیصلہ ہوا ہے ذاتی طورپر میں اس کے حق میں نہیں۔ حکومت میں براجمان رہنے کا فیصلہ کرنیوالے مگر میرے برعکس جہاں دیدہ اور سرکردہ سیاست دان ہیں۔ اقتدار کے کھیل کو مجھ سے کہیں بہتر سمجھتے ہیں۔ وہ "کچھ دیکھ کر ہی گرے ہوں گے۔ "
وفاقی حکومت برقرار رکھنے کے علاوہ مجھے ایسی خبروں نے مزید پریشان کیا جو عندیہ دے رہی ہیں کہ 22جولائی کے دن چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ منتخب ہونے سے ہر صورت روکنے کی کوشش ہوگی۔ ممکنہ ہدف کے حصول کے لئے اگر مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین ہی پر انحصار رہے تو مجھ جیسے "اصولوں " کے خودساختہ پاسبان ہوئے قلم گھسیٹوں کو معترض نہیں ہونا چاہیے۔ چودھری پرویز الٰہی کے چند متوقع ووٹروں کو ریاستی دھونس یا دیگر ذرائع سے 22جولائی کے دن پنجاب اسمبلی کے اجلاس سے "غیر حاضر" دکھانے کی کوشش مگر ڈھٹائی کا اظہار کرتی نظر آئے گی۔ اس کی وجہ سے ہماری سیاست میں پہلے سے موجودہ تلخیاں شدید تر ہو جائیں گی۔ آبادی کے اعتبار سے ہمارا سب سے بڑا صوبہ مسلسل ابتری کی زد میں رہے گا۔ شہری متوسط طبقے کی بے پناہ اکثریت کو اس کی وجہ سے یہ پیغام بھی جائے گا کہ ہمارے سیاستدان خود کو برسراقتدار رکھنے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ "محلاتی سازشیں " صاف ستھری سیاست کے مقابلے میں کہیں زیادہ کارگر نظر آئیں گی۔
پنجاب میں ابھرتے منظر نامے کو مگر وقتی طورپر بھلاتے ہوئے وفاق کی جانب توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ شہباز شریف صاحب کا وزارت عظمیٰ پر ٹکے رہنے کا فیصلہ اس تناظر میں "ضد" کا عندیہ دے رہا ہے۔ لاہور سے ابھرے مسلم لیگ (نون) کے متحرک اور تجربہ کار سیاست دن خواجہ سعد رفیق نے منگل کے روز جو گفتگو کی ہے وہ یہ سوچنے کو بھی مجبور کررہی ہے کہ وفاقی حکومت کی "ضد" عمران خان صاحب کی جانب سے اپنائی "ضد" کا سوچا سمجھا ردعمل ہے۔
اپنے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کو عمران خان صاحب نے ایک لمحے کے لئے بھی سیاست کا روایتی ہتھیار تسلیم نہیں کیا ہے۔ وہ بضد ہیں کہ یہ تحریک امریکی ایما پر پیش ہوئی تھی۔ واشنگٹن ان کی "آزادوخودمختار" پالیسیوں سے نالاں ہوچکا تھا۔ اُکتاکر عمران حکومت کے خلاف ویسے ہی ہتھکنڈے اختیار کر نے کو مجبور ہوا جو 1950ء کی دہائی میں ایران کے قوم پرست ڈاکٹر مصدق کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے استعمال ہوئے تھے۔ ان ہتھکنڈوں کو Regime Changeفارمولا پکارا جاتا ہے۔ اپنے خلاف ہوئی مبینہ "امریکی سازش" کو وہ ٹھوس شواہد کیساتھ ابھی تک ثابت نہیں کر پا ئے ہیں۔ ان کے دیرینہ حامیوں کے علاوہ عام پاکستانیوں کی خاطر خواہ اکثریت بھی تاہم ان کے دعوے کو دل وجان سے تسلیم کرچکی ہے۔
"امریکی سازشوں " کے مقابلے میں پاکستانیوں کی اکثریت 1950ء کی دہائی کے وسطی سالوں ہی سے مجبور وبے کس محسوس کرنا شروع ہوگئی تھی۔ ان سازشوں کی وجہ سے ہمارے ہاں جمہوری نظام کبھی مستحکم ہی نہیں ہوپایا۔ امریکہ ریاستی اداروں سے ابھرے "دیدہ وروں " کے بھرپور تعاون سے اس خطے میں اپنے اہداف کے حصول کی کوشش کرتا رہا۔ 1980ء کی دہائی "افغان جہاد" کی نذر ہوگئی۔ رواں صدی کا آغاز ہوتے ہی افغانستان میں ان ہی "دہشت گردوں " کے خلاف جنگ برپا ہوئی جو گزشتہ صدی کے آخری ایام میں کمیونسٹ نظام کے خلاف لڑتے "مجاہد" تصور ہورہے تھے۔
ہمارے عوام کی بے پناہ تعداد شدت سے یہ محسوس کرتی ہے کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا جنون ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت گرنے اور انہیں پھانسی پر لٹکانے کا کلیدی سبب تھا۔ عمران خان صاحب سے مگر ایسا کوئی منصوبہ منسوب نہیں جو نظر بظاہر امریکہ کو اشتعال دلانے کا باعث ہو۔ روایتی اور سوشل میڈیا کے بھرپور استعمال کے ذریعے عمران خان صاحب نے مگر جارحانہ مستقل مزاجی سے خود کو امریکہ کے مقابلے میں ڈٹا خودداررہ نما ثابت کردیا ہے۔ امریکہ کے لتے لیتے ہوئے عمران خان صاحب ہمارے ریاستی اداروں سے وابستہ "میر جعفروں " کو بھی للکارنا شروع ہوگئے۔ اعلیٰ عدلیہ بھی اکثر ان کی تنقید کی زد میں رہی۔ ہمارے روایتی سیاستدانوں کی نظر میں ریاستی اداروں اور عدلیہ کو ناقدانہ انداز میں عوام کے روبرو زیر بحث لانا"ریڈ لائن" تصور ہوتا تھا۔ یوسف رضا گیلانی "توہین عدالت" کے جرم میں وزارت عظمیٰ سے فارغ کردئیے گئے تھے۔ نواز حکومت جب پانامہ سکینڈل کی زد میں آئی تو دانیال عزیز، نہال ہاشمی اور طلال چودھری جیسے ناقدوں کو فوراََ"سبق" سکھادیا گیا تھا۔
عمران خان صاحب اور ان کی جماعت کے سرکردہ رہ نمائوں کے رویے اور تلخ لہجہ کو گرفت میں لانے کی کوشش ہرگز نہیں ہوئی۔ انہیں میسر "آزادی اظہار" کی سہولت نے بتدریج حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کو یہ سوچنے کو مجبور کیا کہ عمران خان صاحب شاید آج بھی مبینہ طور پر اپنے "خالقوں کے لاڈلے" ہیں۔ مبینہ "لاڈلاپن" وہ شاید برداشت بھی کئے چلے جاتے۔ پنجاب کے انتخابی نتائج نے لیکن انہیں حواس باختہ بنادیا ہے۔ شہباز شریف اور ان کے اہم ترین وزراء شدت سے یہ محسوس کررہے ہیں کہ عوام کے لئے قطعی ناقابل قبول فیصلے لیتے ہوئے انہوں نے پاکستان کو "دیوالیہ" ہونے سے بچالیا ہے۔ عوام جبلی طورپر ایسے فیصلوں کو ہضم کرنے کے عادی نہیں ہوتے۔ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد جان لیوا مہنگائی کا جو طوفان اٹھا ہے اس کی بات لوگوں کے دلوں میں اُبلتے غصے کا بھرپور اظہار پنجاب اسمبلی کی 20نشستوں پر ہوئے انتخاب کے دوران ہوگیا۔ ان کے نتائج کی وجہ سے لگے زخموں کو سہلاتے ہوئے شہبازشریف اور ان کے اہم ترین وزراء مگر یہ سوچنا بھی شروع ہوگئے ہیں کہ جس ریاست کو "دیوالیہ" ہونے سے بچانے کے لئے انہوں نے "سیاسی خودکشی" جیسے اقدامات لئے مقتدر یا عدالتی حلقوں کی جانب سے بھی ان کی مناسب پذیرائی نہیں ہورہی۔ "قدر نہ جانی بے قدرا" والے گلے شکوئوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔ میری دانست میں خواجہ سعد رفیق کی جانب سے منگل کے روز ہوئی گفتگو دلوں میں اُبلتے وسوسوں کو برسرعام لانے کی پہلی کوشش تھی۔ میں اس ضمن میں "مزید" ہوتا دیکھ رہا ہوں جو اندھی نفرت وعقیدت پر مبنی تقسیم کو شدید تر بناسکتی ہے۔