انسانی المیوں کو اپنے قارئین کے روبرو لاتے ہوئے اخبارات بسااوقات ایک تصویر کو ہزاروں لفظوں سے بھاری تصور کرتے ہیں۔ بدھ کے دن میں نے ایسی ہی ایک تصویر دیکھی۔ وہ کسی اخبار میں نہیں چھپی تھی۔ سندھ کے سیلاب زدہ دیہات میں متحرک ایک سماجی کارکن نے مجھے بھیجی۔ اسے دیکھنے کے بعد میں گھنٹوں اداس رہا۔
سندھ کی ایک ماں اپنے کنبے کوہمراہ لئے کسی "محفوظ مقام" کی جانب سفر کررہی تھی۔ اس کے سرپرٹین کا بنا ایک ٹرنک تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے فوراََ یہ خیال ذہن میں آیا کہ غالباََ اپنا گھر چھوڑتے ہوئے خاتون نے ٹرنک میں کوئی زیور یا دیگر قیمتی اشیاءڈال لی ہوں گی۔ وہاں متحرک رضا کاروں کو مگر اس نے کھول کر دکھایا تو ٹرنک میں پانی کی ایک بڑی بوتل، پکے ہوئے کھانے کے چند ڈبے، توا اور اس پر رکھے روٹی کے چند ٹکڑے تھے۔ سادہ الفاظ میں کھانے پینے کی چند اشیائ۔ "ہنگامی رسد"جو دو یا تین افراد کو محض چند گھنٹوں کی فوری طبی امداد جیسا سہارا فراہم کرسکتی تھی۔ جو تصویر میں نے دیکھی اس کے پس منظر میں ایسے ہی چند اور ٹرنک بھی نظر آئے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ وہ بھی قیمتی اشیاءکے بجائے ہنگامی صورت حال سے نبردآزما ئی کے قابل بناتی خوراک کی رسد سے لدے ہوئے تھے۔
مذکورہ تصویر بھیجنے والے میرے بہت عزیز دوست ہیں۔ ان سے برسوں کاخاندانی رشتوں جیسا تعلق ہے۔ وہ "سندھ رورل سپورٹ آرگنائزیشن" نامی این جی او کے سرکردہ رکن بھی ہیں۔ یہ تنظیم سندھ کے 15اضلاع میں ان دنوں سیلاب زدگان کو خشک خوراک فراہم کرنے کی تگ ودو میں مصروف ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ راشن بانٹتے ہوئے کنبے کی ماں پر بھروسہ کیا جائے۔ مجھے خبر نہیں کہ اپنے محدود وسائل کے ساتھ وہ کتنے کنبوں کی مدد کے قابل ہیں۔
اس تصویر کو دیکھ کر مگر حوصلہ ہوا کہ چند غیر سرکاری تنظیمیں بھی اب سیلاب زدگان کی مدد کو متحرک ہوچکی ہیں۔ وہ تصویر آنے تک اگرچہ میں اس گماں میں مبتلا رہا کہ سیلاب زدگان فقط سرکاری امداد کے منتظر ہیں جو بروقت ان تک پہنچ نہیں پارہی ہے۔ ٹویٹر پر متحرک چند انسان دوست سندھی نوجوان آفت کی اس گھڑی میں اپنے تئیں چندے کی اپیل کرتے ہوئے سیلاب زدگان کی مدد کرنا چاہ رہے تھے۔ ذاتی کاوشوں سے وہ پندرہ سے زیادہ کنبوں ہی کو خالی ہوئے کسی سکول میں پناہ دلاکر خوراک پہنچاسکتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر امداد کا بندوبست فقط غیر سرکاری تنظیموں کی بدولت ہی ممکن ہے۔
"این جی اوز" کو ہمارے ہاں گزشتہ چند دہائیوں سے "غیر ملکی ایجنڈا" پھیلانے کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے معتوب بنادیا گیا ہے۔ عام پاکستانیوں کی اکثریت ان سے وابستہ ہونے سے اب گھبراتی ہے۔ عالمی سطح پر متحرک غیر ملکی تنظیموں کا رُخ ویسے بھی گزشتہ کئی برسوں سے شام اور یمن کی خانہ جنگی سے بدحال ہوئے گھرانوں کی دیکھ بھال کی جانب مڑ ہوچکا ہے۔ طالبان کی کابل میں واپسی کے بعد افغانستان ان کے ریڈار سے غائب ہوگیا۔ رواں برس کے مارچ سے روسی وحشت کا شکار ہوا یوکرین اب ان کی تمام تر توجہ حاصل کررہا ہے۔
این جی اوز کے عالمی نیٹ ورک کے مقابلے میں ہمارے ہاں چند مذہبی جماعتوں نے بھی "خدمت خلق" کا بیڑا اٹھایا تھا۔ جماعت اسلامی اس ضمن میں پیش قدمی کی حامل رہی۔ بتدریج مگر ایسی تنظیمیں بھی وجود میں آگئیں جنہیں نام نہاد عالمی برادری "دہشت گرد" تصور کرتی ہے۔ گزشتہ دہائی میں آزادکشمیر اور بالاکوٹ وغیرہ میں زلزلہ زدگان کی فوری مدد کے لئے ان تنظیموں نے قابل ستائش خدمات سرانجام دی تھیں۔ 2010ءکے سیلاب کے دوران میں نے اپنی آنکھوں سے ایسی ہی ایک تنظیم کے رضا کاروں کو مظفر گڑھ کے نواحی قصبات میں انتہائی متحرک دیکھا۔ ان کے پاس پلاسٹک کی بنائی جدید ترین کشتیاں تھیں۔ انہیں ہوا بھرکر پھلایا جاتا اور ایک چھوٹی مگر طاقتور مشین کشتیوں کو گہرے پانیوں میں رواں رکھتی۔ ان کی بدولت جزیرہ بنے دیہات میں محصور افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جارہا تھا۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو اپنی "گرے لسٹ" میں ڈال کر مگر ایسی تنظیموں کو مردہ بناڈالا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی تسلی کے لئے ہمارے ہاں نئے قوانین کا انتہائی عجلت میں ایک بھاری بھر کم پلندہ بھی متعارف کروایا گیا۔ ان قوانین کی وجہ سے وہ تنظیمیں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے مقامی اور غیر ملکی افراد سے چندہ بھی جمع نہیں کرسکتیں۔
"دہشت گردی" کے خلاف عالمی سطح پر بنائی فضا کے ہوتے ہوئے ہماری سرکار کو ایسی سفارت کارانہ مہارت درکار تھی جو "کالعدم" قرار پائی تنظیموں کے خدمت خلق سے وابستہ شعبوں کو زندہ رکھنے کا بندوبست تلاش کرنے کی کوشش کرتی۔ سرکار مگر اس جانب توجہ ہی نہ دے پائی۔ آفتوں کی زد میں آئے انسانوں کی خدمت کا "اجارہ" تو حاصل کرلیا مگر ہماری ریاست وسرکار کے پاس ایسے وسائل اور تربیت یافتہ رضا کار موجود ہی نہیں جوہنگامی حالات کا نشانہ بنے بے پناہ انسانوں کو فوری مدد فراہم کرسکیں۔ "این جی اوز" یا مذہبی جماعتوں کی خدمت خلق کی خاطر بنائی تنظیموں کی بابت ہماری سرکار اور ریاست کو لہٰذا اپنے رویے پر ازسرنو غور کرنا ہوگا۔ ان کے انتہائی تجربہ کار رضا کاروں سے بھرپور معاونت کے بعد یقینا کوئی ایسی راہ نکالی جاسکتی ہے جو نا گہانی حالات میں شہریوں کو فقط سرکار ہی کا محتاج نہ بنائے۔ انہیں منظم انداز میں غیر سرکاری سہاروں کی بھی امید ہو۔
غیر سرکاری فلاحی تنظیموں کی اہمیت امریکہ جیسے ممالک بھی تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے ہاں ایسی تنظیموں کے لئے بے پناہ چندہ بھی جمع ہوتا ہے جو نقد امداد دینے والے افراد یا کاروباری اداروں کو فلاحی کاموں میں حصہ ڈالنے کی وجہ سے ٹیکس میں رعایت بھی دیتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسے نظام کے قیام اور اس کے بڑھاوے میں رکاوٹیں کھڑی کرناناانصافی ہے۔ حالیہ سیلاب نے پاکستان کے بے تحاشہ علاقوں میں جو تباہی پھیلائی ہے وہ غربت اور بدحالی کو آنے والے کئی برسوں تک ہمارے اوپر مسلط رکھے گی۔ خود کو دیوالیہ سے بچانے میں مصروف سرکار اپنے تئیں دُکھوں کا مداوا نہیں کر پائے گی۔