قوت بینائی کے تحفظ کے لئے جلد سونے کی عادت اپنا رہا ہوں۔ منگل کی رات مگر بستر پر کروٹیں بدلتا موبائل اٹھاکر یہ جاننے کی کوشش کرتا رہا کہ حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذاکرات کا اختتام ہوگیا ہے یا نہیں۔ مذاکرات کا یہ "آخری رائونڈ" بتایا گیا تھا۔ اسی باعث تجسس یہ لاحق رہا کہ نتیجہ کیا برآمد ہوا ہے۔
رات کے ایک بجے کے قریب مذاکرات ختم ہوگئے۔ ان کے بدولت "خیر" کی امید دلانا ہوتی تو سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی اور فواد چودھری کے ہمراہ نتیجے کے منتظر رپورٹروں کے ہجوم سے باہم مل کر خطاب کرتے۔ معاملات سنبھلنے کے بعد اگر مزید پیش رفت کے متقاضی تھے تو ایک مختصر بیان بھی تیار کیا جاسکتا تھا۔ مذاکرات میں شامل کوئی بھی سینئر نمائندہ اسے میڈیا کے لئے پڑھ دیتا۔ یہ بیان ہمیں"مشترکہ اعلامیہ" کا تاثر فراہم کرتے ہوئے خیر کی امید دلاسکتا تھا۔
مذاکرات میں شامل حکومتی اور تحریک انصاف کے نمائندوں نے رپورٹروں سے مگر الگ الگ گفتگو کی۔ حکومت کی جانب سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ یہ دعویٰ کرتے سنائی دئیے کہ حکومت اور تحریک انصاف قومی اور (تمام)صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات "ایک ہی روز" منعقد کروانے پر متفق ہوگئی ہیں۔ اس تناظر میں حتمی تاریخ اگرچہ طے نہیں ہوپائی ہے۔ اس کے لئے غالباََ مذاکرات جاری رکھنا ہوں گے۔
اسحاق ڈار کے برعکس شاہ محمود قریشی مایوس اور تھوڑا برہم نظر آئے۔ ان کی دانست میں تحریک انصاف فقط اس امید کے ساتھ حکومت سے مذاکرات کو آمادہ ہوئی تھی کہ ان کے نتیجے میں قومی اور (تمام) صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات" ایک ہی دن" منعقد کروانے کی تاریخ طے ہوجائے گی۔ چونکہ مطلوبہ تاریخ طے نہیں ہوسکی اس لئے تحریک انصاف اب سپریم کورٹ کو تحریری طورپر مذاکرات کے دوران ہوئی گفتگو سے آگاہ کرے گی۔ علاوہ ازیں 14مئی کا ذکر بھی ہوا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی قیادت میں بنے ایک تین رکنی بنچ نے فیصلہ سنارکھا ہے کہ اس روز پنجاب اسمبلی کی تشکیل کے لئے انتخابات کا انعقاد ہو۔ شہباز حکومت مذکورہ حکم پر عملدرآمد کو تیار نہیں۔ اس کی جانب سے اس ضمن میں سپریم کورٹ کے روبرو رکھے جواز چیف جسٹس کو جائز محسوس نہیں ہورہے۔ عزت مآب چیف جسٹس صاحب کی جانب سے 14مئی کے روز انتخاب پر اصرار حکومت اور پارلیمان کو بطور ادارہ ریاست کے تیسرے ستون کے سامنے اپنی "بالادستی" ثابت کرنے کو اکسارہا ہے۔
پارلیمان کو ریاست کے دیگر اداروں پر "بالادست" ثابت کرنے کے لئے وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ نے "ازخود" الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق 21ارب روپے فراہم کرنے سے انکار نہیں کیا۔ غالبؔکی بیان کردہ "سادگی وپرکاری" کا معاملہ "مطالبہ زر" کی صورت قومی اسمبلی کے روبروپیش کردیا۔ حکومتی بنچوں پر موجود اراکین نے اسے منظور کردیا۔ پارلیمانی قواعد وضوابط کے عین مطابق ہوئی یہ "نامنظوری" چیف جسٹس صاحب کو میسر"توہین عدالت" والے ہتھیار کو کمزور بنانے کا سبب ہوئی ہے۔
"مطالبہ زر" کی قومی اسمبلی سے نامنظوری وزیر اعظم پر عدم اعتماد کا اظہار بھی تصور ہوسکتی تھی۔ سپریم کورٹ نے بھی اس جانب توجہ دلائی تھی۔ وہاں دئیے ریمارکس صدر علوی کو اس امر پر اکسا سکتے تھے کہ وہ شہباز شریف کو اپنی "اکثریت" ثابت کرنے کو ایک خط لکھ کر مجبور کریں۔ متوقع خط کا امکان بھانپتے ہی شہبازشریف نے اچانک قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرکے ایک بار پھر اپنی اکثریت اعتماد کا ووٹ لیتے ہوئے ثابت کردی۔ "توہین عدالت" کے الزام میں محض ان کی ذات کو نشانہ بنانا اب ممکن نہیں رہا۔ انہیں اعتماد کا ووٹ دینے والے اراکین قومی اسمبلی ان سے منسوب یا مبینہ "جرائم" کے اجتماعی شریک کار تصور ہوں گے۔
"توہین عدالت" کا ہتھیار اگر استعمال ہونا ہے تو یوسف رضا گیلانی یا نواز شریف کی طرح فقط وزیر اعظم کی ذات ہی اس کی زد میں نہیں آئے گی۔ مسلم لیگ (نون)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ایف) کے قائدین اور سرکردہ رہنما "توہین عدالت" کے الزام میں سیاسی عمل میں حصہ لینے کے لئے "نااہل" ٹھہرائے جاسکتے ہیں۔ ریاست کے ایک غیر منتخب "ستون" کے ہاتھوں کم از کم تین بڑی جماعتوں کے خلاف ہوئی یہ کارروائی وطن عزیز میں جاری خلفشار کو مزید بھڑکاسکتی ہے۔ اسی باعث چیف جسٹس "توہین عدالت" کے حوالے سے عاجلانہ اقدام کو تیار نہیں ہورہے۔ قابل ستائش تحمل کا مظاہرہ کررہے ہیں۔
"پارلیمان" مذکورہ تحمل کو سراہتی محسوس نہیں ہورہی۔ وجہ اس کی ایک نیا قضیہ ہے جو ازخود نوٹس کے حوالے سے حال ہی میں متعارف کروائے ایک قانون کی وجہ سے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ چیف جسٹس بندیال صاحب نے مذکورہ قانون کی بدولت قواعد وضوابط کے نام پر تیار ہوئی لگام کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ان کے انکار نے "پارلیمان" کو مزید مشتعل کیا۔ منگل کی سہ پہر وزیر دفاع خواجہ آصف کی قومی اسمبلی کے فلور پر ہوئی دھواں دھار تقریر حکومتی اشتعال کا بھرپور اظہار تھی۔
میری دانست میں البتہ منگل کے دن قومی اسمبلی میں حقیقی اور محاورے والی "باریک واردات" نور عالم خان نے ڈالی ہے۔ موصوف تحریک انصاف کے "منحرف" رکن شمار ہوتے ہیں۔ اپنی جماعت کی اکثریت کی طرح انہوں نے قومی اسمبلی سے استعفیٰ نہیں دیا۔ ان دنوں"اپوزیشن بنچوں" پر بیٹھتے ہیں۔ انکی ذات، سیاست اور رویے سے آپ کو سواختلافات ہوسکتے ہیں۔ اس حقیقت کو مگر جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ وہ "پبلک اکائونٹس کمیٹی" کے چیئرمین ہیں۔ یہ کمیٹی جس میں ایوان بالا کے نمائندے بھی موجود ہیں قومی خزانے سے مختلف اداروں کو دی رقوم کے خرچ پر نگاہ رکھنے کی "حقدار" ہے۔ اس کمیٹی نے اپنے "مینڈیٹ" کے تحت سپریم کورٹ سے بھی چند سوالات اٹھارکھے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب مذکورہ سوالات کو "عدلیہ کی آزادی" میں مداخلت تصور کرتے ہوئے نظرانداز کررہے ہیں۔
اب تک اپنائی نظر اندازی برقرا ر رکھنا مگر بتدریج مشکل تر ہوتا چلا جائے گا۔ موجودہ قومی اسمبلی میں موجود تمام اراکین (اور میں"تمام"کو خط کشید کررہا ہوں )اگر خود کو ایک "خصوصی کمیٹی" کی شکل دے کر سپریم کورٹ سے "وسیع تر عوامی مفاد" میں چند سوالات پوچھیں تو ان کے جواب فراہم کرنے سے انکار بہت مشکل ہوجائے گا۔ اقتدار اور اختیار پر کنٹرول کے حوالے سے ریاست کے دوستونوں کے مابین ایک اور "جنگ" سے لطف اندوز ہونے کے لئے لہٰذا تیار رہیں۔ بطور رعایا ہم صدیوں سے جبلی طورپر بے اختیار ہی رہے ہیں۔ اب ہماری اشرافیہ "اپنے اپنے" اختیار کی جنگ لڑرہی ہے۔ ہم "ذلتوں کے مارے" اس جنگ سے لطف اندوز نہ ہوں تو اورکیا کریں۔