خارجہ امور کی بابت لکھنے سے میں گریز کرتا ہوں۔ سیاسی میدان میں لگے تماشے دیہاڑی لگانے کے لئے وافر مواد فراہم کردیتے ہیں۔ پھکڑ پن کی گنجائش نکل آتی ہے اور سوشل میڈیا سے لائیکس اور شیئرز کے حصول کی ہوس کو بھی تسکین مل جاتی ہے۔ گزشتہ ہفتے کا آخری کالم لکھتے ہوئے مگر "دانشوری" جھاڑنا پڑی۔
پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری "بھارت" جارہے تھے۔ بھارت کے گرد کومے میں نے اس لئے لگائے ہیں کہ اصولی طورپر وہ اس ملک کے دورے پر نہیں گئے تھے۔ وہاں کے ساحلی شہر گوا میں ایک بین الاقوامی تنظیم کا اجلاس تھا۔ شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن (ایس سی او) اس کا نام ہے۔ اس کا نام ہی عندیہ دیتا ہے کہ مذکورہ تنظیم کا قیام ہمارے دیرینہ دوست چین کے تجارتی مرکز شنگھائی میں ہوا تھا۔ مقصد اس کا چین اور اس کے ہمسایوں کے مابین اقتصادی روابط کو مضبوط تر بنانا ہے۔
علاقائی ممالک کے مابین اقتصادی روابط کی بات چلے تو ان کے باہمی اختلافات اگر فی الفور حل ہونہ سکیں تب بھی انھیں وقتی طورپر بالائے طاق رکھنا ہوتا ہے۔ چین اور بھارت مثال کے طورپر 1960ءکے آغاز سے ایک سرحدی، قضیے میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ سے 1962ءکی بھارت-چین جنگ ہوئی۔ بھارت کو اس جنگ کی وجہ سے شرمناک ندامت سے دو چار ہونا پڑا تھا۔
نہرو حکومت نے غیر جانبداری، کے نام پر خود کو امریکا سے دور رکھا ہوا تھا۔ چین کے ہاتھوں شکست کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان دنوں کے صدر کنییڈی نے بھارت سے روابط بڑھانے کی کوشش کی۔ پاکستان نے اس کے رویے کو بے وفائی، تصور کیا۔ فیلڈمارشل ایوب خان کی فراست، کی بدولت ہم 1950ءکی دہائی سے امریکا کی جانب سے کمیونسٹ ممالک کے خلاف بنائے بلاک کا حصہ بن چکے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ امریکہ اس خطے میں فقط ہمارا یار، ہے۔ وہ ہمارے ازلی دشمن، کو جس نے ہمیشہ اسے فاصلے پر رکھا منہ نہیں لگائے گا۔
بین الاقوامی تعلقات میں لیکن کوئی بھی ریاست کسی دوسری ریاست کی یار، نہیں ہوتی۔ ہر ریاست کے مخصوص مفادات ہوتے ہیں۔ دیکھنا یہ پڑتا ہے کہ کس ملک سے قربت مذکورہ مفادات کے لیے فائدہ مند ہے۔ بھارتی حکومت نے ان ہی تقاضوں کے تحت امریکا کو 1960ءکی دہائی میں یک دم جپھی نہیں ڈالی۔ سوویت یونین کے ساتھ اس کے دیرینہ تعلقات تھے۔ چین بھی اس کا یار، ہوا کرتا تھا۔ سٹالن کے انتقال کے بعد مگر ماؤزے تنگ نے نئی روسی قیادت کو کمیونسٹ اصولوں سے روگردانی کا مرتکب ٹھہرانا شروع کردیا۔ امریکی سامراج اور روسی ترمیم پسندوں، کے علاوہ بھارتی توسیع پسند، بھی چین کے یکساں دشمن قرار پائے۔ چین-روس دوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت روس کے مزید قریب ہونا شروع ہوگیا اور یوں اپنے مفادات کے تحفظ کے علاوہغیر جانبداری، کا بھرم بھی برقرار رکھا۔
دریں اثنا1965ءمیں پاک-بھارت جنگ چھڑگئی۔ صدر ایوب کو گماں تھاکہ مشکل کی اس گھڑی میں امریکا ہمارے ساتھ کھڑا ہوگا۔ وہ مگر غیر جانبدار، ہوگیا۔ بالآخر ان دنوں سوویت یونین کا حصہ ہوئے تاشقند ہی میں روس کی معاونت سے پاک-بھارت صلح کا معاہدہ ہوا۔ یہ صلح اگرچہ پانچ برس سے زیادہ برقرار نہیں رہ پائی۔ 1971ءمیں بھارت نے دیدہ دلیری سے بنگلہ دیش کے قیام کی راہ فوجی مداخلت کے ذریعے ہموار کی۔ روس نے اس ضمن میں اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ ہم اس وقت امریکا کے پانچویں (بحری)بیڑے، کا انتظار ہی کرتے رہے۔
لمبی تمہید کا مقصد اصرار کرنا ہے کہ وقت کبھی ساکت نہیں رہتا۔ نظریات، اور اصولوں، کو بھلاتے ہوئے ماؤزے تنگ ہی نے امریکی سامراج، کے ساتھ 1970ءکی دہائی کا آغازہوتے ہی روابط شروع کردیے تھے۔ کٹرکمیونسٹ نظریات ریاست کے طویل المدت مفادات کی خاطر بالائے طاق رکھ دیے گئے۔
ماؤزے تنگ کے انتقال کے بعد ڈینگ سیاؤپنگ کی قیادت میں چین نے اپنے ملک کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے کھول دیا۔ آبادی کے اعتبار سے دنیا کے سب سے بڑے ملک میں موجودسستی لیبر، نے دنیا بھر کے صنعت کاروں کو وہاں سرمایہ کاری کو راغب کیا۔ چینی نوجوانوں کی خیرہ کن تعداد بھی امریکا اور یورپی ممالک کی یونیورسٹیوں میں جدید علم کے حصول کے لیے عموماً چینی حکومت کے دیے وظیفوں سے جانا شروع ہوگئی۔
دہائیوں تک تسلسل سے جاری رکھی ایسی پالیسیوں کی بدولت اب چین بذات خود اقتصادی اعتبار سے امریکا کے ہم پلہ ہونے کو ہے۔ اقتصادی طورپر توانا ہوجانے کے بعد ریاستیں عالمی امور، میں بھی اپنا اثربڑھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ایس سی او نامی تنظیم اس کوشش کی نمائندہ ہے۔ پاکستان اس تنظیم کے بنیادی اراکین میں شامل ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ کا لہٰذا بھارت کے شہر گوا میں مذکورہ تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شریک ہونا لازمی تھا۔
اس بنیادی حقیقت کو مگر ہمارے محبان وطن، کی اکثریت سمجھ ہی نہیں پائی۔ دہائی مچانا شروع ہوگئی کہ پاکستان کے وزیر خارجہ کو بھارت، ہرگز نہیں جانا چاہیے تھا۔ اگست 2019ءمیں مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے لیے بھارتی آئین میں موجود آرٹیکل 370کو ختم کردیا تھا۔ اب ماضی کی ریاست کو دو حصوں میں بانٹ کر دونوں حصوں کو براہ راست دلی سے چلایا جارہا ہے۔ وادیِ کشمیر میں محصور ڈیڑھ کروڑ انسان اس عمل کے بعد ایک وسیع تر جیل کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری کے دورئہ بھارت، کی وجہ سے ہمارے محبان وطن، کے پیٹ میں مروڑ اٹھا تو میرا جھکی ذہن یہ سوچتا رہا کہ اگست 2019ءمیں ہمارے ہاں کون تخت نشین تھا۔ اپریل 2022ءتک عمران خان اور ان کی جماعت برسراقتدار رہی تھی۔ بھارت مگر 2019ءمیں ہوئے فیصلے سے رجوع کو تیار نہیں ہوا۔ دکھ کی بات ہے بلاول بھٹو زرداری کے دورئہ بھارت پر ماتم کنائی میں اگست 2019ءمیں تخت نشین ہوئے افراد ا ور ان کے حامی ہی نمایاں رہے۔
اسی باعث عادت سے ہٹ کر گزشتہ ہفتے کے آخری کالم میں یہ لکھنے کو مجبور ہوا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ کا ایس سی او کے اجلاس میں شریک ہونا ضروری تھا۔ اصولی طورپر وہ بھارت، نہیں وہاں کے ساحلی شہر گوا گئے ہیں جہاں مذکورہ تنظیم کا اجلاس ہورہا ہے۔ یقین مانیں اگر ان دنوں بھی تحریک انصاف ہمارے ہاں برسراقتدار ہوتی اور اس کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس اجلا س کے لیے گواجاتے تو میں ان کے سفر کے دفاع کو بھی مجبور ہوتا۔ ریاستی مفادات کو جذبات کا غلام نہیں بنایا جاسکتا۔ چین کو ہرصورت راضی رکھنا آج کے حقائق میں ہماری اولیں ترجیح رہنا چاہیے۔
یہ حقیقت بھی یاد رکھیں کہ چین نے ہمارے رویہ کی قدر کی ہے۔ کن چانگ حال ہی میں وہاں کے نئے وزیر خارجہ تعینات ہوئے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کی طرح وہ بھی گوا ایک بین الاقوامی، فورم میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ گوا سے لیکن وہ پاکستان آئے اور ہمارا ملک وہ پہلا ملک ہے جس کا دورہ وہ اقتدار سنبھالنے کے بعد کررہے ہیں۔ ان کی یہاں موجودگی کے دوران افغان وزیر خارجہ کو اسلام آباد لانے کا بندوبست بھی ہوا۔
اقوام متحدہ کی لگائی پابندیوں کی وجہ سے وہ غیر ملکی سفرنہیں کرسکتے۔ ان کے لیے مگر خصوصی استثناءکا بندوبست ہوا۔ چین نے لہٰذا پاکستان کے ساتھ مل کر سہ طرفی مذاکرات کے ذریعے افغانستان کو مائل کرنا چاہا ہے کہ وہ سخت گیر اصولوں پر اٹکے رہنے کے بجائے قومی اور علاقائی استحکام اور خوشحالی پر توجہ دے۔