دوبرس قبل پلوامہ میں ہوئے واقعہ کے بعد پاک-بھارت کشیدگی ان دو ممالک کو ایک اور جنگ کی جانب دھکیلتی نظر آئی تھی۔ بھارت نے اس واقعہ کا "بدلہ" رات کی تاریکی میں بالاکوٹ پر ہوئے فضائی حملے کے ذ ریعے لینے کی کوشش کی۔ اس حملے کی بدولت اس نے کیا حاصل کیا وہ اسے دُنیا تو کیا اپنے ہی عوام کو بھی مگر دکھانہیں پایا۔ پاکستان نے البتہ اس کے عین ایک دن بعد دن کی روشنی میں اپنے لڑاکا طیارے مقبوضہ کشمیر کی فضائوں میں بھیج دئیے۔ مقابلہ ہوا جس کے نتیجے میں بھارت کا ایک طیارہ پاکستان کی سرحد کے اندر مارگرایا۔ اس کا پائلٹ گرفتار ہوا جسے چائے پلاکر بالآخر بھارت کے حوالے کردیا گیا۔
بھارتی پائلٹ کی رہائی سے قبل مگر ماحول یہ بناکہ دونوں ممالک نے جنگ کو مزید بڑھانے کے لئے ایک دوسرے پر میزائلوں کی بارش برسانے کی تیاری شروع کردی۔ اسے روکنے کو دونوں ممالک پر اثرورسوخ کے حامل کئی ممالک متحرک ہوگئے۔ اس ضمن میں اہم ترین کردار سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ادا کرتے نظر آئے۔ ان کی اعلیٰ ترین قیادت نے پاکستان اور بھارت کی حکومتوں سے مسلسل رابطہ رکھا۔ نظر بظاہر پاکستان ان کی کاوشوں سے راضی ہوگیا کہ بھارتی پائلٹ کو رہا کرتے ہوئے "خیرسگالی" کا پیغام بھیجے اور یوں جنگ ٹل گئی۔
خلیجی ممالک کو ممکنہ جنگ ٹالنے کا کریڈٹ دینے سے قبل لیکن ہمیں اس حقیقت کو بھی یاد رکھنا ہوگا کہ بھارتی پائلٹ کی رہائی کا عندیہ ٹی وی کیمروں کے روبرو سب سے قبل امریکی صدر ٹرمپ نے دیا تھا۔ وہ مشرقی ایشیاء میں شمالی کوریا کے ساتھ ایک "دوستانہ" ملاقات کی توقع لئے موجود تھا۔ ایسی ملاقات تو اسے میسر نہیں ہوئی۔ صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے مگر اس نے توجہ جنوبی ایشیاء میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کی جانب موڑ دی۔ ساتھ ہی یہ اعلان بھی کردیا کہ بالآخر اسے وہاں سے "اچھی خبر" کی توقع ہے۔ ٹرمپ کی مذکورہ گفتگو کے تقریباََ چار گھنٹے بعد پاکستان کے وزیر اعظم ہماری پارلیمان میں کھڑے ہوئے اور بھارتی پائلٹ کی رہائی کا اعلان کردیا۔ ان کے اعلان نے واضح پیغام دیا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین ایک اور جنگ روکنے کے لئے حتمی کردار درحقیقت دُنیا کی واحد سپرطاقت شمار ہوتے ملک ہی نے ادا کیا تھا۔ خلیجی ممالک نے اس تناظر میں محض سہولت کاری کی فضا بنائی۔
بھارتی پائلٹ کی "خیرسگالی" کے جذبے کے تحت رہائی بھی تاہم پاک-بھارت تعلقات کو معمول پر لانے میں ناکام رہی۔ 2019کی انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی بلکہ سینہ پھلاکر بڑھک لگاتا رہا کہ پلوامہ کے جواب میں بالاکوٹ پر فضائی حملے کے ذریعے اس نے پاکستان کو "سبق" سکھادیا تھا۔ اپنی بڑھکوں کی بدولت وہ ایک بار پھر پہلے سے زیادہ اکثریت کے ساتھ بھارت کا وزیر اعظم منتخب ہوگیا۔ اپنی سوچ اور جماعت کے لئے مزید ووٹ حاصل کرنے کے بعد اس کا رویہ مگر مزید جارحانہ ہوگیا۔ بھارتی مسلمانوں کو شہریت کے حوالے سے بنائے قوانین کے ذریعے مزید تھلے لگانے کی کوشش ہوئی۔ مقبوضہ کشمیر کے ضمن میں تو "تاریخی" پیش قدمی بھی دکھادی گئی۔
پاکستان کے وزیر اعظم کو جولائی 2019میں وائٹ ہائوس مدعو کرنے کے بعد امریکی صدر نے مسئلہ کشمیر کادائمی حل تلاش کرنے کے لئے ازخود ثالثی کی پیش کش کرتے ہوئے ہمیں خوش گوار حیرت میں مبتلا کردیا۔ مذکورہ پیش کش کا ذکر کرتے ہوئے ٹرمپ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جاپان کے شہر اوساکا میں ہوئی ایک ملاقات کے دوران اس سے پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کے لئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
مودی سرکار ٹرمپ کے دعویٰ کو برسرعام جھٹلانے کی جرأت نہیں دکھاپائی۔ نہایت خاموشی اور مکاری سے مگر اس نے بھارتی پارلیمان کو اس ملک کے آئین کے آرٹیکل 370کے خاتمے کے لئے تیار کرنا شروع کردیا۔ 5اگست2019کے دن بالآخر اس شق سے جان چھڑالی گئی جس نے مقبوضہ کشمیر کو دکھاوے کی "خودمختاری" فراہم کررکھی تھی۔ ماضی کی ریاست جموں وکشمیر کو اس کے بعد دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ دونوں حصے فی الحال "Union Territory"شمار ہوتے دلی سے براہِ راست حکومت کی زد میں ہیں۔ ماضی کی ریاستِ جموں وکشمیر سے جدا کئے لداخ کو آئندہ کئی برسوں تک یوں ہی چلانے کا ارادہ ہے۔ باقی بچے جموں وکشمیر میں تاہم انتخابات کے ذریعے صوبائی اسمبلی بحال کرنے کے اشارے دئیے جارہے ہیں۔ وہاں تک پہنچنے سے قبل تاہم مقبوضہ وادی کو کئی مہینوں تک باقی دُنیا سے مواصلاتی رابطوں پر کامل پابندی کے ذریعے ایک وسیع وعریض جیل میں تبدیل کردیا گیاتھا۔ گزشتہ دو ماہ سے اگرچہ کچھ "نرمی" دکھائی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی نوعیت کی "لچک" کا مظاہرہ نہیں ہورہا۔
کامل کشیدگی کے اس تناظر میں 2021کی فروری کے آخری ہفتے میں آئی یہ خبرحیران کن تھی کہ دونوں ممالک نے کشمیر پر قائم لائن آف کنٹرول پر 2003میں واجپائی اورجنرل مشرف کے مابین ہوئے سیز فائر والے معاہدے کے مکمل احترام کا فیصلہ کیا ہے۔ مذکورہ اعلان کے لئے دونوں جانب سے مشترکہ طورپر تیار ہوا بیان عوام کے روبرو دلایا گیا۔ سفارت کاری کی باریکیوں سے قطعی نابلد افراد بھی یہ سوچنے کو مجبور ہیں کہ فروری 2021کے آخری ہفتے میں ہوا اعلان "اچانک" نہیں ہوا۔"بیک ڈور" سفارت کاری یا خفیہ رابطوں نے اس کی راہ ہموار کی۔ خارجہ امور پر نگاہ رکھنے والا پاکستان یا بھارت کا کوئی ایک بھی "پھنے خان" رپورٹر ابھی تک دریافت نہیں کرپایا ہے کہ ممکنہ سفارت کاری کیسے اور کن پیغامبروں کے ذریعے حیرتوں کے سامان فراہم کرنے کے قابل ہوئی ہے۔
سیز فائر والے معاہدے کے احیاء کے بعد اسلام آباد میں گزشتہ ہفتے ایک کانفرنس بھی ہوئی ہے۔ ہمارے تھنک ٹینکوں سے وابستہ خارجہ امور کے کئی ماہر اس میں شریک ہوئے۔ اس کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے وزیر اعظم نے خطاب بھی کیا۔ بھارت کو اس خطاب کے ذریعے اپنا رویہ بدلنے کی تلقین کی۔ اس خطاب کے عین ایک دن بعد مگر پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے ماضی کو بھلاتے ہوئے مستقبل کی جانب بڑھنے والی تقریر فرمائی۔ ان کے مفصل خطاب نے واضح طورپر عندیہ دیا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات ایک بار پھر نہ صرف معمول پر لانے بلکہ بتدریج انہیں ایک نئی جہت سے روشناس کروانے کی جامع پالیسی مرتب ہوچکی ہے۔ اب اسے بروئے کار لانے کے مراحل سے گزرنا ہے۔
مذکورہ بالا تناظر میں فی الوقت امید یہ باندھی جارہی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کے درمیان مارچ 30کے روز دوشنبہ میں ہوئی ایک بین الاقوامی کانفرنس کی سائیڈلائن پر الگ سے ملاقات ہوگی۔ اس کے نتیجے میں بھارت اور پاکستان اسلام آباد اور دلی میں اپنے سفیر دوبارہ تعین کردیں گے۔ حالات کومعمول پر لانے کی جانب اسے پہلا ٹھوس قدم تصور کیا جائے گا۔ اس کے بعد کیا ہونا ہے؟ اس کی بابت بھی خارجہ امور کے عمومی طورپر "ماہر" شمار ہوتے اخبار نویس اور تبصرہ کاروں کو رتی بھرخبر نہیں۔ محض "ٹیوے" لگاتے ہوئے "دانشوری" فرمارہے ہیں۔
آج سے چند برس قبل تک میں بھی خود کو خارجہ امور کا ماہر تو نہیں پاک-بھارت تعلقات کے حوالے سے باخبر ترین رپورٹر وں میں ضرور شمار کرتا تھا۔ عرصہ ہوا اپنی "اوقات" میں لوٹ چکا ہوں۔"ٹیوے" لگانے کی عادت مگر اپنی جگہ برقرار ہے۔ مجھے گماں ہے کہ بتدریج بھارت کو اس امر پر آمادہ کیا جائے گا کہ وہ سارک نامی تنظیم کو متحرک بنانے میں مدد کرے۔ 2016سے یہ تنظیم سردخانے میں پڑی ہے۔ اس برس کے اختتام پر پاکستان کی میزبانی میں اس تنظیم کا سربراہی اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہونا تھا۔ اڑی میں ہوئے ایک واقعہ کی بدولت مودی سرکار نے اس میں شمولیت سے انکار کردیا تھا۔ اب کوشش ہوگی کہ 2021کے اختتام میں اس کانفرنس کا انعقاد ہو۔ مودی اس میں شریک ہونے کے لئے پاکستان آئے۔ دیکھئے بات کہاں تک پہنچے۔
دریں اثناء یہ کالم لکھنے سے چند ہی لمحے قبل میرے صحافی دوستوں نے فون کے ذریعے ایک بین الاقوامی اور اچھی ساکھ رکھنے والی خبررساں ایجنسی کی جاری شدہ ایک خبر بھیجی ہے۔ اس نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین برف پگھلانے میں متحدہ عرب امارات کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔ ٹھوس اطلاعات سے قطعی نآشنا ہوتے ہوئے بھی میں اس خبر میں بیان کردہ دعویٰ کو من وعن تسلیم کرنے کو آمادہ نہیں ہورہا۔ اپنے یوٹیوب چینلوں کے ذریعے ہمیں "اندر کی خبر" دینے والے محبانِ وطن حق گوہی اس ضمن میں حقیقی رہ نمائی فراہم کرسکتے ہیں۔