Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Salisi Banne Ke Shoq Mein Mushawarat Ki Shatirana Tajweez

Salisi Banne Ke Shoq Mein Mushawarat Ki Shatirana Tajweez

پارلیمانی کارروائی کے مشاہدے کی بدولت میں نے صحافت میں تھوڑا نام کمایا ہے۔ 1985ءسے رواں برس کے وسط تک قومی اسمبلی اور سینٹ کے ہر اجلاس کو پریس گیلری میں بیٹھ کر دیکھتا رہا ہوں۔ کمر اور آنکھوں کی تکلیف نے مگر چند ہفتوں کے لئے کار چلانے سے روکا ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے پارلیمان بھی نہیں جاسکتا اور اس کی بابت بہت اداس محسوس کرتا ہوں۔ گزرے ہفتے جمعرات کی شام مگر بہت چاؤ سے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس شروع ہونے سے ایک گھنٹہ قبل ہی ایک دوست کی معاونت سے وہاں چلا گیا۔ صدر عارف علوی کو اس روز نئے پارلیمانی سال سے وابستہ روایتی خطاب کرنا تھا۔

علوی صاحب تحریک انصاف کے بانی اراکین میں نمایاں ترین رہے ہیں۔ عمران خان صاحب نے ان کی وابستگی کو ذہن میں رکھتے ہوئے وطن عزیز کا صدر بنوایا۔ ہمارا تحریری آئین اس عہدے کو وضاحت سے محض علامتی قرار دیتا ہے۔ عمران حکومت کے دوران علوی صاحب بھی مطلوبہ کردار فدویانہ انداز میں ادا کرتے رہے۔ تحریک عدم اعتماد کی بدولت جب ان کے قائد مگر وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوگئے تو نہایت ڈھٹائی سے نئی حکومت کے لئے آئین کی من پسند تشریحات سے مشکلات کھڑی کرتے رہے۔ ان دنوں اگرچہ "بدلے بدلے میرے سرکار" نظر آرہے ہیں۔ انہیں اب یہ گماں لاحق ہوا نظر آرہا ہے کہ وہ خود کو بتدریج ایسی "باوقار اور غیر جانبدار" تصور ہوتی شخصیت کا مرتبہ دلواسکتے ہیں جو اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے موجودہ پاکستان میں"ثالث" کا کردار ادا کرے اور ملک کو مزید ہیجان اور خلفشار سے محفوظ بنائے۔

خود کو "باوقار" ثابت کرنے کی کاوشوں میں مصروف عارف علوی مگر گزرے جمعرات کی شام تاریخی شرمساری سے دو چار رہے۔ ان کی مادر جماعت یعنی تحریک انصاف سے وابستہ سینیٹروں نے ان کے خطاب کا "بائیکاٹ" کیا۔ جس "مقننہ"کے نئے پارلیمانی سال کا آغاز کرنے وہ ایوان میں آئے وہاں وفاقی حکومت کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنی نشست سے کھڑے ہوکر ان پر آوازے کسے۔ عارف علوی کمال ڈھٹائی سے پرامٹرپر نظر جمائیں اپنے خطاب کو طولانی بناتے چلے گئے۔ ان کی آدھی تقریرکے بعد ایوان میں فقط پندرہ اراکین اپنی نشستوں پر بیٹھے ایک دوسرے سے گپ بازی میں مصروف رہے۔

صدر کا پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب سننے کے لئے اسلام آباد میں تعینات غیر ملکی سفارت کاروں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ ان سے مختص گیلری مہمانوں سے بھری ہوئی تھی۔ سفارت کار اپنے جذبات چھپانے کے ماہر ہوتے ہیں۔ عارف علوی کے خطاب کے دوران ان کی اکثریت مگر اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے مضحکہ خیز تماشے کی بابت اپنے جذبات چھپانہیں پائی۔ انکے چہرے کامل اُکتاہٹ اور بیزاری کا اظہار تھے۔ علوی صاحب نے مگر انگریزی محاورے والی جلد کو مزید "سخت" (Thick)بنارکھا ہے۔ "ثالث" کا رتبہ حاصل کرنے کو بے تاب نظر آرہے ہیں۔

خود کو "باوقار ثالث" کا مقام دلوانے کی خاطر ہی انہوں نے ہماری ایک بہت ہی محنتی اور رپورٹر سے معروف ٹی وی اینکر ہوئی عاصمہ شیرازی کو ایک انٹرویو بھی دیا ہے۔ رپورٹر کی مہارت کو ہوشیاری سے بروئے کار لاتے ہوئے عاصمہ نے علوی صاحب کی زبان سے "سائفر کہانی" کا کھوکھلا پن عیاں کروادیا۔ عمران خان صاحب کے مخالف اس کی بابت بہت شاداں محسوس کررہے ہیں۔ "سائفر کہانی" کے ضمن میں علوی صاحب کے ادا کردہ جملے سوشل میڈیا پر وائرل ہورہے ہیں۔

سیاست کے سنجیدہ طالب علموں کے لئے تاہم صدر عارف علوی کی عاصمہ شیرازی کے انٹرویو ہی کے دوران بیان کردہ یہ خواہش تھی کہ آرمی چیف کی تعیناتی "مشاورت" کی متمنی ہے۔ صدر مملکت یا وزیر اعظم کا انٹرویو کرتے ہوئے چند آداب کو ملحوظ خاطر رکھنا صحافیانہ مجبوری ہے۔ عاصمہ نے یہ تقاضہ بھلے انداز میں نبھایا۔ "مشاورت"، کی تجویز کی بابت اپنے مہمان کو شرمندہ وپشیمان کرنے والے سوالات اٹھانے سے گریز کیا۔ عارف علوی کی شاطرانہ چال اس کے باوجود بے نقاب ہوگئی۔

"مشاورت" کی "عاجزانہ" انداز میں تجویز پیش کرتے ہوئے ہمارے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھانے والے صدر عارف علوی نے درحقیقت تحریری طورپر لکھی اس شق کو غیر متعلق بنانے کی کوشش کی جو منتخب وزیر اعظم کو آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے واضح انداز میں کامل اختیار فراہم کرتی ہے۔ "مشاورت" کے بہانے درحقیقت وہ یہ چاہ رہے ہیں کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے وقت ان کے قائد عمرا ن خان صاحب کی ترجیح کو بھی ذہن میں رکھا جائے۔ پہلی نظر میں عارف علوی کی بیان کردہ خواہش معصوم اور نیک نیتی پر مبنی نظر آئے گی۔ اس پر عملدرآمد مگر ہمارے تحریری آئین کو طویل المدت تناظر میں عدم استحکام کی جانب دھکیلنا شروع ہوجائے گا۔

"مشاورت" کی بات چل نکلی تو کل کلاں چند سیاسی جماعتیں یکسو ہوکر یہ مطالبہ بھی کرنا شروع ہوجائیں گی کہ آرمی چیف کی تعیناتی سے قبل وزیر اعظم پارلیمان کی خصوصی طورپر بنائی ایک کمیٹی سے بھی "مشاورت" کے لئے رجوع کریں۔ ان کی خواہش کو تھوڑی پذیرائی مل گئی تو بالآخر یہ مطالبہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی سے قبل وزارت دفاع کی جانب سے بھیجی جو سمری آئے اس میں شامل نام مذکورہ کمیٹی کے روبرو بھی پیش ہوں۔ پاکستان کو مزید ہیجان اور خلفشار سے بچانے کے لئے لہٰذا لازمی ہے کہ "مشاورت" کی تجویز کو فی الفور شدت سے رد کردیا جائے۔

افواج پاکستان میں افسروں کی ترقی کا عمل کئی چھلنیوں سے گزرتا ہے۔ ان سے گزرے تین سے پانچ سینئر ترین جنرل ہی ممکنہ آرمی چیف کی تعیناتی کے لئے تیار ہوئی سمری میں شامل ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم اس میں سے کسی ایک ہی کو منتخب کرسکتا ہے۔ ہماری تاریخ یہ بات بھی ثابت کرچکی ہے کہ تعیناتی کے بعد کوئی بھی آرمی چیف تعینات کرنے والے کا "احسان مند" محسوس نہیں کرتا۔ اس کے ادارے کی اجتماعی سوچ ہی اس کی ترجیحات کا تعین کرتی ہے۔ آرمی چیف کی تعیناتی کے عمل کو خدارا ویسے ہی برقرار رہنے دیں جو ہمارے تحریری آئین نے طے کررکھا ہے۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.